عورتوں پر تشدد اور حقوق نسواں کے ٹھیکیدار

وہ دل دہلا دینے والی نسوانی چیخ تھی ، جس سے ہڑبڑا کر میری آنکھ کھلی تھی۔آواز میں بہت درد تھا۔ ابھی میںآوازکی سمت کا تعین کر رہا تھا کہ ایک مردانہ دھاڑتی ہوئی آواز آئی، جس سے معاملہ کچھ سمجھ میں آیا۔ آواز سامنے والے فلیٹ سے آرہی تھی، جہاں اکثر گھریلو جھگڑے ہوتے رہتے تھے لیکن اس دن معاملہ تو تکار سے بڑھ کر شاید مار پیٹ تک اتر آیا تھا، جس کا اندازہ مسلسل دردانگیز نسوانیچیخوںسے بخوبی ہو رہا تھا۔ چند لمحات کے بعد ہی آوازیں اتنی بلند ہو گئیں کہ نیچے مجمع جمع ہو گیا۔ خاتون کی آواز میں اتنا درد تھا اور وہ ’بچاؤ بچاؤ‘ کی ایسی صدا لگا رہی تھی کہ میرا چھوٹا بچہ رونے لگااور میرے دل کو بھی کچھ ہونے لگا۔ میں گھر سے نکلا تو کچھ اور لوگ سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ اب تو یوں لگ رہا تھا کہ وہ جاہل شخص اپنی بیوی کو شاید مار ہی دے گا۔ ہمارے بیل بجانے پر کوئی رسپانس نہیں آیا، سوائے اس کے کہ آوازیں بتدریج کم ہوتی چلی گئیں۔ تھوڑی دیر بعد مجمع چھٹ گیا اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ وہ شخص میرے سامنے ہو اور میں اسی بری طرح اس کو ماروں ، جس طرح وہ اپنی اہلیہ کو زودکوب کر رہا تھا۔ یہ کسی دیہات کا منظر نہیں بلکہ شہر کراچی کے وسط میں ناگن چورنگی کے ایک فلیٹ کا منظر ہے، جس میں بظاہر ایکماسٹرڈ ڈگری ہولڈر شخص رہتا ہے۔

خواتین اور بچوں پر تشدد کچھ نئی بات نہیں.... اور تشدد کرنے والے کا جاہل ہونا بھی کوئی ضروری نہیں۔ اصل فرق تربیت کا ہوتا ہے۔ جن گھروںمیں بچپن سے یہ بات بچوں کو گھول کر پلا دی جاتی ہے کہ بزرگ اور خاص طور پر عورت چاہے وہ کسی بھی روپ میں ہو، قابلِ احترام ہے، وہاں بچے بڑے ہو کر بلاتخصیص محرم نامحرم عورتوں کی عزت کرتے ہیں، لیکن جہاں تربیت میں نقص ہو، بڑے چھوٹے کی تمیز نہ سکھائی جاتی ہو، خواتین کا احترام نہ بتلایا جاتا ہو، وہاںچاہے دنیا بھر کی ڈگریاں ہوں، ایسا ہی دیکھنے سننے کو ملتا ہے، جس طرح کہ ہم اس گھر میں دیکھتے رہے۔

شاید خواتین اور بچوں پر تشدد کے واقعات مرد حضرات کے مقابلے میں اس لیے زیادہ ہوتے ہیں کہ خواتین اور بچے جسمانی اور سماجی دونوں اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں، اور کمزور کو ہر ایک باآسانی دبا لیتا ہے۔لیکن اس طرح کے واقعات سے ہمارے ہاں فوراً یہ نتیجہ نکال لیا جاتا ہے کہ مرد عورتوں پر تشدد کرتے ہیں۔ لیکن گہرائی میں جا کر کوئی تجزیہ کرے تو اکثر یہی بات سامنے آتی ہے کہ کم ازکم ہمارے ہاں عورت پر تشدد کی ذمہ دار ۰۸ فی صدایک عورت ہی ہوتی ہے۔ جس گھر کا میں نے ذکر کیا، اس گھر کے بارے میں پورے محلے کو معلوم تھا کہ یہاں وہی صدیوں پرانا ساس بہو کا جھگڑا تھا۔ ساس انتہائی سفاک قسم کی تھیںاور چوں کہ ان کی اپنی کوئی بیٹی نہیں تھی، اس لیے انہیں کسی کی بیٹی کا احساس بھی نہ تھا۔انہوں نے اپنے بیٹے کی جیسی تربیت کی تھی وہ تو ظاہر تھی، دلچسپ بات یہ ہے کہ ماں کے کہنے میں آ کر وہ بیوی کو ہی نہیں مارتا تھا بلکہ خود ماں کو بھی خوب برا بھلا کہتا تھا۔ یہ اور اس طرح کے دسیوں دوسرے واقعات سے یہ کہاوت سچ ثابت ہوتی ہے کہ مشرق میںعورت کی سب سے بڑی دشمن خود عورت ہی ہوتی ہے اور مرد کی حیثیتعام طور پر ایک معمول سے زیادہ نہیں ہوتی بلکہ اکثر کیسز میں وہ خود مظلوم ثابت ہوتا ہے۔

