یہ یقیناً1974ء کی بات ہے ۔جب
تعلیم کے لئے ہمیں ’’اشتہاری‘ قرار دے دیا گیا۔یہ اس علاقے کا سب سے اچھا
سر کاری سکول تھا۔دیواروں سے بے نیاز گیٹ پر بندھے ایک گدھے نے ہمارا با
آواز بلند استقبال کیا۔اور ہم گدھے کی بڑھتی،گھٹتی آواز کی باز گشت میں
سکول میں داخل ہو گئے۔ماسٹر لسوڑی شاہ کے ’’حلقہ ارادت‘‘میں جگہ ملی میں نے
کلاس کی جانب نظر کی جابجا ٹاٹ بچھے ہوئے تھے یوں لگتا تھا جیسے ابھی’’
لنگر‘‘شروع ہونے والا ہو۔کلاس میں بہت سی تعداد ایسی تھی جو قد کاٹھ میں
مجھ سے دوگنی محسوس ہوتی تھی۔میری حالت چڑیا کے اس ’’بوٹ ‘‘ جیسی تھی جسے
بچوں نے پیچھے بھاگ کر اور ہاتھوں میں مسل کر ادھ موا کر دیا ہو۔کہاں ماں
کی مامتا اور کہاں ہرجانب چھائی ہوئی کرختگی۔
’’بچہ ابھی چھوٹا ہے ۔ابھی تو اس کے دودھ کے دانت بھی نہیں ٹوٹے۔میری مانیں
تو اگلے سال اسے’’ کچی‘‘(موجودہ دور کی نرسری)میں داخل کروائیں‘‘۔استاد
لسوڑی شاہ صاحب نے مجھے نظروں میں ٹٹولتے ہوئے کہا۔مگر ابا نے نہیں ماننا
تھا استاد صاحب کی درجنوں تاویلوں سے بھی نہیں مانے۔اور یوں میں مونگرے
بادانے پر استاد لسوڑی شاہ صاحب کی دعا کے طفیل کچی جماعت کا طالب علم قرار
پایا۔اور طالب علموں کی ’’مال غنیمت‘‘ پرچھینا جھپٹی پر مجھ پر عقدہ کھلا
کہ کسی طالب علم کے داخلے پر ساری کلاس کیوں بلی کی طرح ششت باھند لیتی ہے۔
کوبا جانگلی اس کچی کلاس کا عرصہ تین سال سے بلا شرکت غیرے مالک مانیٹر
تھا۔وہ گھٹے ہوئے جسم کا مضبوط لڑکا تھا جس کی مسیں بھیگی ہوئی تھیں۔وہ
صدارتی نظام کے تحت اس کلاس کو بزور طاقت کنٹرول کر رہا تھا۔اور کسی کمزور
ریاست میں اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ کسی قسم کا احتجاج ریکارڈ کرواتی۔شور
کی آواز اس کی ’’نفیس طبع ‘‘پر فوری گراں گزرتی ۔استاد صاحب کلاس میں موجود
ہوتے یا نہ ہوتے۔ان کے ہونے یا ہونے سے کوبے جانگلی کو کوئی فرق نہیں پڑتا
تھا۔استاد صاحب کی مثال حامد کرزئی جیسی تھی۔وہ ڈرون کی طرح شور والی جگہ
پر جھپٹتا اور آن کی آن میں دو چار ٹاٹ کی ترتیب تہس نہس کر دیتا۔ہیڈ ماسٹر
اکثر کلاس میں آ کر کوبے سے کہتے’’ اوئے تیرے جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں او
لیول کے طالب علم ہیں اور تو ابھی تک اوئے لیول میں ہے۔اگر تو اس دفعہ پاس
نہ ہوا تو میں تجھے سکول سے نکال دوں گا۔‘‘اور پھر ایک دن فیل ہونے سے پہلے
ہی اسے سگریٹ پینے کے جرم میں سکول سے نکال دیا گیا۔اس دن کوبا بڑا رویا ۔مگر
ہیڈ ماسٹر نے اس کی ایک نہ سنی ۔استاد لسوڑی شاہ صاحب نے اس کا الزام اپنے
سر لینے کی کوشش کی کہ میرے لئے حقے کو ’’دھرتے ‘‘ ہوئے شائد دو چار کش لگا
لئے ہوں۔مگر اس کے جواب میں بطور ثبوت ہیڈ ماسٹر نے ’’بگلے ‘‘ کا ٹوٹا پیش
کر دیا جو انہوں نے خود کوبے کی خلوت گاہ سے اٹھایا تھا۔یوں کوبے کی خلاصی
نہ ہو سکی۔اس دن ساری کلاس نے دکھی دل کے ساتھ یوم نجات منایا۔
