2004 میں ریلیز ہونے والی فلم
“ٹرمنل” میں ٹام ہینکس نے ایک ایسے شخص کا کردار ادا کیا تھا جو کسی قانونی
پیچیدگی کے باعث ایک ایئر پورٹ پر پھنس کر رہ جاتا ہے اور اُس کے بہترین
سال اِس عجیب صورتِ حال کی نذر ہو جاتے ہیں۔ جنوبی امریکا کے ملک چلی کے
دارالحکومت سانتیاگو کے ایئر پورٹ پر ایک ہسپانوی باشندہ اِسی طرح پھنسا
ہوا ہے۔ راڈریگو بین ایزل اپنے رشتہ داروں کا کوئی جھگڑا نمٹانے چلی آیا۔
وہ معاملہ تو اٹکا ہی رہا، خود راڈریگو وطن واپس نہ جاسکا اور آٹھ ہفتوں سے
ایئر پورٹ پر پھنسا ہوا ہے۔ پیسے ختم ہو جانے کے باعث اُس کی حالت قابل رحم
ہے۔ کھانا بھی مشکل سے ملتا ہے۔ کچرے کے ڈبے سے وہ سگریٹ نکال کر پیتا ہے۔
ہم سب بھی شاید حالات کے ٹرمنل میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ آگے جانے کی اجازت
ملتی ہے نہ پیچھے جانے کی۔ “جیسا ہے، جہاں ہے” کی بنیاد پر زندگی بسر ہو
رہی ہے۔ معاملات کب کے درست ہو جائیں مگر کوئی نہ کوئی قانونی مُوشِگافی
معاملات کو اُلجھاتی ہی چلی جاتی ہے۔
متوقع انتخابات جوں جوں قریب آ رہے ہیں، حالات کو اپنے حق میں کرنے سے
متعلق اہل سیاست کی کوششیں بھی وسعت اختیار کرتی جارہی ہیں۔ میڈیا کا دامن
بھی بہت وسیع ہے جس میں سبھی کو جگہ مل جاتی ہے۔ اگر کوئی مناسب کوریج نہ
مل پانے کا شکوہ کرے تو سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم حاضر ہے۔
ایک طرف طاہرالقادری سے مذاکرات کا ڈراما چل رہا ہے اور دوسری طرف حکومت
بظاہر سپریم کورٹ سے ٹکرانے کی تیاری کر رہی ہے۔ شُنید ہے کہ نیب کے
چیئرمین ایڈمرل (ر) فصیح بخاری کی طرف سے صدر آصف زرداری کو بھیجے جانے
والے خط کی بنیاد پر سُپریم کورٹ کے خلاف ریفرنس لانے پر غور کیا جارہا ہے!
شاید قسم کھالی گئی ہے کہ صورتِ حال کو اُلجھانے میں کوئی بھی کسر اُٹھا نہ
رکھی جائے گی۔
چوہدری شجاعت حسین اب تک بضد ہیں کہ میلہ طاہرالقادری نے لوٹ کر لے گئے۔
اور یہ کہ متحدہ اور تحریک انصاف کو ممکنہ طور پر شدید پچھتاوے کا سامنا
ہوگا! طاہرالقادری کا سیاسی قد مزید بلند کرنے کے لیے ق لیگ کے سربراہ یہ
بھی کہتے سُنے گئے کہ حکومت اُنہیں ویٹو پاور نہیں دے رہی! چوہدری صاحب کو
شاید حکومت نے یہ ٹاسک دے دیا ہے کہ انتخابات سے قبل کی سیاست میں قادری
فیکٹر کو ہر قیمت پر زندہ رکھنا ہے! ہمیں حیرت اِس بات پر ہے کہ سیاست کا
میلہ ابھی جاری ہے تو لُوٹنے کا کریڈٹ طاہرالقادری کی زنبیل میں کیسے ڈالا
جاسکتا ہے! اِس میلے میں سارے کرتب اور تماشے ابھی سامنے کہاں آئے ہیں؟
سارے مداری موقع کی مناسبت سے اپنی اپنی کاری گری کا کمال دکھاکر داد پارہے
ہیں۔ شائقین متوجہ رہیں، ابھی بہت کچھ ہے جس پر سے پردہ اُٹھایا جانا ہے!
٭ بیانات اور انکشافات کے میلے میں سب سے رنگا رنگ اسٹال وفاقی وزیر داخلہ
رحمٰن ملک کا ہے جو کبھی حکومت کے مخالفین کو سردی اور سانپ سے ڈراتے ہیں
اور کبھی عوام کو بُرے حالات کی “نوید” سُناتے ہیں! رحمٰن ملک کو اللہ نے
ایسا “کمال” عطا کیا ہے کہ اچھی خبر بھی اُن کے لہجے میں ڈھل کر بُری معلوم
ہونے لگتی ہے! کراچی کے حوالے سے وہ آئے دن خطرے کی گھنٹی بجاتے رہتے ہیں۔
موصوف نے کل یہ کہتے ہوئے کراچی کے حالات زدگان کو مزید بدحواس کردیا کہ
شہر میں جلد گھمسان کی دہشت گردی ہونے والی ہے! گھمسان کا لفظ اِس قدر
“جامعیت” کے ساتھ شاید ہی کسی نے استعمال کیا ہو۔ پاکستان اور بھارت کی
افواج میں شعور کی سطح اِس حد تک تو بلند ہوچکی ہے کہ اب وہ لڑنے بھڑنے سے
گریز کرتی ہیں۔ ایسے میں “گھمسان” کے نشانے پر صرف عوام رہ گئے ہیں!
