میڈیا کا مذہبی استعمال

دور حاضر میں ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے باعث ہونیوالی معاشرتی تبدیلیوں نے میڈیا کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ معاشرے کے ہر طبقے کے لیے ضروری ہو چکا ہے کہ وہ اپنے پیغام اور نظریات سے آگاہی اور ان کے فروغ کے لیے ذرائع ابلاغ کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج کے دور میں صرف وہی اقوام اور نظریات عالمی منظر نامے پر حاوی نظر آتے ہیں کہ جو میڈیا کے میدان میں بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ میڈیا میں کم سرگرمی کا مظاہرہ کرنیوالے دینی ، سیاسی ، سماجی غرض ہر قسم کے طبقات کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ عالمی سطح پر اور خاص کر پاکستان میں دینی طبقے نے بھی ذرائع ابلاغ کو اپنے لیے مواقف بنانے پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ اسلام کی سچی تعلیمات اور قرآن و سنت کا بھرپور علم ہونے کے باوجود اس کے ابلاغ کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی کوششیں نہیں کی گئیں جس کے باعث ملک میں سیکولر طبقہ حاوی نظر آتا ہے اور خاص کر میڈیا کے میدان میں تو اس کی کافی حد تک اجارہ داری قائم ہو چکی ہے۔ بلخصوص الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے انتہائی کم توجہ دی گئی ہے۔

مغربی دنیا میں ذرائع ابلاغ کے تمام قابل ذکر اور بڑے اداروں پر یہود ی مالکان یا تو قابض ہیں یا پھر اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے ان کی پالیسی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی میڈیا ہی یہودی مذہب اور عیسائی مذہب کی جدید تشریحات کا ترجمان نظر آتا ہے۔ سیکولرازم کے سب سے بڑے دعویدار امریکہ میں میڈیا کو کس حد تک مذہبی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے صحافی گریس ہالسلز کی ” نئی صلیبی جنگ سے متعلق کتاب Forcing God's Hand میں کچھ ایسی چیزیں دی گئی ہیں جنہیں سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ میڈیا کو مذہب کی ترویج میں کیسے استعمال کر رہے ہیں۔

یہ کتاب دو ہزار ایک میں لکھی گئی، کتاب میں اس موضوع پر گفتگو کی گئی ہے کہ کس طرح امریکی کی اندرونی اور بیرونی پالیسیاں عیسائی بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کے زیر اثر بنتی ہیں۔ یہ طبقہ میڈیا کے میدان میں بھی بھرپور اثر و رسوخ رکھتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ کسی معاشرے کے مذہبی رجحان کو بدلنے کے لیے ہمیشہ یہی ضروری نہیں ہوتا کہ کسی دوسرے مذہب کی تبلیغ کی جائے بلکہ بعض اوقات لوگوں کو ان کے عقائد اور نظریات سے دور کر دینے کے لیے بھی ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ میں اس کی مثال پاکستان میں قائم مشنری تعلیمی اداروں سے دیکھی جاسکتی ہے۔ ہمارے ملک میں کرسچن مشنری تنظیموں کی جانب سے اعلٰی طبقے کے لیے بڑے ہی پرکشش انداز میں تعلیمی اداروں کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ وافر فنڈز اور بیرونی سرمائے کی بدولت یہ تعلیمی ادارے اپنے معیار کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ہاں کی اشرافیہ اپنے ہونہار بچوں کو ان اداروں میں بھیجتے ہیں۔

اب اگر دیکھا جائے تو ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والوں میں سے بہت کم ہی عیسائیت کو قبول کرتے ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی اکثریت اسلامی تعلیمات سے مکمل طور پر ناآشنا ہو چکی ہوتی ہے۔ انتہائی چالاکی اور مہارت سے ان بچوں کے معصوم ذہنوں میں ایسا بیج بویا جاتا ہے کہ وہ زندگی کا باقی ماندہ حصہ مذہب سے دور ہی گزارتے ہیں۔ یہی لوگ بعد میں ملک کا عنان حکومت سنبھالتے ہیں اور اسکولوں میں ہونے والی نشوونما کے زیر اثر ہی ان کے ذہن دینی طبقے سے قربت پر کبھی بھی مائل ہی نہیں ہوتے۔ ٹھیک ایسے ہی بعض طاقتیں میڈیا کی طاقت کو مسلمانوں کے دلوں سے دینی روایات اور احکام و مسائل کی عزت اور اور محبت ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

