کمل ہاسن کے ہم نواؤں کے نام

اکیسویں صدی میں جہاں بہت سی خرافات اور دل شکن حر کات کا آغاز ہوا ہے وہیں بین الاقوامی سطح پر ایک مذموم رسم چل پڑی ہے ۔ دلآزاریوں کی رسم ۔جذبات سے کھلواڑ کی رسم ۔مذہبوں کی توہین کی رسم ۔اسے کبھی امریکہ میں انجام دیا جاتا ہے تو کبھی کسی دوسری جگہ۔دلآزاری کا نشانہ کبھی کو ئی فرقہ بنتا ہے ‘کبھی کو ئی۔ اس کے لیے کبھی تو زبان کو استعمال کیا جاتا ہے۔ کبھی قلم کی تقدیس کو داؤ پر لگایا جاتا ہے اور کبھی فن اور آرٹ کی آڑ میں اسے انجام دیا جاتا ہے اور لمحوں میں پوری دنیا میں زہر پھیلادیا جاتا ہے۔

حالیہ دنوں ریلیز کی دہلیز پر کھڑی تمل فلم ’وشوروپم‘بھی اسی قبیل کی دلآزاری والی فلم ہے جس نے ہنگامے کی سی شکل اختیار کر لی ہے اور عمل ردعمل کا سلسلہ جاری ہے۔ حالیہ متنازع فلم میں افغانستان کے کچھ مناظر فلمائے گئے ہیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ کچھ لوگ قرآن کی آیتیں پڑھ پڑھ کر حملے کر نے کی تیاری کر رہے ہیں۔مطلب صاف ہے کہ اس میں قرآن مقدس کی بے حرمتی کی گئی ہے اور اسلام کا دانستہ مذاق اڑیا گیاہے اور مسلمانوں کی دلآزاری کی بھونڈی رسم کو انجام دیا گیا ہے۔مسلمانوں نے احتجاج کیا اور تمل ناڈو حکومت نے اس کی ریلیزپر پابندی لگادی۔

اس کے فلم کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کود بانے کے لیے فلمی دنیا کے لوگوں کے علاوہ الیکٹریک میڈیا کے ساتھ ساتھ پرنٹ میڈیاسے وابستہ بہت سی معزز شخصیات میدان میں آگئی ہیں اور اس کے دفاع میں اپنی قوتیں صرف کر رہی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’فلم جب سنسر بورڈ سے پاس ہو گئی تو پھر اس کی پابندی اور اسے کالعدم قرار دیناکسی طرح درست نہیں ہے۔اسی طرح فلم کے ایکٹر وڈائریکٹرکمل ہاسن نے اپنا کل اثاثہ اس میں لگادیا ‘یہاں تک کہ متاع عزیز ’گھر ‘بھی گر وی رکھ دیا ․․․․․․اس کے لیے تو رحم کر نا چا ہیے اور ان کی فلم کو ریلیز ہونے دینا چا ہیے۔کبھی وہ یہ لنگڑی دلیل دیتے ہیں کہ اسلام میں صبر کی تلقین کی گئی ہے‘ لہٰذا مسلمانوں کو صبر کر نا چاہیے ۔وغیرہ وغیرہ۔

میں کمل ہاسن کے ہمنواؤں سے کہنا چاہتا ہوں کہ سال 2005میں عامر خان کی فلم’فنا ‘بھی سنسربورڈ سے پاس ہو گئی تھی مگر گجرات میں اس کے لیے دروازے بند کر د یے گئے۔اس کی ریلیز پر بے جا ہنگامہ کیا گیا‘اُس وقت یہ لوگ اور میڈیا کی لن ترانیاں کہاں تھیں ؟اسی طرح سال 2008میں شاہ رخ خان کی فلم ’مائی نیم از خان ‘ کو بھی سنسر بورڈ نے ہری جھنڈی دکھادی تھی‘ پھر کیوں ممبئی میں شیوسینا کے غنڈوں نے نہ صرف اس کی ریلیز کو رکوایا بلکہ ایسے ٹاکیز اور سنیما ہالوں میں توڑ پھوڑ بھی کی جنھوں اسے ریلیز کر نے کی جسارت کی ․․․․․اس وقت مگر مچھ کے آنسو بہانے والے کہاں تھے ؟ تیسری بات یہ کہ اگر کو ئی اپنی تمام دولت داؤ پر لگا کر واہیات اور دلآزاریوں کو انجام دے تو کیا اُسے اور اس کی خرافات کو بر داشت کر لیا جا ئے گا ؟نہیں !کسی بھی طرح نہیں ۔