بہرحال وجہ جو بھی ہو، تشدد اور وہ بھی کمزوروں پر، دنیا میںجہاں بھی ہو بہت زیادہ قابل مذمت بات ہے۔ایک سروے کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت اپنی زندگی میں تشدد کی کسی نہ کسی صورت میں مبتلا ہوتی ہے۔ اس سروے میں دنیا کے کسی ملک کا نام نہیں لیا گیا، بلکہ علی العموم بات کی گئی ہے۔ کیوں کہ خواتین پر تشدد ایک عالمی المیہ ہے، اور بے شک اس بزدلانہ اور قبیح فعل کے خاتمے کے لیے ہر طرح کی سنجیدہ کوشش ہونی چاہیے ۔ہمیں اعتراف ہے کہ پاکستان میں بھی عورتوں اور بچوں پر تشدد ہوتا ہے اوراس میںبھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یہ بہیمانہ تشدد ختم ہونا چاہیے۔ہمارا اس کالم کے ذریعےنکتہ ¿عتراض تو یہ ہے کہ ہمارے دانشور ہر برائی کو عموماً اسلامی ملکوں اور خصوصاً پاکستان کے ساتھ اس طرح جوڑ دیتے ہیں کہ انہیں سارے جہاںمیں سب سے زیادہ اخلاقی برائیاں مسلمانوں اور خصوصاً پاکستانی مسلمان میں نظر آتی ہیں۔ شاید کوئی اسے خود احتسابی کہے لیکن احتساب غیروں کے کندھوں پر رکھ کر نہیں ہوتا۔دیکھئے اگر کوئی مسئلہ بین الاقوامی ہے تو اسے عالمی تناظر میں دیکھنا اور حل تلاشنا ہی درست طریقہ ہے اور اس سے کسے انکارہے کہ خواتین اور بچوں پر تشدد ایک حقیقی مگر عالمی المیہ ہے۔ اب اس عالمی مسئلے کو ایک مخصوص علاقائی مسئلہ کے طور پر پیش کرنا اور پھر اس کے حل کے لیے ساری توپوں کا رخ اس خطے یا قوم کی طرف کر دینا ہرگز انصاف نہیں۔آئے دن امریکا اور اس کے سفیر اپنے پُرتشدد معاشرے کو بھول کرخاص طور پر پاکستان اور برادر ملک سعودی عرب میں عورتوں اور بچوں پر تشددکے حوالے سے گاہے بگاہے مذمتی بیانات جاری کرتے رہتے ہیں ۔کوئی امریکا کو اور مغرب کو یہ کیوں نہیں کہتا کہ بھائی آپ پہلے اپنے گھر کی تو خبر لے لو۔ جتنا ظلم عورتوں اور بچوں پر پچھلے سینکڑوں سالوں سے اب تک مغرب میں ہوا ہے، اس کا عشر عشیر بھی مشرق میں اور خصوصاً مسلم ممالکمیں نہیں ہوا۔ آج تاریخ سے ثابت ہے کہ یورپ میں۴۸۴۱ءسے۰۵۷۱ءکے درمیان کم از کم ایک لاکھ عورتوں اور دیگر ذرائع کے دعوے سے دو لاکھ عورتوں کو موت کے گھاٹ اتار ا گیاتھا۔ ان عورتوں کو مارنے سے پہلے چڑیل ثابت کیا جاتا تھا۔ ان عورتوں کی کثیر تعداد بوڑھی اور غریب عورتیں ہوتی تھیں۔ چڑیلوں کی کچھ نشانیاں مقرر کر لی گئی تھیں جیسے چہرے پہ تل یا مسہ یا کسی اور قسم کا نشان حتی کہ کیڑے کے کاٹے کا نشان بھی اس میں شمار تھا۔ اس کے ساتھ اگر ان کے پاس بلی موجود ہو توپھر کیا کہنا۔ اس سلسلے میں ایک شخص جس کا ذکر خاصا کیا جاتا ہے، اس کا نام میتھیو ہوپ کنس تھا ، پیشے کے حساب سے ایک ناکام وکیل....مگر وہچڑیلوں کو مارنے میں بہت کامیاب رہا اور ایک ایک ایک دن میں انیس مظلوم عورتوں کی حیات کا چراغ گل کرتا رہا۔ اسے وہاں کے مذہبی حلقوں کی حمایت حاصل تھی اور اس کے بدلے میں اسے مختلف ریاستی حاکموں کی طرف سے کثیر رقم ملتی تھی۔ تاریخ میں اس کا نام”چڑیل کھوجی جنرل“کے طور پہ مشہور ہے۔

