حضور ﷺ کی بعثت کا مقصد

محمد زاہد عزیز

جس وقت عالم انسانیت کفر کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوب چکی تھی ۔انسانوں کے لیے سانس لینا مشکل ہوتا جا رہا تھا ۔والد اپنی بیٹی کی پیدائش کو اپنے لیے باعث ذلت سمجھتا تھا۔ ذرہ زرہ سی باتوں پر جنگ چھڑ جایا کرتی تھی۔ معاشرہ بے راروی کا شکار تھا آہوں اور سسکیوں میں دم لیتی انسانیت بھی کسی مسیحا کی منتظر تھی ۔

ایسے نازک اور سلگتے ماحول میں اللہ تعالیٰ نے سرورکونین فخردو عالم ﷺ کو نبی رحمت بنا کر مبعوث فرمایا ۔اور یہ پیغام اور خوشخبری دے دی کہ اے محمد! ہم نے آپ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجاہے۔

انبیا علیہ ا لسلام کی بعثت کا بنیادی مقصد اپنی قوم کو جہالت کی تاریکی سے نکال کر ہدایت کی روشنی کی طرف لانا تھا۔اور یہی بعثت کامقصد آقائے نامدار تاجدارِمدینہ سرکاردو جہاںخاتم المرسلین ﷺکا بھی تھا ۔

جسے قرآن مجید میں سورت ال عمران کی آیت 163میں بڑے احسن طریقے سے بیان کیا گیاہے ۔

ترجمہ:اللہ نے احسان کیا مومنوںپرجو بھیجا رسول انہی میں سے ۔پڑھ کر سناتا ہے ان کو اللہ کی طرف سے نازل کردہ آیتیں ۔اور وہ ان کو پاک کرتا ہے ۔اور ان کو قرآن اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔اور وہ پہلے سے صریح گمراہی میں تھے۔

اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں امت محمدیہ پر اپنے خاص چار احسانات کا ذکر فرمایا اوریہ احسان عظیم فرمایاکہ ہمیں رسول اللہﷺ کی امت میں پیدا ہونے کا شرف عطا فرمایا۔آپ کے آتے ہی ظلمت کے بادل چھٹنے لگے۔تاریکی روشنی کا روپ دھارنے لگی۔نفرتیں محبتوں میں بدلنے لگیں۔آپ کی تعلیم کا اثر یہ ہوا کہ جو خود نہ تھے راہوں پر وہ اوروں کے رہنما بن گئے۔ جو آپ کے جان لیواتھے وہ آپ پر جان نچھاور کرنے والے بن گئے۔آپ کی بعثت تمام انسانوں کے لیے عام تھی ۔حاکم محکوم ،بادشاہ گدہ غنی اورمحتا ج سب آپ کی تعلیمات سے مستفید ہوئے۔آپ نے قیصرو کسریٰ اورحبشہ کے بادشاہوں تک خطوط کے ذریعے اسلام کا پیغام پہنچایا۔

آپ کو ہر اعتبار سے کامل اور اکمل بنا کر مبعوث کیا گیا۔آپ اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔آپ نے اپنی نرم گوئی اور حکیمانہ گفتگو سے بڑے بڑے طوفانون کا رخ چینج کیا۔آپ نے ارشاد فرمایا:جو شخص نرمی کی صفت سے محروم کیا گیا وہ ساری خیر سے محروم کیا گیا۔آپ نے مزید ارشاد فرمایا: مومن اپنے حسن اخلاق سے دائمی صوم وصلوٰ ةکا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔

آپ نے ظالم کے ظلم کی سختی سے تردیدفرمائی۔آپ نے ارشاد فرمایا:جس نے اپنے بھائی پر ظلم کیا ہو تو اسے چاہیے کہ آج ہی اس سے پاک ہو جائے اس دن سے پہلے کہ اس کے پاس دینے کو نہ دینار ہو گا اور نہ درہم ظلم کا بدلہ ظلم کے برابر دینا ہو گا ۔مظلوم کو نیکیاں دلوائی جائیں گی اگر نیکیاں نہ ہوں گی تو مظلوم کی بدیاںظالم پر لاد دی جائیں گی۔

آپ نے ایک اور مقام پر فرمایا جو آدمی یہ چاہتا ہے کہ قیامت کے دن اسکے درجات بلند ہوں اس کوچاہیے کہ وہ ا س آدمی کو معاف کرے جس نے اس پر ظلم کیا ہو اور اس کو دے جس نے اس کو نہ دیا ہو اس کے ساتھ رشتہ جوڑے جس نے اس سے رشتہ توڑا ہو ۔اور اس کی بات برداشت کرے جس نے اس کو برا کہا ہو۔

آپ نے اس کی عملی مثال فتح مکہ کے موقع پر پیش کر کے اپنے دشمنوں کو حیران کر دیاجو گمان کیے بیٹھے تھے کہ آج ان کے ظلم کا بدلہ ظلم کے ساتھ دیا جائے گالیکن قربان جاﺅں آقا ئے نامدار کی شان کریمی پر آپ نے عام معافی کا اعلان کیا اور اعلان فرمایاآج جو ابو سفیان کے گھر چلا گیا اسکو امان ہے جو مسجدِحرام میں داخل ہو گیااسکو امان ہے۔جس نے گھر کا دروازہ بند کر لیا اسکو امان ہے۔آج بدلہ نہیںمعافی کا دن ہے۔

آج کا مسلمان آنحضورﷺکے ارشادات اور ان کی حیات مبارکہ سے روگردانی کرنے کی وجہ سے تباہی کے دھانے پر آکھڑا ہوا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اللہ کے حضور اجتماعی طور پرتوبہ کر کے اس کی بندگی اور رسول اللہ ﷺکی غلامی میں آجائیں اور حضورﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر حقیقی معنوںمیں سچا امتی ہونے کا ثبوت دیں۔
Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 275713 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More