خان صاحبان کی مذکورہ بالا دونوں ’فلموں (فنا ۔مائی نیم ازخان)میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا جس کی مخالفت کی جاتی اور ان کی ریلیز کو زبردستی رکوایا جاتا ۔اس میں اگر کچھ تھاتو وہ تھی’سچائی اور حقیقت‘جسے فرقہ پرستوں نے برداشت نہیں کیا اور اس کے خلاف میدان میں آگئے ۔وہ تو خیر رہی کہ اس میں کسی ہندودیوی دیوتا کی شان میں کچھ نہیں تھا ‘ورنہ فلم کے ساتھ ساتھ ایکٹر‘ ڈائریکٹر کی زندگی کے بھی لالے پڑجاتے ۔یہ بات جگ ظاہر ہے کہ جب جب ہندومفاد یا عقیدے کے خلاف کسی نے کچھ کر نے یا کہنے کی جسارت کی ہے‘ اس کا ناقابل بیان حشر کیا گیا ہے ۔ایسے میں ذرا سو چیے اگر مسلمانوں کے عقاید اور ان کے جذبات سے کھلواڑ کیا جا ئے گا تو وہ کیسے بر داشت ہو سکتا ہے ۔ کچھ لوگ اسے فرقہ وارانہ رنگ دے رہے ہیں ۔میں ان سے کہنا چاہتاہوں کہ اس کا تعلق راست عقیدے اور جذبوں سے ہے ‘اگر یہ مذموم کام کو ئی نام نہادمسلمان انجام دیتا تو اس سے بھی احتساب کیا جاتا اور اس سے بھی جواب دہی کی جاتی۔

ایسے لوگ جو کمل ہاسن کی درپر دہ یا ظاہری طورپر حمایت اور ہمنوائی کر رہے ہیں‘ ان نام یہ تحریر ایک واضح اور مخلصانہ پیغام اور دعوت عمل ہے کہ غلطی کو غلطی تسلیم کریں اور دوبارہ اسی غلطی نہ ہونے کا اعادہ کر یں ۔ہر بات کی آنکھ بند کر کے حمایت یا مخالفت کسی طرح سے درست نہیں ہے ۔اس کے لیے ضائع کی جانے والی ہر کوشش و طاقت سچ میں بے کار جاتی ہے اس کا کو ئی نتیجہ نہیں نکلتا ۔غلط باتوں کی حمایت اور ان کا دفاع کر نا انسانوں کے ضمیر کی موت کہلاتاہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چا ہیے کہ بد عنوانی ‘منافقت‘سچا ئی سے منہ پھیرنا اور حقیقت سے فرار زیادہ دن تک نہیں چل سکتا۔ایسے لوگ یاد رکھیں !یہ اظہار خیال کی آزادی نہیں ہے اسی طرح اسے فن اور ادب کسی طور نہیں کہا جاسکتا بلکہ ایک زبان یہ بے حیائی ‘گندگی ‘جذبات سے کھلواڑ‘مذہب کی تو ہین او ر دلآزاری ہے اسے کو ئی اور دوسرا نام دیا ہی نہیں جاسکتا۔جو اسے دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں وہ اپنے انجام کی فکر کر یں۔ایک ایسے وقت کا تصور کر یں جب منصف اعظم ان سے محاسبہ کر رہے ہوں گے اور انھیں حساب دینا ہی ہوگا۔ غلط بیانی کا ‘ منافقت کا‘ بدعنوانی کا‘ تو ہین کا‘دلآزاری کااورجذبات سے کھلواڑ کا۔

احساس
میں کمل ہاسن کے ہمنواؤں سے کہنا چاہتا ہوں کہ سال 2005میں عامر خان کی فلم’فنا ‘بھی سنسربورڈ سے پاس ہو گئی تھی مگر گجرات میں اس کے لیے دروازے بند کر د یے گئے۔اس کی ریلیز پر بے جا ہنگامہ کیا گیا‘اُس وقت یہ لوگ اور میڈیا کی لن ترانیاں کہاں تھیں ؟اسی طرح سال 2008میں شاہ رخ خان کی فلم ’مائی نیم از خان ‘ کو بھی سنسر بورڈ نے ہری جھنڈی دکھادی تھی‘ پھر کیوں ممبئی میں شیوسینا کے غنڈوں نے نہ صرف اس کی ریلیز کو رکوایا بلکہ ایسے ٹاکیز اور سنیما ہالوں میں توڑ پھوڑ بھی کی جنھوں اسے ریلیز کر نے کی جسارت کی ․․․․․اس وقت مگر مچھ کے آنسو بہانے والے کہاں تھے ؟ تیسری بات یہ کہ اگر کو ئی اپنی تمام دولت داؤ پر لگا کر واہیات اور دلآزاریوں کو انجام دے تو کیا اُسے اور اس کی خرافات کو بر داشت کر لیا جا ئے گا ؟ نہیں !کسی بھی طرح نہیں ۔
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 62383 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More