محسن انسانیتﷺ بحیثیت معلم

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

(ماہ ربیع الاول کے حوالے سے )

ایک بار محسن انسانیت ﷺ مسجد نبوی شریف میں تشریف لائے اور دیکھا کہ مسلمانوں کے دو گروہ وہاں پر الگ الگ بیٹھے ہیں،ایک گروہ ذکر اذکار میں مشغول تھا جب کہ دوسرا گروہ تعلیم و تعلم کا شغف کر رہا تھا،آپ ﷺ نے دونوں کو پسند یدگی کی نگاہ سے دیکھا اور پھر تعلیم و تعلم والے گروہ کے ساتھ شریک ہو گئے اور ارشاد فرمایا کہ ’’بعثت معلماََ‘‘لہ مجھے معلم بناکر بھیجا گیاہے۔انسانوں کے قبیلے میں بہت سے کردارہواکرتے ہیں لیکن اﷲ تعالی نے تخلیق آدم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے اپنے لیے معلم کاکردار پسند کیااور حضرت آدم علیہ السلام کو خود سے تعلیم دی اور انسانوں کے لیے رشدوہدایت کا جو سلسلہ جاری فرمایا ان کو بھی معلمین انسانیت بناکر بھیجا اور تعلیمی کلچر کے فروغ کے لیے ان معلمین انسانیت کے ہاتھوں میں اپنی کتب تھما دیں تاکہ جب کبھی یہ معلمین نہ بھی ہوں تو بھی کتاب کی صورت میں تعلیمات انسانوں کے ہاتھوں میں موجود رہیں۔آنجناب ﷺ انسانیت کے آخری معلم اس لحاظ سے ہیں کہ آپ نے معلمانہ اخلاقیات کی تکمیل کر دی ہے ،دیگر معلمین تو قیامت تک آتے رہیں گے لیکن وہ اس میدان میں کسی بھی طرح کااضافہ نہ کر پائیں گے اورعمل تدریس کے لیے آپ ﷺ کے طریقوں کی پیروی سے ہی انسانوں کے ذہنوں میں کوئی بات ڈالی جاسکی گی اور وہی طریقے ہی موثر رہیں گے جو خاتم المعلمین ﷺنے اختیار کیے۔

آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ کسی نامعلوم بات پر خیال و گمان اور ظن و تخمین سے رائے نہیں دیا کرتے تھے بلکہ وحی کا انتظار کرتے تھے۔حیات مبارکہ میں متعدد ایسے مواقع آئے جب آپ ﷺ سے کوئی سوال پوچھاگیا تو آپ ﷺ کا جواب تھا کہ وحی آنے کے بعد جواب د دوں گا۔ایک بار ایک یہودی عالم مکہ میں آیا تو مکہ والوں نے اس سے کہا کہ ہمارے ہاں ایک شخص نے بنوت کا دعوی کیا ہے ،تم پرانی کتابوں کے جاننے والے ہو بتاؤتو ہم کیسے اسکا امتحان لیں؟؟اس یہودی عالم نے کہا کہ اس سے حضرت یوسف علیہ السلام کی بابت پوچھو۔جب آپ ﷺ سے پوچھا گیاتوآپ نے ارشاد فرمایا کہ میں وحی آنے کے بعد بتاؤں گا چنانچہ حضرت جبریل نے اس سوال کے جواب میں سورۃ یوسف نازل کی ۔

آپ ﷺ کامبارک طریقہ تھا کہ بات کو ذہن نشین کراتے ہوئے مثالیں دیاکرتے تھے اس طرح مدرسہ نبوی ﷺ کے طلبہ جلدی سے بات سمجھ لیتے،نیکی کاحکم اور برائی سے روکنے کے بارے میں آپ نے مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک بحری جہاز میں کچھ لوگ سفر کر رہے ہوں اور نیچے کی منزل والوں کو پانی کے حصول کے لیے اوپر آنا پڑے جس سے اوپر والوں کو بھی دقت ہو اور نیچے والے اس دقت و تکلیف کا حل یہ ڈھونڈیں کہ جہاز کے فرش میں سوراخ کر دیاجائے تاکہ نیچے سے آنے والے پانی کو استعمال کر یں،اب اگر اوپری منزل کے لوگ نیچے والوں کو اس عمل سے روکیں گے تو خود بچیں گے اور نیچے والوں کو بھی بچائیں گے اور نہیں روکیں گے تو خود بھی ڈوبیں گے اور نیچے والوں کو بھی ڈبوئیں گے۔اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے کہ دین کاعلم رکھنے والے نیکی کاحکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے تو خود بھی اﷲ تعالی کے عذاب سے بچیں گے اور دوسروں کو بھی بچائیں گے۔آپ ﷺ نے اﷲ تعالی کے راستے میں مال دے کر پھر واپس لے لینے والے کی مثال دی کہ جیسے کتا قے کر کے چاٹناشروع کر دے۔

