یہ کوئی فسانہ نہیں ہے جو میں آپ
کو سنانے جا رہا ہوں، ایک بھیانک سچائی ہے، مانو سچ کا ایک عفریت منہ کھولے
کھڑا ہے اور مجھے ہڑپ کر جانا چاہتا ہے، اور سچی بات تو یہ بھی ہے کہ میں
خود بھی چاہتا ہوں کہ قصہ ختم ہو۔ لیکن یہ عفریت اذیت پسند ہے، اسے مجھے
تڑپانے میں شائد مزہ آتا ہے۔لیکن آخر کب تک؟ دیکھتے ہیں-
اسی بیچ میں سوچتا ہوں کہ آپ لوگوں سے ایک سوال ہی پوچھ لوں، مجھے امید ہے
کہ آپ پوری سچائی کے ساتھ اس کا جواب دیں گے۔ پر ٹھہرییے سوال کی تہہ میں
اُترنے کے لیے آپ کو سارا قصہ سننا تو پڑے گا۔ تو اگر آپ کے پاس کچھ وقت ہے
تو سُن لیجیے اور پھر میرے سوال کا جواب اگر آپ کے پاس ہو تو دیجیے گا۔
اصل موضوع کی طرف آنے سے پہلے میں ایک وضاحت کرنا مناسب سمجھتا ہوں ، تاکہ
کہیں ایسا نہ ہو کہ پوری کہانی سُن لینے کے بعد آپ مجھے کوئی گلفام سمجھ
لیں، کوئی مردانہ وجاہت کا شاہکار، کوئی آسمانی مخلوق۔ میں ان میں سے کچھ
بھی نہیں پر جب اُس نے مجھ سے محبت کا اظہار کیا تو ایک لحظہ کے لیے تو
مجھے بھی لگا کہ ایسا ہی کچھ ہے شائد۔ ایک تو یہ کہ اگر وہ ایسا کرنے والی
پہلی لڑکی ہوتی تو بھی میں ایسا نہ سوچتا، اور دوسرے یہ کہ وہ اتنی حسین
تھی کہ اگر میں اُس کی تعریف کروں گا تو الفاظ ڈھونڈنا پڑیں گے، میں بہتر
ہے کہ اپنی تہی دامنی کا اعتراف کرتے ہوئے اُس کے حُسن کا احاطہ آپ کے
وجدان پر چھوڑ دوں اور آگے بڑھ جاوں کہ آپ کا وقت قیمتی ہے۔ میں شکر گزار
ہوں کہ آپ ابھی تک یہاں ہیں اور یہ کہانی پڑھ رہے ہیں۔
اوہ باتوں باتوں میں میں آپ کو یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ وہ تیسری لڑکی
تھی جس نے مجھ سے اظہار محبت کیا تھا۔ پہلی دو کی بات یہاں کرنا غیر متعلق
ہو گا کہ وہ میری شادی سے پہلے کی بات تھی۔ یہ تو اُس وقت ہوا جب کہ میں
شادی شدہ تھا اور باپ بھی بن چکا تھا، اسی لیے یہ عجیب تھا بہت عجیب، ہے نا؟
اور وہ یہ بات جانتی بھی تھی۔ اوپر سے یہ بھی کہ میں معمولی شکل صورت رکھنے
والا ایک عام سا بندہ تھا، جو سڑک پر چلتا ہو تو ننانوے فیصد لوگ اُس کی
موجودگی کا احساس کیے بغیر پاس سے گزر جائیں، خاص کر لڑکیاں۔ پھر بھی آپ
شائد اس صورتحال کو عجیب کہنا مناسب نہیں سمجھیں گے، لیکن اگر میں ایسا کہہ
رہا ہوں تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہو گی نا؟ یہ کہ میں اپنی
ڈھلتی عمر میں تھا اور وہ نوخیز۔ غرض یہ کہ کسی صورت جوڑ تھا ہی نہیں۔
سفینہ اپنے والد کے ہمراہ میرے پاس آئی تھی، اُس کے والد ڈرائور تھے ہمارے
آفس میں، اور اُسے کوئی ملازمت دلانے کے لیے سفارش کا کہنے آئے تھے تاکہ
اُن کے گھریلو اخراجات پورے ہو سکیں۔
وہ جتنی حسین تھی اُتنی ہی بیباک، نڈر اور ہٹ کی پکی (یہ آخری صفت جو میں
نے بیان کی ہے بعد میں پتہ چلی)۔ اُس کے والد اُسے میرے پاس چھوڑ کر چلے
گئے کہ اُنہیں ہمارے مینیجر صاحب نے بلا لیا ، اور وہ وہیں میرے پاس بیٹھ
گئی۔ ،، کیا کر سکتی ہو آپ،، میں نے استفسار کیا۔ ،، جو بھی کام ہو کر سکتی
ہوں میں، جی سکتی ہوں اور مر بھی سکتی ہوں میں،، یہ جواب تھا اُس کا۔ میں
