ہماری زراعت اور کسانوں کے مسائل

زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہماری معیشت اسی فیصد زراعت پر انحصار کرتی ہے وابسطہ ہے۔ تقریبا پچہتر فیصد لوگوں کا روزگار زراعت کے ساتھ ملحق ہے۔ زراعت پراہ راست یا بلواسطہ ترقی کے دوسرے عوامل پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے مثلا جیسا کہ اس سے دیہاتی علاقہ میں صہولتیں مہیا کرکے شہری آبادی کو روکا جاسکتا ہے۔ اور اس کے ترقی پر کئی طرح سے اثرات ہوتے ہیں۔

اگر ہم زراعت کی ترقی چاہتے ہیں تو کسانوں کے مسائل کی طرف خصوصی توجہ دینی ہوگی ہم یہاں پر کسانوں کے چند ایک مسائل اور ان کے ممکن حل کو زیر بحث لائیں گے۔ انڈسٹری کی طرح توانائی کی کمی کسانوں کا مسئلہ بھی ہے مگر اس کی متبادل طریقوں سے کمی پوری کی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ کسانوں کی دوسری ضروریات کے ساتھ ساتھ وافر پانی کی فراہمی اور اس کا بہتر طریقے سے استعمال ہے۔ اس کا مناسب حل سوچ کر کسانوں کی حالت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے

پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے راجباؤں پر پانی کی جھیلیں بنا کر اس کی مدد سے نہروں کے کنارے پانی کے ٹیوب ویل نصب کیے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح چھوٹے چھوٹے پاور پلانٹ لگا کر کسانوں کی اور نزدیکی آبادی کی ضروریات بھی پوری کی جاسکتی ہیں۔ کسانوں کا آبیانہ بڑھا کر سہولت کے ساتھ ششماہی وصول کیا جا سکتا ہے اور اس طرح اضافی ریوینیو بھی اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ کسانوں کی فلاح و بہبود میں اس طرح سے بہتر کردار ادا کیا جا سکتا ہے

پھر کسانوں کا اسی طرح دوسرا مسئلہ جنس کی مناسب قیمت اور بر وقت خرید و فرو خت کا مسئلہ ہے۔ اس میں گورنمنٹ کے پاس اعدادوشمار موجود ہیں ان کی مدد سے ملکی ضروریات کی مناسبت سے پالیسی بنائی جا سکتی ہے تاکہ نہ تو کسی جنس کی مقدار وافر ہو اور نہ ہی قلت پیدا ہو۔ مثلا زمینداروں کو ان کی ملکیت کے تناسب سے بتایا جاسکتا ہے کہ کتنی کتنی کون کون سی فصل کاشت کرنی ہے اور پھر پیشگی ان کو نرخ بھی بتائے جا سکتے ہیں۔ ملکی اور کسانوں کی بہتری میں مجبور کرکے بھی عمل کروایا جا سکتا ہے

اسی طرح دیہاتی علاقوں میں ضروریات کی مناسبت سے زرعی سمال انڈسٹری کو فروغ دے کر مڈل مین کا کردار کم اور زمیندار کو زیادہ سے زیادو با اختیار بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کھادوں اور ادویات کی جہلسا زی کو روکنے کے لیے ایسا لائحہ عمل بنایا جائے جس میں زمینداروں کو بھی شامل کیا جائے اس سے نہ صرف ان کو شعور ملے گا بلکہ اختیارات ملنے کی صورت میں ایک قسم سے کسانون اور زراّعت کے لیے کام کرنے والے حکومتی اداروں میں باہم رابطہ بڑھے گا بلکہ ررعی ملاوٹ اور جہلسازی کو روکنے میں بھی آسانی اور بہتری آئے گی۔ اس میں ہمارے بہت سارے ریٹائرڈ زرعی افسران رضاکارانہ طور پر بھی خدمات سر انجام دے سکتے ہیں۔

کسانوں کو زیادہ سے زیادہ جدید اقسام کی اجناس ، بیجوں اور زرعی ٹیکنالوجی کی معلومات پہنچانے کے لیے پرانے بو سیدہ طریقوں کی بجائے نئے طریقے متعارف کروائے جا سکتے ہیں۔ آج کل ہر تیسرے آدمی کے پاس موبائل فون موجود ہے اس طرح ایک ریسکیو ١٥ یا ایمبولینس سروس کی طرح مخصوص ہیلپ لائن نمبر مختص کیا جا سکتا ہے اور اس کو جدید نیٹ ورک کے ساتھ ملحق کرکے زمینداروں کو ہر قسم کے مشوروں سے مستفید کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح محکمہ زراعت میں اصطلاحات کرکے موجودہ ضروریات سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔ اور مرکزی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ علاقائی سطح پر بھی ضروریات کے پیش نظر تحکیکی اور مشاورتی کام کو زیادہ سے زیادہ بہتر طریقے سے ایکٹو کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ زرعی محکمہ فائدہ مند کم اور خزانے پر بوجھ زیادہ ہے۔ اسلیے محکمہ زراعت میں اصطلاحات کی انتہائی ضرورت ہے۔

کارپو ریٹ فارمینگ کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دے کر زراعت سیکٹر کو زیادہ سے زیادہ قابل منافع بنایا جا سکتا ہے۔ یہ صرف میں نے ایک عام آدمی کی طرح سے جائزہ لے کر چند موضوعات کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس شعبہ کے اندر ماہرانہ انداز سوچ سے کئ گنا زیادہ فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ بات صرف سوچنے کی اور قوم کی صلاحیتوں کو صحیح اطراف میں استعمال کرنے کی ہے۔ ابھی بہت کچھ قابل وضاحت ہے اور میں اس موضوع کو مزید اپکے کے قابل قدر اور قیمتی خیالات کو شامل کرنے کا خواہشمند رہونگا

اگر ہم اپنی زراعت کی طرف توجہ دیں اور کسانون کے مسائل حل کرکے ان کو خوشحال کریں تو ہمارا ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرسکتا ہے۔ اور یہ ہمارا زمیندار طبقہ بہت ہی باہمت اور با صبر ہے۔ یہ قربانیا ں دے کر پوری قوم کو عیش وعشرت کی زندگی فرایم کر ریا ہے۔ اور میں یہاں یہ بھی باور کروانا چاہوں گا کہ اگر اس مظلوم طبقہ کو انصاف فراہم نہ کیا گیا تو وہ وقت شائد دور نہیں جب نہ صرف ہماری معیشت تباہ ہو جاے گی بلکہ یہ نام نہاد تاجر ان کسانوں کے خون سے پلنے والے ، سائیکلوں پر اشیائے ضرورت لیے ڈگر ڈگر ڈیرہ ڈیرہ جا کر تھوڑی تھوری جنس کے عوض تبادلہ کرتے پھرتے ہونگے۔
Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 124350 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More