محمد زاہد عزیز
کبھی کبھی عقل سلیم یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ آخر آج تمام کفریہ
طاقتیں یکجا ہو کر اسلام اور ہمارے مذہبی کلچر کو مٹانے پر کیوں تلی ہوئی
ہیں۔تھوڑے سے غورو فکرکے بعد جب ایک نظر تاریخ پر ڈالی جاتی ہے تو دشمنوں
کے تما م مکرو فر یب اورقبیح منصوبوں کا راز کھل کر سامنے آجاتا ہے کہ آخر
ان مکاتب و مدارس میں ایسی کو ن سی خوبی یا وصف پوشیدہ ہے جو دشمن اسلام کو
ہر گھڑی اور ہر آن بے چین کیے ہوئے ہے۔
ایک طرف اگر دینی مدار س اوربزرگانِ دین کی علمی ،تصنیفی ،معاشرتی ،ملکی و
قومی ،صحافتی اور سیاسی میدان میں خدمات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل
عیاں ہو جاتی ہے کہ اگریہ سرفروشان اسلام اور محبان و طن اپنے سروں پر کفن
باندھ کر میدان عمل میں نہ نکلتے تو شاید آج ساری امت مسلمہ کی لگام انگریز
کے ہاتھ میں ہوتی۔اور مظلومی اور غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہوتے۔
انگریز کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکل میں تجارت کے بہانے ہندوستان آمداور
وہاں کے انسانوں کو آزادی کی نعمت سے محروم کرنااور ان کے مذہبی تشخص پر شب
خون مارنایہ اس کی اولین ترجیح تھی۔اسلام اور مذہب سے لگاﺅ رکھنے والوں کو
گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا۔مکتب اور مدرسہ نام کی کوئی چیز نہ چھوڑی۔
انہی حالات کے پیشِ نظرشاہ ولی اللہ کے خاندان سے وہ شخصیات جنم دیں جنہوں
نے انگریزکی غلامی کو اپنانا گوارہ نہ کیا اور موت کو زندگی پر ترجیح دیتے
ہوئے سر پر کفن باندھ کر میدان عمل میں نکل کھڑے ہوئے اور ماضی کا سبق
دہراتے ہوئے ایک مرتبہ پھر سے ایسی تحریک کا آغاز کیا جس نے انگریزوں کو نہ
صرف ہندوستان سے نکلنے پر مجبور کیا بلکہ شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد
شہید نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ انگریز کا تعاقب جاری رکھا اور پشاور کو فتح
کرتے ہوئے سر زمین بالاکوٹ تک جا پہنچے اور وہیں پر1831میں دشمن سے لڑتے
ہوئے جام شہادت نوش پایا۔
دوسری طرف مولانامحمد قاسم نانوتوی نے صفہ اور دارارقم کی یاد تازہ کرتے
ہوئے 1866میں دیو بند کے مقام پر ایک انار کے درخت تلے درس و تدریس کا
سلسلہ از سر نو جاری کر کے انگریز کے کلیجے میں ایک اورخنجر گھونپی ۔جس کی
بنیاد ایک استاد اور ایک شاگردسے رکھی گئی۔
بہت قلیل مدت میں علم وعمل کا یہ شجر تناور درخت کی شکل اختیار کرتا چلاگیا۔
جس میں طلباکے لیے تعلیم و تربیت اور علاج معالجہ کا مفت انتظام کیا جاتا
تھا۔اس کے ساتھ ساتھ طب اور خطاطی کی طرف بھی خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔یہی
وجہ ہے کہ آج مدارس دینیہ کو فلاحی اور سماجی میدان میں دنیا کی سب سے بڑی
این جی اوزسمجھا جاتا ہے۔جہاں زیرتعلیم لاکھوںطلبا کو مفت
تعلیم،کتابوں،رہائش کے علاوہ تین وقت کا کھانا بھی دیا جاتا ہے۔اس پر آنے