آج ڈھائی سو سال بعد یورپ کا حال شاید اس سے بھی بدتر ہے۔ہمارے ہاں خواتین کے چہروں پر تیزاب پھینکنے کا ظلم ہے اور ان چہروں کو ہائی لائٹ کر کے آسکر ایوارڈ جیتا جا سکتا ہے تو مغرب بھی اس ظلم سے خالی نہیں۔ برطانیہ جیسے ”روشن خیال“ معاشرے میںایک ماڈل کیٹی پائپرکے چہرے پر اس لیے تیزاب پھینک دیا جاتا ہے کہ وہ ناجائز تعلق رکھنے پر تیار نہیں۔جس کی سزا کے طو پر پہلے اس کے ساتھ زبردستی زنا کیاجاتا ہے، پھر بدترین تشدد کر کے اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیاجاتا ہے۔ یہ حملہ دن کی روشنی میں لندن میں ہوا تھا ، جس سے کیٹی کی ایک آنکھ ضایع ہو گئی اور اسے علاج کے لیے تیس سے زائد بار آپریشن کے عمل سے گزرنا پڑا۔ وہ ان تیس لاکھ عورتوں میں سے ایک ہے جو ہر سال برطانیہ میں زنابالجبر، گھریلو تشدد، انسانی خرید و فروخت یا کسی بھی اور طرح کے سنگین تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ فرانس میںبھی خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے ہر سال پچیس ہزار واقعات ہوتے ہیں۔امریکا بھی اس بہیمیت میں کسی سے پیچھے نہیںاور حیرت کی بات یہ ہے کہ وہاں کے مادر پدر آزاد معاشرے میں عورتوں پر تشدد میں سب سے زیادہ جنسی زیادتی کا عنصر ہے۔معصوم بچوں پر تشدد بلکہ ان کے قتل و غارت میںبھی امریکاپوری دنیا میں بدنام ہے۔ وہاں شیطان کے پجاری ہر سال بیسیوں لاوارث بچوں کو اغوا کر کے شیطان کے بت کے سامنے بےدردی سے اس لیے ذبح کر دیتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شیطان سب سے زیادہ معصوم بچوں کی قربانی سے خوش ہو تا ہے۔ پچھلے چار سال میں وہاں اسکولوں میں معصوم بچوں پر بے تحاشا فائرنگ کر کے انہیں ہلاک کرنے کے بھی کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ عافیہ صدیقی کا کیس بھی کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں۔ ایک بے ضرر تعلیم یافتہ خاتون کو بے بنیاد الزام لگا کر اس کے بچوں سے الگ کر کے انتہائی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر ۶۸ سال کی سزا سنائی گئی۔ اس پر کسی حقوقِ نسواں کی علمبردار تنظیم نے آواز نہیں اٹھائی۔ غرض اعداد وشمار کو دیکھا جائے تو دنیا کے دیگر ممالک میں ایسے واقعات پاکستان اور سعودی عرب کی نسبت بہت زیادہ ہوتے ہیں۔پڑوسی ملک بھارت میںدیکھیے ۔ وہاں ایک طالبہ پر جنسی تشدد کا حالیہ واقعہ جبری جنسی تشدد اور آبرو ریزی کا پہلا واقعہ نہیںہے، بلکہ 2004ءسے 2010ءتک کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں ہر سال اوسطاً آبرو ریزی کے اٹھارہ سے بائیس ہزار واقعات سرکاری طور پر درج کیے جاتے ہیں۔

جب دنیا بھر میں عموماً اور خصوصاً ترقی یافتہ ممالک میں عورتوں پر تشدد کے بے شمار واقعات ہوتے ہیں تو پھر صرف پاکستان کے کسی واقعہ کو بنیاد بنا کر یہاں کے حقوق نسواں کے ٹھیکیدارپوری دنیا میں پاکستان کو ایسے بدنام کیوں کرتے ہیں کہ جیسے یہاں سب جنگلی اور وحشی رہتے ہیں۔شاید اسی سے ان کی روزی روٹی وابستہ ہے۔
Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 186420 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More