محمدافروز قادری چریاکوٹی
دبئی کے ایک عظیم الشان اِسلامی فنکشن میں ایک ترکی نژاد بچی کے ذریعہ پیش
کی گئی ایک رقت انگیز،ولولہ خیزاور ایمان افروز جذباتی ترکی نظم، جس نے
لاکھوں آنکھوں کو ساون بھادوں بنادیا۔اور دلوں میں حیاتِ رسولِ ہاشمی علیہ
الصلوٰۃ والسلام کی ترنگیں بھر دی۔ یقینا اُن کیفیات کو لفظ کے کٹوروں میں
سمیٹنا بہت مشکل ہے؛ لہٰذا اصل منظر دیکھنے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پرکلک
کریں۔ یہاں آپ کی ضیافت طبع کے لیے اُس کا اُردوخلاصہ پیش ہے۔ -چریاکوٹی-
اے اللہ!کہاں تیری رحمت بے پایاں! اورکہاںہماری آلودۂ عصیاں زباں!!۔
لیکن اگر تجھ سے طالب عنایت وکرم نہ ہوں توپھراورکون ہماری جھولی بھرے !!!۔
یارسول اللہ! آپ کل کائنات کے لیے رحمت تمام بناکر بھیجے گئے ہیں۔
ہماری کم نصیبی کہ ہم ایسے دور میں پیدا ہوئے جب آپ نے ظاہری دنیا سے پردہ
فرمالیا۔
مگرآپ کی سیرتِ طیبہ کی روشنی ہمارے جسم وجاں کے رگ وریشے میں اُتری ہوئی
ہے۔
سرکی آنکھیں گرچہ آپ کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔
مگر دل کی آنکھیں آج بھی آپ کے دیدار سے شرف یاب ہورہی ہیں۔
اپنی عمرمبارک کا پہلا سال آپ نے قبیلہ بنی سعد کی پربہار فضائوں میں
گذارا۔
چونکہ دودھ پلانے والیوں نے -یتیم ہونے کے باعث- آپ کو قبول کرنے سے اِنکار
کردیاتھا۔
اس لیے اُس خوںچکاںمنظر کو دیکھ کر آسمان کے بادل برہم ونالاں ہوگئے۔
اورایسی ناقدری قوم پر بارش کا ایک قطرہ برسانے کے روادار نہ ہوئے۔
پورا قبیلہ بنی سعد شدیدقحط سالی کا شکار ہوگیا۔
بادل کا ایک چھوٹا سا ٹکڑاآپ پر دل وجاں سے فدا ہوگیا، جو ہمہ وقت آپ پر
سایہ کناں رہتا۔
خشکی کا یہ ہوش رباعالم لوگوں کوایک میدان میں کھینچ لایا۔
جہاں بھرپور اِلحاح وزاری کے ساتھ بارش کی دعائیں مانگی جانے لگیں۔
دائی حلیمہ آپ کو اپنے سینے سے چپکائے ہوئی تھیں۔
آپ کی بلائیں لے رہی تھیں۔
اوردھوپ سے آپ کو بچانے کی کوشش کررہی تھیں۔
لیکن آسمان پربادل کا وہ چھوٹا سا ٹکڑا ہروقت آپ کی حفاظت کرتا۔اور آپ کے
لیے سائبان بنارہتا۔
نیزبادل کا وہ ٹکڑا آپ کی نگاہِ اقدس کو دیکھ کرآپ پروارے وارے جاتا تھا۔
ہمارے جان ودل اس چشمانِ مقدس کے قربان جو آسمان کی بلندیوں کو تکتی رہتی
تھیں۔
اب بادل کا وہ ٹکڑاپھیلنا شروع ہوا اوربڑھتا گیا۔
یہاں تک کہ بارش کے قطرے رحم کھاکر رم جھمانا شروع ہوگئے۔
لیکن بہت سے لوگوں کو یہ راز نہ معلوم ہوسکا کہ بارش کے اِن قطروں کے
اُترنے کا باعث کون ہے؟۔
بلکہ ہم میں کتنے ایسے ہیں جو صحیح معنوں میں آپ کی (قدرومنزلت) جانتے ہی
نہیں۔
یارسول اللہ! یہ آپ کی حیاتِ مبارکہ کا چھٹا سال ہے۔
جب والدۂ ماجدہ اورام ایمن کے ساتھ آپ نے مدینہ منورہ کا رخ کیا۔
آپ کو اس وقت اپنی یتیمی کا کس شدت سے اِحساس ہوا ہوگاجب آپ اپنے والدگرامی