الف ،انار ،بے ،بکری پڑھتے ،تختیاں پوچتے،پہاڑے رٹتے یہ پانچ سال کیسے بیت
گئے پتہ ہی نہ چلا کہ ہم اس سکول کی اب سب سے سنیئر کلاس ہیں۔بہت سے استاد
ملے مار والے بھی اور پیار والے بھی۔بہت سے طالب علم ساتھی ملے جو ہر سال
اس کثیر تعداد میں فیل ہوتے کہ یوں لگتا تھا جیسے سکول میں طاعون کی وبا
پھیل گئی ہے۔ہلکا پھلکا تھیلا نما بستہ جو پہن کر بھی ہم کسی سے بھی ریس
لگا سکتے تھے اور عموماً یہ ریس روزانہ کی بنیاد پر ہوتی تھی کہ سکول سے
گھر جلدی کون پہنچتا ہے ۔آج کوئی بچہ کچھوے نما بستے کے ساتھ بھاگ کر
دکھائے۔اکتیس مارچ کا دن سب طالب علموں کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل دن
ہوتا تھا۔اس دن کی تیاری میں دل کی دھڑکن تیز اور اس کے تار عجیب سے انداز
میں بجتے رہتے تھے۔سکول کے گیٹ پر بکنے والے پھولوں کے ہاراتنے سستے ہوتے
تھے کہ ماڑے سے ماڑا طالب علم بھی خرید لیتا تھا۔اس کے علاوہ چندامیر بچے
سکے بھی لاتے تھے۔نتیجے کے اعلان کے ساتھ ہی پاس ہونے والے بچے استاد صاحب
کے گلے میں پھولوں کے ہار پہنانے کی کوشش کرتے اور گلاب کے پھولوں کی پتیاں
نچھاور کی جاتیں ۔جبکہ کھنکتے ہوئے سکے بھی پھینکے جاتے جن کو پھینکنے والے
طالب علم کے ساتھ آئی ہوئی افرادی قوت غیر کے ہاتھ میں جانے نہیں دیتی
تھی۔فیل ہو جانے والوں کی چیخیں اور آہیں پوری کلاس میں گونجتی رہتیں۔کئی
فیل شدہ جوشیلے طالب علم دیواروں کو بھی ’’پولا ‘‘کرنے کی کوشش کرتے ۔جنکو
پکڑنے کے لئے ان کے گھر والے 1122کا کردار ادا کرتے ۔اور ابتدائی طبی امداد
کے لئے اٹھا کر لے جاتے۔کئی فیل شدہ طالب علم کلاس روم میں ہی اپنے گھر
والوں کی ’’ضیافت ،چھتر کباب ‘‘سے مستفید ہوتے۔
ہائی سکول میں داخلے سے قبل پانچویں کے استاد محترم نے ایک دن پاس ہونے
والے طلبا کو سرٹفیکیٹ دینے کے لئے بلایا ۔انہوں نے طالب علموں کو
رازدارانہ انداز میں کہا۔اب آپ کا سامناایک بہت ہی مشکل زبان انگلش سے ہو
گا۔آپ میں سے کسی کو انگلش آتی ہے۔سبھی نے اپنے تھوبے ہلا دیئے۔جس طرح اردو
کی الف بے ہے اسی طرح انگلش کی اے بی سی ہے اور جس طرح اردو سمجھنے ،بولنے
اور لکھنے کے لئے الف بے ضروری ہے اسی طرح انگلش کے لئے پہلا سبق اے بی سی
ہے اور میں آپ کو اے بی سی لکھوا دیتا ہوں اس کو اچھی طرح جیسے آپ نے پہاڑے
رٹے تھے ویسے ہی رٹ لیں تاکہ جب آپ نئے سکول میں داخل ہوں تو آپ کو ائے بی
سی آتی ہو اس سے ہمارے سکول کا وقار بلند ہو گا۔انہوں نے طالب علموں کو
تختہ سیاہ پر اے بی سی لکھوا دی ۔مگر کوئی بھی طالب علم اے بی سی کو صیح
طریقے سے نہ لکھ پایا۔انہوں نے جب تختہ سیاہ پر ڈالے ہوئے اپنے ’’پورنے ‘‘
گنے تو انہوں نے غیر محسوس انداز میں کہا۔کوئی ایک آدھ ذہن سے نکل گیا۔میں
ابھی ہیڈ ماسٹر سے پوچھ کر آتا ہوں۔اتنی دیر میں آپ اے بی سی کو رٹا