آپ ﷺ کسی اہم بات کو ذہن نشین کراتے ہوئے تین بار دہرایاکرتے تھے۔جیسے کہ آپ ﷺ نے ایک بار ارشاد فرمایا مذاق میں جھوٹ بولنے والے پر لعنت ہے،لعنت ہے لعنت ہے۔ایک مسلمان نے آپ ﷺ سے دریافت کیا کہ مجھ پر سب سے زیادہ حقوق کس کے ہیں ؟؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تیری ماں کے،اس نے پوچھا اس کے بعد کس کے ہیں ؟؟آپ ﷺ نے مکررارشاد فرمایا تیری ماں کے اس نے پھر اس نے پوچھا اس کے بعد کس کے ہیں ؟؟آپ ﷺ نے تیسری بار بھی یہی جواب دیا کہ تیری ماں کے جب اس مسلمان نے چوتھی بار استفسار کیا کہ اس کے بعد کس کے ہیں ؟؟تو چوتھی بار آپ نے جواب دیا کہ تیرے باپ کے۔

کبھی کبھی آپ ﷺ اپنے طالب علموں سے امتحان کی غرض سے سوال بھی پوچھاکرتے تھے تاکہ اس طرح بھی کوئی بات ذہن نشین ہوجائے۔ایک بار جب آپ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل کو گورنر بناکر یمن کی طرف روانہ کر رہے تھے اور حضرت معاذ گھوڑے پر بیٹھ چکے تھے توآپ ﷺ نے ارشاد فرمایا معاذاب تم جب مدینہ آؤتو شاید مجھ سے ملاقات نہ ہوسکے ۔پس مجھے بتاؤ کہ مسائل کو کس طرح حل کرو گے؟؟حضرت معاذ بن جبل نے جواب دیا کہ کتاب اﷲ کے مطابق،آپ ﷺ نے دوسراسو؛ل کیا کہ اگر کتاب اﷲ میں نہ پاؤ تو؟؟حضرت معاذ بن جبل نے جواب دیا کہ تب سنت رسول اﷲ ﷺ کے مطابق حل کروں گا،اس پر آپ ﷺ نے تیسراسوال پوچھا کہ اگر کسی مسئلے کا حل کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ ﷺ میں بھی نہ پاؤ تو کیا کرو گے؟؟تو حضرت معاذ بن جبل نے جواب دیا کہ کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ ﷺ کے مطابق اپنی عقل سے فیصلہ کروں گا۔آپ ﷺ اس جواب پر بے حد خوش ہوئے اور اپنا دایاں ہاتھ حضرت معاذ بن جبل کے سینے پر مارتے ہوئے انہیں شاباش بھی دی اور اﷲ تعالی کا بھی شکر اداکیا جس نے اس طرح کے لائق طالب علم عطا کیے۔

آپ ﷺ کی عادت تدریس تھی کہ خاص لوگوں کو خاص مسائل بتاتے تھے اور ہر کسی کو نہ بتاتے تھے۔ایک بارحضرت عمر ؓنے دیکھا کہ حضرت ابوہریرؓہ خوشی کے مارے بھاگتے ہوئے جا رہے ہیں،پوچھنے پر حضرت ابوہریرہ ؓنے جواب دیا کہ میں ابھی ابھی آپ ﷺ سے سن کر آ رہا ہوں کہ من قال لاالہ الا اﷲ فدخل الجنۃ جس نے کہ دیا کہ اﷲ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں وہ جنت میں داخل ہو گیا۔حضرت ابو ہریرہ ؓ بھاگتے ہوئے جا رہے تھے کہ مسلمانوں کو اس حدیث نبوی ﷺ سے آگاہ کریں ،حضرت عمرؓنے کہا کہ آئیں میرے ساتھ چلیں دونوں اصحاب رسول جب خدمت اقدس ﷺ میں پہنچے تو حضرت عمر نے عرض کی کہ یہ حدیث سن کر مسلمان بے عملی کاشکار ہو جائیں گے،آپ ﷺ خاموش رہے جس کا مطلب حضرت عمرؓکے موقف سے اتفاق تھا۔چنانچہ حضرت ابوہریرہؓنے اپنی زندگی کے آخری ایام میں یہ حدیث روایت کی تاکہ نبی ﷺ کی کوئی بات چھپانے کے مرتکب نہ ہوں۔آپ ﷺ جنگ سے پہلے بھی عسکری قسم کی مشاورت بعض اوقات مخصوص لوگوں سے ہی کرتے تھے اور رازداری برتتے تھے ،جیسے فتح مکہ کے لیے روانہ ہوتے وقت کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ لشکر کدھرجارہاہے۔