کی قبر سے گزرے!۔
پھر مقامِ ابوا پہنچ کرعظیم ماں کا گھنیرا سائبان بھی سرسے اُٹھ گیا۔
جس وقت آپ مکہ پہنچتے ہیں، ساتھ نہ ماں ہوتی ہے اور نہ باپ۔
اب دادا عبدالمطلب کاپیارودلاراورابوطالب کی شفقت وعنایت آپ کی طرف بہت
زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
یارسول اللہ! کیامکہ کے بچوں نے کبھی آپ کی طرف سے اپنی مائوں کو ’ماں‘ کہہ
کے پکاراکہ آپ کوکچھ ڈھارس بندھے؟۔
یارسول اللہ! جب مکہ کے بچے آپ کے سامنے اپنی مائوں کے نام لیتے ہوں گے تو
اُس لمحے آپ کے دل پر کیا بیتتی ہوگی؟۔
جب وہ ’اے ماں!‘کہتے تھے تو کیاآپ اس وقت اپنی نگاہ زمین کی طرف کرلیتے
تھے؟۔
یارسول اللہ ! مکہ کی ہوائوں نے خدامعلوم کتنی راتوں تک آپ کے آنسوئوں کا
پیغام مقام اَبوا تک پہنچایاہوگا!۔
نہ معلوم آپ نے کتنی راتیں’اے ماں‘، ’میری ماں‘کہہ کرروتے روتے کاٹ دی ہوں
گی۔
اے مرے آقا! آپ کی خاطر ہم اپنی مائوں کو کتنی مدت سے ’اے ماں‘ ،’میری
ماں‘کہہ کہہ کرپکار رہے ہیں۔
اے مرے سرور!آپ کی خاطر ہم اپنے باپوں کو کتنی مدت سے ’اے بابا‘ کہہ کہہ
کرپکار رہے ہیں۔
زندگی کا پچیسواں سال آتا ہے۔
آپ کائنات کے سارے لوگوں سے بدلے بدلے معلوم ہوتے ہیں۔
کوئی آپ کی گردِ راہ کو بھی نہ پہنچ سکا۔
آپ کی بوے جاں نوازرحمت کی برکھا لے کر آتی ہے۔
آپ کی آوازِ مبارک سلامتی کے پھول برساتی ہے۔
بے شک آپ محمدصادق الامین ہیں۔
عمرمبارک جب تینتیس سال کو پہنچتی ہے، تورحمتوں میں تموج آتاہے۔
اب پینتیس سال کا سفرطے ہوگیا ہے۔ میرے آقا! آئیں،دیر نہ فرمائیں ۔
آہیں آسمان کے دروازوںکوکھٹکھٹارہی ہیں۔
اے میرے سرور! آئیں، دیر نہ فرمائیں۔
کریم آقا! انتظار کی آنکھیں دھندلاتی جارہی ہیں۔
ہمارے سینوں میں دل‘ قرار کھورہے ہیں۔
صبروشکیب کے کبوترہاتھوں سے اُڑجایاچاہتے ہیں۔
اے میرے ماویٰ وملجا! آئیں، دیر نہ فرمائیں۔
جبل نور کی طرف سے آپ کو مسلسل بلاوا آرہا ہے۔
یہ عمرپاک کا چالیسواں سال ہے۔
جبل نور کے اوپر آپ غارِ حراکے اندر تشریف لے جاتے ہیں۔
جبرئیل امین آسمان سے اُترتے ہیں۔
کائنات کا ذرّہ ذرّہ آپ پردرودوسلام کے گجرے نچھاور کررہا ہے۔
ساری کائنات کے دل آپ کے فراق میں غم زدہ اورشوقِ وصال کے آرزومند ہیں۔
آپ کا وجود ہمارے لیے ایسے ہی ہے جیسے گھٹاٹوپ اندھیرے کے بعد سپیدۂ سحر کا
طلوع۔
بے شک آپ اللہ کے نبی ہیں۔اوریقینا آپ اللہ کے محبوب رسول ہیں۔
یارسولِ عظیم! پھر لوگوں نے آپ کو غم زدہ کیوں کیا؟۔اور آپ کو تکلیفیں کیوں
پہنچائی؟۔
کیا اس لیے کہ ابوطالب فوت ہوگئے، تواب انھیں آپ پرستم ڈھانے کا موقع مل
گیا؟۔
کیا اس لیے کہ اب بظاہر کوئی آپ کا حامی ومددگار نہ تھا، تو وہ آپ پر ٹوٹ
پڑے؟۔
یارسول اللہ! آج بھی ہم خانۂ کعبہ کے سامنے آپ کی چشمانِ مقدس سے ٹپکتے
ہوئے آنسودیکھ رہے ہیں۔