والی لاگت کروڑوںتک جا پہنچتی ہے ۔
حقیقت میںیہ بات حیران کن اور سمجھ سے بالا تر ہے کہ اتنا بڑانیٹ ورک
اورمنظم نظام حکومتی تعاون کسی این جی اوزیا امریکی ڈالروں کے بغیرکیسے چل
رہا ہے۔ہاں!یہ بات واقعی حیرت انگیز ہے کہ یہ ادارے حکومت یا کسی این جی ا
وزسے فنڈزہرگز نہیں لیتے۔ بلکہ اللہ کی نصرت ومدد،توکل،اور عوام کے تعاون
سے چلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے یہ قلعے دشمن کی آنکھوں میں ہر آن
کانٹے کی طرح چبھ رہے ہیں۔
اگر حکیمانہ فہم و فراست ر کھنے والے یہ بزرگان دین نہ ہوتے تو پاکستان
بننے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجانے والے اور اس کا نام تجویز کرنے والے
شاید ہی اس ریاست کا عملی نمونہ دیکھ سکتے۔یہی وہ محب وطن اسلام پسند اور
غیرت و ہمیت کا مطاہرہ کرنے والے مخلص لوگ تھے جنہوں نے ہتھ کڑی،بیڑی جیلوں
اور پھانسی کے پھندوں کی پرواہ کیے بغیر اپنی اس کوشش اور جدوجہد کو جاری
رکھاجس کے نتیجے میں14 اگست1948 کو آزاد مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان معرض
وجود میں آیا ۔ایسی آزادی کہ جہاں آزادہوتے ہوئے بھی غلامی کا سا سماں
ہے۔ایسا کیوں ہے؟اس لیے کہ یہ وطن لا الہ الااللہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا
تھالیکن 65 برس بیت جانے کے بعد بھی یہاں اسلام کاعملی نفاذنہ ہو سکابلکہ
الٹا آئے روز اسلام اور اہل اسلام کیخلاف نت نئے پروپیگنڈے کیے جا رہے
ہیں۔کبھی مدارس کے نصاب تعلیم کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے اور کبھی مدارس
سے منسلک حضرات کو دہشت گرداورانتہا پسندکہہ کر مغربی آقاﺅں کوخوش کرنے کی
کوشش کی جاتی ہے۔
جہاں تک مدارس میں پرھائے جانے والے نصاب کی بات ہے تو یہ بات بجا ہے کہ یہ
نصاب صدیوںپرانا ضرور ہے لیکن یہ ٹھوس ،جامع مانع اور قابل اعتماد نصاب
ہے۔جس کی بنیاد آج سے 14 سو سال قبل حضورﷺنے دار ارقم اور صفہ جیسی عظیم
الشان درس گاہ کی صورت میں رکھی تھی۔وہی نصاب آج تک مدارس کی زینت بنا ہوا
ہے۔
دوسرا بڑا سوال جو مدارس کے حوالے سے اٹھایا جاتا ہے کہ یہاں سے ہر سال
فارغ ہونے والے ہزاروں افراد کہاں جاتے ہیں؟کوئی تبدیلی آتی نظر نہیں آرہی
۔اس کی ایک بڑی وجہ ڈگری ہے جس کو ڈبل ایم اے کے برابر مانا جاتا ہے اور یہ
باقاعدہ HECسے منظور شدہ ہے لیکن اس کے باوجود اس ڈگری کے حامل جب کسی جگہ
سرکاری یا نیم سرکاری سطح پر جاب یا مزیدسٹڈی کے حوالے سے اپلائی کرنے جاتے
ہیں تو ان کی اس ڈگری کو یہ کہہ کر ٹھکرایا جاتا ہے کہ ہمیں یونیورسٹی کی
ڈگری مطلوب ہے اب وہاں ان حضرات کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا اور
مایوس واپس لوٹتے ہیں۔
یہ واقعی ایک بہت بڑا المیہ ہے ۔حکومت پاکستان کو چاہیے کہ تمام سرکاری
شعبوں میں مخصوص کوٹہ ان حضرات کا مختص ہونا چاہیے تاکہ ان کوبھی معاشرے
اور سوسائٹی میں اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع مل سکے۔ |