محسن انسانیت ﷺ خواتین کی تعلیم و تدریس کے لیے الگ وقت نکالتے تھے،شروع میں سوموارکا دن مخصوص تھابعد میں ایک اوردن کااضافہ بھی کردیا،خواتین چونکہ مردوں کے ساتھ مسجد نبوی میں نماز پڑھا کرتی تھیں اس لیے نماز کے بعد کے ارشادات نبویﷺ میں شریک ہوتی تھیں۔آپ ﷺ کی کثرت ازدواج کی ایک مصلحت خواتین کی تعلیم و تربیت بھی تھی کیونکہ جو مسائل براہ راست نبی ﷺ سے نہیں پوچھے جاسکتے تھے وہ مسائل امہات المومنین کے توسط سے پوچھ لیے جاتے تھے۔آپ ﷺ خواتین کے ساتھ سلام میں پہل کیاکرتے تھے،ایک بار ایک بندمحلے میں تشریف لے گئے تو مرد حضرات سب کے سب اپنے اپنے مشغولات پر گئے تھے،اور صرف خواتین ہی موجود تھیں آپ نے بآواز بلند سلام کیا،کوئی جواب نہ آیا،پھر سلام کیا کوئی جواب نہ آیا،پھر تیسری بار سلام کیا تو بھی کوئی جواب نہ آیا،تب آپ واپس لوٹنے لگے تو ہر گھر سے وعلیکم السلام یاایھاالنبی کی صدائیں بلند ہو گئیں ۔آپ ﷺ نے پوچھا کہ پہلے کیوں جواب نہ دیا تھا؟؟تو خواتین نے عرض کی کہ ہم چاہتی تھیں کہ زبان نبوت سے زیادہ سے زیادہ سلامتیاں ہم پر بھیجی جائیں تاکہ ہم رحمت خداوندی کی حق دار ٹہریں۔

آپ ﷺ کے ارشادات بہت مختصر ہوا کرتے تھے،تدریس و تعلیم کے وقت لمبے لمبے خطابات سے احتراز فرماتے تھے اصحاب رسول فرماتے ہیں آپﷺ قرآن کی آیات پڑھ کر ہمیں نصیحتیں کیاکرتے تھے۔آپ ﷺ کی زبان نہایت شستہ اور دلنشین ہوتی تھی،بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر اشعار آپ سے منسوب ہیں بہت زیارہ زور خطابت آپ ﷺ نے کبھی نہ فرمایا تھا۔خود آپ ﷺ کا قول مبارک ہے کہ خیرالکلام ما قل و دل کہ بہترین بات وہ ہے مختصر ہو اور مدلل ہو ۔ آپ ﷺ کا طویل طرین خطبہ ،خطبہ حجۃ الوادع ہے ،اسے پڑھنے لگیں تو یہ نصف گھنٹے سے کم ندت میں ختم ہوجاتا ہے اور بیان میں تو ظاہر ہے کہ اس سے بھی کم مدت لگی ہو گی۔

حسن خلق آپ کی تدریس کا سب سے عمدہ پہلو ہے آپ کے طلبہ آپ کے حسن خلق کی وجہ سے کھنچتے چلے آتے،خود اﷲ تعالی نے بھی قرآن میں آپ ﷺ کے حسن خلق کی تعریف کی ہے۔آپ ﷺ اپنے طلاب علموں کے لیے کثرت سے دعائیں بھی کرتے تھے۔قیامت تک کی انسانیت آپ کی طالب علم ہے اور آپ ﷺ کی امت تو خاص طور پر آپ کی طالب علم ہے آُ ﷺ نے اپنی امت کے لیے خاص طور پر اور کل انسانیت کے لیے عام طور پر بے حد دعائیں کی ہیں،یہ نبی علیہ السلام کی دعاؤں کا ہی نتیجہ ہے کہ گزشتہ اقوام کی سب خرابیاں موجودہونے کے باوجود امت مسلمہ اور کل انسانیت تباہ نہیں کی گئی۔محسن انسانیت ﷺ روز محشر بھی اپنے طالب علموں کو یاد رکھیں گے اور آپ نے اپنے صحابہ کو فرمایا قیامت کے دن حوض کوثرپر آجانا میں وہاں موجود ہوں گا،تب آپ ﷺ اپنے طالب عملوں کی شفاعت فرمائیں گے۔اﷲ تعالی ہمیں آپ ﷺ کا سچا طالب علم بنائے ،آمین۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 571906 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.