اور آپ فرمارہے ہیں: چچا!جلدی آجائیں۔آپ کے بچھڑنے کا مجھے بہت ملال ہے۔
آج مجھے کافی تنہائی کا اِحساس ہورہا ہے۔
یارسول اللہ! حرمِ مکہ میں آپ کی نمازوں کا منظر بڑا عجیب تھا۔
آپ مالک الملک کے حضور اپنی جبین اقدس جھکائے ہوتے۔
اوریہ (کفارناہنجار)اُس پر کوڑاکرکٹ لاکرڈال دیتے۔
پیارے آقا!آپ کے مقدس سرپر ہمارے سرقربان جائیں۔
یہ ناہنجار آپ کو دیکھ کرہنستے اور ٹھٹھاکرتے تھے۔
)آقا!یہ نادان تھے انھیں آپ کی قدرومنزلت کا علم نہ تھا،عنادوحسدنے انھیں
اندھاکردیا تھا(
مکہ کی گلی کوچوں میں آپ کی طرف دوڑدوڑکر آنے والا کون تھا؟۔
وہ کون تھا،جب چلتاتو ایسا لگتاکہ عرش بالاے فلک سے اُتر پڑے گا۔
آخر یہ کون ہے؟۔
ایک گوشے سے جواب آتاہے:یہ ام الصالحین فاطمہ زہرابنت محمدہیں(علیہا وعلیٰ
ابیہاالصلوٰۃ والتحیۃ)۔
جوبڑھ بڑھ کر چشمانِ نبوت سے گرتے ہوئے آنسوئوں کو پونچھتی ہیں۔
کائناتِ ارض وسمامیں یہ سب سے زیادہ آپ کے مشابہ ہیں۔
جب وہ مسکراتیں اورروتیں تو ایسا لگتاکہ بس ہوبہو آپ ہی ہیں۔
گویاچشم تصورکے جھروکے سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ انھیں فرمارہے ہیں:
میری لخت جگر! نہ رو۔(اللہ نے بہشت کی عورتوں کی سرداری تیرے نام لکھ دی
ہے)۔
یارسول اللہ! آخراُن ناہنجاروں نے آپ کوآپ کے وطن سے کیوں نکال باہر کیا
تھا؟۔
کیا اس لیے کہ آپ تن تنہا رہ گئے تھے؟۔
کیا انھیں پتا نہ تھا کہ آپ کا اصل حامی وناصر کون ہے؟۔
کیا انھیں خبر نہ تھی کہ عالم یتیمی میں کس نے آپ کوپناہ دے کربہترین تربیت
سے نوازا تھا؟۔
کیاانھیں معلوم نہ تھا کہ کس نے آپ کو کل کائنات کے لیے رحمت بناکر بھیجا
ہے؟۔
کہنے والوں نے آپ کو ’شاعرومجنون‘ کہا۔
لیکن آپ کے تحمل پر قربان جائوںآقاکہ آپ نے اُن کا کوئی جواب نہ دیا۔
وہ دھمکیاں دے کر کہتے تھے کہ اب ہم سے تمہیں کون بچائے گا؟۔
آپ فرماتے: اللہ عزوجل۔
اس وقت آسمان خوف وخشیت سے لرز جاتا ہوگا۔
اور عرش کے پائے ہل جاتے ہوں گے۔
یارسول اللہ! آپ نے ’اللہ‘ کہا تو تین ہزار گھڑ سوارفرشتے آپ کی بارگاہ میں
اُترآئے۔
آقا!اُن ناہنجاروں کی بکواس سے آزردہ خاطر نہ ہوں۔
یہ دیکھیں ایک لاکھ چوبیس ہزارصحابہ کرام کی زبانیں کیاکہہ رہی ہیں :
بأبی أنت وأمی یا رسول اللّٰہ ۔
(پیارے آقا!ہمارے ماں باپ آپ پروارے وارے جائیں)
یارسول اللہ! مدینہ منورہ کی مبارک گلیوں میںآپ خرام ناز فرمارہے ہیں۔
بنی نجار کی چھوٹی چھوٹی بچیوں کی نظر جب آپ پر پڑتی ہے۔
عالم شوق وفرحت میں نہ معلوم وہ کیا کیا کہہ جاتی ہیں۔
آپ ان سے پوچھتے ہیں، کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے؟۔
تووہ بیک زباں ہوکر عرض کرتی ہیں:ہاں،یارسول اللہ!ہم آپ پر بدل وجاں فدا
ہیں۔
پھرزبانِ رسالت سے ارشاد ہوتا ہے:اللہ گواہ ہے کہ میں بھی تم سے محبت کرتا