ان کو غیر مسلم نہیں بنایا جارہا لیکن ان کے تعلیمی ماحول کے پیش نظر وہ مسلمان بھی نہیں رہتے۔ اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو انٹرنیٹ پر قرآن پاک کے غلط تراجم حتٰی کہ غلط متن تک موجود ہیں اور انتہائی منصوبہ بندی سے ان کو پھیلایا جا رہا ہے۔ اسلام مخالف میڈیا بھرپور طریقے سے لوگوں کے دلوں میں مذہب سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستان میں حدود بل کے خلاف میڈیا ٹرائل، ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون اور اسلامی سزاﺅں کو اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ دینی جذبات رکھنے والا بھی ان سے متنفر ہو جائے۔ اس طرح معاشرے میں ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے ہی ان قوانین کو ختم کرنے کے کوشش ہو تو زیادہ سخت ردعمل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

ٹی وی شوز میں ایسے اسکالرز کو پروموٹ کیا جاتا ہے کہ جو مرضی کے مطابق تشریحات کر سکتے ہوں۔ اس سے مختلف مقاصد حاصل ہوتے ہیں کہ ایک طرف تو مخلص دینی قیادت کو عوام کی نظروں سے ہٹا دیا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب نام نہاد مذہبی اسکالرز کے ذریعے دینی مسائل کی ایسی تشریح پیش کی جاتی ہے کہ جس سے مزید الجھنیں پیدا ہوتی ہیں اور معاشرے کا ایک بڑا طبقہ دین کو بوجھ سمجھ کر مذہبی روایات سے دور ہوتا جا تا ہے۔ پاکستان میں غیر مسلم قرار دئیے جانے والے قادیانی بھی میڈیا کے میدان میں انتہائی سرگرم دیکھائی دیتے ہیں ۔

بھارتی میڈیا بھی ہندو مذہب کی ترویج کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ڈراموں، فلموں اور مختلف پروگرامز میں مذہبی عنصر لازمی طور پر شامل کیا جاتا ہے۔ ہندو دیوی دیوتاﺅں کا تعارف، پوجا پاٹ، مذہبی گیت، مذہبی روایات وغیرہ کی بھرپور طریقے سے عکاسی نظر آتی ہے۔ بھجن، تلک، گھنگرو، پائل، ساڑھیاں اور ایسی ہی بہت سی ہندو مت سے منسلک اشیاءمیڈیا کی بدولت ہی آج ہمارے معاشرے کا بھی حصہ بنتی نظر آتی ہیں۔
مغربی اور ہندو میڈیا سے مقابلے کے لیے اسلامی حلقوں کو بھی اس میدان میں آگے آنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات کافی خوش آئند ہے کہ چاہے دیر سے ہی سہی لیکن اب دینی طبقے کو الیکٹرانک اور آن لائن میڈیا کی اہمیت کا اندازہ ہو چکا ہے اور اب اس سلسلے میں تگ و دو جاری ہے۔ کسی کو بھی اس قدرتی اصول سے اختلاف نہیں ہونا چاہیے کہ گنوائے ہوئے وقت کا ازالہ ممکن نہیں اور اب دینی طبقے کو الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں اپنا پیغام پیش کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ محنت کی ضرورت ہو گی۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی بہتے ہوئے دریا کا منہ موڑنا۔ بہرحال اگر نیت خالص ہو اور محنت کا جذبہ بھرپور ہو تو آج کے دور میں یہ کام ناممکن ہرگز نہیں ہے۔

مگر فرقہ واریت ، گروہ بندی ، اشتعال انگیز مواد وغیرہ جیسے موضوعات کو لیکر دینی ذرائع ابلاغ کے قیام میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج نیوز اور تفریحی چینل کی اجازت تو بہ آسانی مل جاتی ہے جبکہ دینی چینل کے لیے اجازت نامہ ملنا انتہائی مشکل کام ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر امریکہ اور دیگر ممالک میں میڈیا کے اتنے بڑے پیمانے پر مذہبی استعمال سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوئی، تو ہمارے یہاں میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوگا بلکہ مذہبی حلقوں کے میڈیا میں آنے سے بہت سی غلط فہمیوں کا خاتمہ ہوگا۔

الیکٹرانک میڈیا میں ناظرین کا حلقہ بہت وسیع ہوتا ہے اور ہر مقرر اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ اس کی گفتگو صرف ایک خاص طبقے تک نہیں پہنچ رہی بلکہ ہزاروں لاکھوں لوگ سن یا دیکھ سکتے ہیں۔ اس سے احساس ذمہ داری میں اضافہ ہوتا ہے۔ کوئی بھی عالم دین یا اسکالر من گھڑت اور اشتعال انگیز بات کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔وہ جانتا ہے کہ فوری طور پر ردعمل سامنے آسکتا ہے۔ اس لیے نہ صرف دینی جماعتوں کو چاہیے کہ میڈیا کے استعمال میں اضافہ کریں بلکہ حکومت کو بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

(بشکریہ محدث لائبریری)
Arif Ramzan Jatoi
About the Author: Arif Ramzan Jatoi Read More Articles by Arif Ramzan Jatoi: 81 Articles with 69495 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.