لگائیں۔ان کے باہر نکلتے ہی کان انگلش کا حشر ہوتا سن رہے تھے۔اے بی سی
،کتھے گئی سی۔اے بی سی۔بڑاتوں کمال کیتا، ماسٹر نوں وی بھل گئی سی۔
انگریزی کو رابطے کی زبان سمجھنے کی بجائے ہم نے اسے ترقی کی زبان سمجھ لیا
ہے۔ دنیا میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں دنیا میں سے کہیں سے بھی کوئی وفد
آتا ہے وہ مترجم کے ذریعے اپنی قومی زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔مگر پاکستان
میں حکومتی نمائندے جب تک بیرونی وفد سے اپنے منہ میں غیر کی زبان ڈال کر
بات نہ کر لیں ۔ان کا شملہ اونچا نہیں ہوتا۔جہاں بہت سے دوسرے شعبے اپنی
بقا کے لئے بر سر پیکار ہیں وہاں ہم نے تعلیم جیسے اہم شعبہ کو بھی ابھی تک
تجربات کی بھٹی میں سے گزار رہے ہیں۔اور بڑے دکھ اور تکلیف کی بات ہے کہ
ابھی تک کوئی راہ متعین نہیں ہو سکی۔جب تک پاکستان میں ایک جیسا رہن سہن
نہیں ہو جاتا تب تک ایک جیسا نظام تعلیم کا نعرہ سننے میں بڑا پر کشش ہے
مگر قابل عمل نہیں ہے۔اس ملک میں آپ محمود اور ایاز کو کیسے ایک صف میں
کھڑا کر سکتے ہیں۔
دولت جن کے گھر کی باندی ہو۔ان کے بچے اگر پاکستان کے ماڈرن سکولوں میں نہ
’’چلیں ‘‘ تو ان کے لئے سارے دنیاکے تعلیمی ادارے کھلے ہیں۔وہ وہاں سے
ڈگریاں حاصل کر سکیں یا نہیں تھوڑے عرصے میں منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی ضرور
بولنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔پاکستان کا غریب طبقہ جو نہ تو بچے کی فیس
،کتابیں،کاپیاں،وردی افورڈ کر سکتا ہے۔جو سردیوں میں ننگے پاؤں اور سکول کے
گیلے ٹاٹ پر بیٹھ کر جن کی شام تک ’’آٹھر‘‘ ختم نہیں ہوتی۔وہ کیسے اس تگڑی
انگلش کا مقابلہ کر سکتا ہے۔پہلی کلاس کی بجائے اسے اگر’’گھٹی ‘‘ میں بھی
انگلش چٹا دی جائے تو بھی وہ ’’جانو جرمن‘‘تو بن سکتا ہے۔کسی جاگیر دار
،سرمایہ دار ،سیاست دان کے بیٹے کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
موجودہ نظام تعلیم سے پاکستان کی شرح خواندگی میں بجائے اضافے کی بجائے
تنزلی کی امید ہے۔ہمارے ملک میں اس شخص کو بھی تعلیم یافتہ خیال کیا جاتا
ہے جو صرف دستخط کرنا جانتا ہو۔ایک مزدور کے بچے کو اس قابل رہنے دیں کہ وہ
چند جماعتیں پڑھ کر اپنے گھر میں تعلیم کا اجا لا کر سکے۔وہ ’’انگریجی‘‘جس
پر سرکاری سکول کے اساتذہ اکرام لکنت کا شکار ہیں۔ان سے کیسے امید رکھی
جاسکتی ہے۔کہ لکنت کے بغیر وہ ’’انگریجی‘‘ علم منتقل کر سکیں گے۔اس کے
باوجود اگر ارباب اقتدار انگریزی ہی کو ترقی کا راستہ سمجھتے ہیں ۔تو پھر
غیر ملکی ماہرین اور غیر ملکی سلیبس کی بجائے اپنے دیسی ماہر ین تعلیم سے
سلیبس تشکیل دلوایا جائے۔کیونکہ چنگ چی کے سفر کی تکلیف وہی جان سکتا ہے جس
نے کبھی چنگ چی میں سفر کیا ہوا۔کسی کا سفر نامہ پڑھ کر آپ محظوظ تو ہو
سکتے ہیں ۔لیکن سفر کی صعوبیتیں کیسی تھیں یہ نہیں جان سکتے۔ |