ہوں۔
یارسول اللہ! اِس دور میں بہت سے بچے اور بچیاں -جن کا تعلق بنونجارسے
تونہیں-
لیکن پھر بھی وہ آپ پر اپنی جانیں چھڑکتے ہیں، اور آپ سے ٹوٹ کر محبت کرتے
ہیں۔
آپ کی محبت میں اُن کی آنکھوں سے گرتے ہوے آنسوگواہ ہیں کہ وہ اپنی جانوں
سے بھی بڑھ کر آپ سے پیار کرتے ہیں۔
یارسول اللہ! آپ کے سوابھری دنیا میں اُن کا اور ہے ہی کون!۔
عمرمبارک ساٹھ سال سے متجاوز ہوتی ہے توزبانِ مبارک سے نکلتا ہے :الرفیق
الاعلیٰ۔
آپ ایک روز اُون کا ایک خوبصورت جبہ زیب تن فرماتے ہیںجو خاص آپ ہی کے لیے
تیار کیاگیاتھا۔
جس کے کونوں سے سفیدی پھوٹی پڑتی تھی۔
آپ اس میں ملبوس ہوکر اپنے صحابہ کے سامنے تشریف لاتے ہیں۔
اپنے دست مبارک سے زانوکو ٹھوکتے ہوئے فرماتے ہیں :
کبھی تم نے ایسا خوبصورت اور نفیس جبہ دیکھاہے؟۔
مجلس کے ایک کونے سے آواز آتی ہے :
یارسول اللہ!اِسے مجھے عنایت فرمادیں۔میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔
اُس شخص نے وہ جبہ آپ سے کیوں مانگا،حالانکہ اسے پتاتھاکہ یہ آپ کو
بھاگیاہے۔
شاید اس لیے کہ اسے پتاتھا کہ ’نہیں،سنتا ہی نہیں مانگنے والا اِن کا‘۔
چنانچہ آپ نے وہ گراں قدرجبہ اسے عطا فرمادیا۔اورپھرعام جبہ زیب تن
فرماکرباہرتشریف لائے۔
محبوب سے ملاقات میں بس ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے۔
عقیدت مندوں نے متعددبار اُسی طرز کا جبہ تیارکراکے آپ کو پیش کرنا چاہا۔
لیکن آپ کو اُسے پہننے کا یارا نہ ہوا۔
ابوہریرہ کے ذریعہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچایاکہ :
لَیَأتِیَنَّ عَلیٰ أحَدِکُمْ زَمَانٌ لأَنْ یَّرَانِي أحَبُّ إلَیْہِ مِنْ
أنْ یَّکُوْنَ لَہٗ مِثْلُ أہْلِہٖ وَمَالِہٖ ۔
یعنی تم پر ایک ایسا زمانہ ضرور آئے گاکہ تم میں سے ایک آدمی کو میرا
دیکھنا اسے اپنی اولاد اور مال سے زیادہ عزیز ہوگا۔
پھر آپ نے اپنے بھائیوں سے اپنا شوقِ ملاقات بھی بایں الفاظ بیان فرمادیا :
إنی أشتاق لإخوانی یؤمنون بی ولم یرونی ۔
یعنی مجھے اپنے اُن بھائیوں سے ملنے کااشتیاق ہے جومجھ پر بِن دیکھے ایمان
لائیں گے۔
پیارے آقا! آپ مدینہ منورہ کے منبرسے حزن وملال کے لہجے میں آواز لگارہے
ہیں :
اے میری اُمت، اے میری اُمت۔
اے وہ ذات! جس نے فضاے مکہ میں رہ کر خلق خدا کی بہتری کے لیے اللہ سے
دعائیں مانگی۔
اللہ نے آپ کی وجہ سے ہم پر کتنالطف واحسان فرمایا ہے۔
یارسول اللہ! ہم اپنے گھٹنے ٹیک کرآپ کے دست اقدس پر بیعت کررہے ہیں۔
آپ اپنے رب کے پاس سے جوکچھ ہمارے پاس لائے اُس پر ایمان لاتے ہیں۔
یارسول اللہ! سمعنا واطعنا ۔ ہم نے بس سنا اور مان لیا۔
یارسول اللہ! آپ اب بھی ہم میں تشریف فرما ہیں۔ عمرکا گویا چالیسواں سال
ہے۔
اور آپ اپنی اُمت کی زمام تھامے انھیں سوئے حرم بلکہ جانب اِرم لیے جارہے
ہیں۔ |