٭ زمانہ ما قبل انتخابات میں ہر معاملے کو منطقی یا غیر منطقی حد تک
پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ناصر کاظمی مرحوم نے کہا تھا۔
آئے ہیں اِس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں!
بس کچھ ایسی ہی کیفیت ایفیڈرین کیس کے حوالے سے بھی پیدا ہوئی ہے۔ راولپنڈی
میں انسدادِ منشیات کی خصوصی عدالت نے ایفیڈرین کیس میں سابق وزیر اعظم کی
اہلیہ فوزیہ گیلانی، ان کے صاحبزادے علی موسٰی گیلانی، مخدوم شہاب الدین
اور خوشنود لاشاری کے اثاثے منجمد کرتے ہوئے اُنہیں حکم دیا ہے کہ 12 فروری
تک اپنی آمدن کے ذرائع بتائیں۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ چاروں ملزمان کے
“معلوم” اثاثے کتنے ہیں جنہیں منجمد کیا گیا ہے۔ عام طور پر بڑوں کے ٹیکس
گوشواروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن سے زیادہ دولت تو بریانی کے ٹھیلے لگانے
والوں کے پاس ہے!
٭ الیکشن کمیشن نے 46 نکاتی ضابطہ اخلاق جاری کرکے تمام زمینی حقائق سے
یکسر نابلد ہونے کا بھرپور ثبوت فراہم کیا ہے۔ یہ نکات عجیب و غریب ہیں
مثلاً صدر، وزیر اعظم، گورنرز اور وزرائے اعلیٰ انتخابی مہم میں حصہ نہیں
لے سکیں گے، میڈیا پر دباؤ ڈالنے پر پابندی ہوگی، سرکاری خرچ پر کوئی بھی
انتخابی تشہیر نہیں کرسکے گا، ہر امیدوار انتخابی اخراجات مخصوص اکاؤنٹ سے
ادا کرے گا، جلسہ گاہ میں پولنگ ڈے پر اسلحے کی نمائش نہیں کی جاسکے گی،
انتخابی نتیجے کا اعلان کئے جانے پر فائرنگ ممنوع ہوگی وغیرہ وغیرہ۔
انتخابی ضابطہ اخلاق میں جو کچھ درج ہے اُسے پڑھ کر بچے بھی ہنسنے پر مجبور
ہوں گے کیونکہ ٹی وی پر اِس کے برعکس سیاسی ڈراما تو وہ بھی دیکھ ہی رہے
ہیں! اب ہم یہ دعوٰی نہیں کرسکتے کہ بچے تو غیر سیاسی ہوتے ہیں!
٭ نئے صوبوں کی تشکیل کے معاملے پر صوبہ ہزارہ تحریک کے سربراہ بابا حیدر
زمان نے پہلے تو سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کرکے ہنسانے کی کوشش
کی اور تان توڑی پارلیمنٹ پر۔ یعنی وہاں دھرنا دیا جائے گا۔ کراچی کے علاقے
نارتھ ناظم آباد میں مین روڈ پر واقع مسجد فاروق اعظم میں غسل میت کا بھی
اہتمام ہے۔ اس مسجد کے جس بیرونی کمرے میں مُردے نہلائے جاتے ہیں اُس کے
باہر دروازے کے ماتھے پر “مقام غسل میت” لکھا ہوا ہے۔ ہم جب بھی پارلیمنٹ
ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے کی بات سُنتے ہیں تو یہ مسجد فاروق اعظم کا یہ
کمرہ ذہن میں گھومنے لگتا ہے۔ جمہوری دور میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے کا
علاقہ تو “مقام سیاسی غسل میت” میں تبدیل ہوتا جارہا ہے!
٭ اور اب آخر میں پنچ لائن کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس کے بعد پی ایم ہاؤس چلتے
ہیں۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف فرماتے ہیں کہ جمہوریت کے سوا کوئی بھی
حکومتی نظام قبول نہیں کیا جاسکتا۔ ہم پہلے ہی اُن کے بیان پر شک کر رہے
تھے، رہی سہی کسر اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے پوری کردی کہ فوج سمیت تمام ادارے
“جمہوریت” کے تسلسل پر متفق ہیں! جو کچھ جمہوریت کے نام پر آٹھ دس برسوں
میں ہوا ہے اُس سے کسی بھی ریاستی ادارے کو کیا پریشانی لاحق ہوسکتی ہے!
عوام کا یہ حال ہے کہ
رہا کھٹکا نہ چوری کا، دُعا دیتا ہوں رہزن کو! |