نے حیرانی سے دیکھا اور پھر پوچھا،، کون سی ملازمت پسند ہے آپ کو،،۔ اور
میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ بولی،، مجھے فیشن ماڈل بننا ہے، آپ میری
مدد کریں گے؟،، ۔ ،، نہیں ،، میں نے پتہ نہیں کیوں کہ دیا۔ وہ اُٹھی اور
کمرے سے باہر جا کر کھڑی ہو گئی۔ کمال لڑکی تھی، میں باہر نکلا اور اُسے
واپس آنے کو کہا، ،،نہیں آنا مجھے، آپ کا شکریہ بہت،،۔ ،،
ارے آپ راستے میں کھڑی ہیں ، لوگ آ جا رہے ہیں ، کیا کہیں گے؟،، میں بولا۔
اُس نے میری آنکھوں میں دیکھا اور بولی،، اگر آپ میری مدد کریں گے تو میں
اندر بیٹھ جاتی ہوں ورنہ رہنے دیجیے،،۔ اچھی دھونس تھی، میں نے اُسے ٹالنے
کے لیے کہ دیا کہ آ جاؤ میں آپ کی مدد کروں گا۔ وہ مسکُرا دی اور اندر چلی
آئی۔
دو دن گزرے تھے کہ وہ پھر میرے دفتر میرے سامنے کھڑی تھی اور میں اُسے
حیرانی سے دیکھ رہا تھا ، کیونکہ میں نے اُس کے والد کو بتا دیا تھا کہ وہ
کیا چاہتی تھی، اور یہ بھی کہا تھا کہ کچھ ایجنسیوں سے کاروباری مراسم کے
باوجود میں اُسے ماڈل بننے میں مدد نہیں کر سکتا تھا کیونکہ مجھے اُن
ایجنسیوں کے سارے حالات اور ماڈل لڑکیوں کی زندگی کے حالات سے واقفیت تھی۔
خیر وہ ایک دفعہ پھر میرے سامنے تھی اور چھوٹتے ہی بولی،، آپ نے میرے لیے
کچھ کیا؟،، ۔ ،، ارے اتنی جلدی کیا ہو سکتا ہے؟ اس میں بہت وقت لگ جاتا ہے
نا ،،۔ ایک بار پھر ٹالنے کی غرض سے میں بولا ۔ وہ مصر رہی کہ میں کچھ کروں
۔
تُم جانتی ہو نا کہ یہ خواب ممنوع ہے،، میں نے کہا ۔ ،، میں ہر اُس ممنوع
خواب کی خوشبو محسوس کرنا چاہتی ہوں جسے پانا ناممکن دکھائی دیتا ہو،، یہ
جواب تھا اُس کا ۔آخر میں غصہ میں آ گیا اور اُسے جانے کو کہا۔ وہ پاؤں
پٹختی چلی گئی۔
ایک گھنٹے بعد ہی صابر (سفینہ کا والد) گھبرایا ہوا میرے پاس آیا اور گھر
جانے کی اجازت چاہی۔ میں نے پوچھا تو اُس نے بتایا کہ سفینہ زخمی تھی۔ میں
نے اُسے اپنی گاڑی میں بٹھایا اور ہم اُس کے گھر پہنچے۔ وہ خون آلود کپڑوں
میں لت پت بستر پر لیٹی تھی اور آس پاس کی خواتیں اُس کے ارد گرد بیٹھی شور
مچا رہی تھیں ۔ ایک ڈاکٹر اُس کی کلائی کی ڈریسنگ کر رہا تھا ۔ پتہ یہ چلا
کہ اُس نے اپنی کلائی کاٹنے کی کوشش کی تھی۔ عورتیں ہمیں دیکھ کر ایک کے
بعد ایک وہاں سے کھسک گئیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی رخصت چاہی۔ صابر اُسے ڈانٹتے
ہوئے میرے منع کرنے کے باوجود چائے بنانے چلا گیا۔
کیوں کیا یہ سب تُم نے؟،، میں نے پوچھا اور اُس نے منہ پھیر لیا۔ ،، کیا
چاہتی ہو؟،، میرا دوسرا سوال تھا ۔ اُس نے دیکھا تک نہیں۔ میں نے اُس کا
بازو پکڑا اور اپنی جانب کھینچ کر پھر وہی سوال دہرایا۔،،مجھے ہر حال میں
ماڈل بننا ہے،، وہ بولی۔،، تُمہیں پتہ بھی ہے کہ ماڈلز کی زندگی کیسی ہوتی
ہے؟،، اور پھر پتہ نہیں میں نے کیا کہا تھا اور کہتا ہی چلا گیا تھا۔ رُکا
اُس وقت جب صابر چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے میرے سامنے موجود تھا۔
چائے پی کر میں چلنے کے لیے تیار ہوا تو اُس نے مجھے پوچھا ،، تو آپ میری
مدد کر رہے ہیں کہ نہیں،،۔ حیرت انگیز طور پر صابر بھی بولا،، صاحب جو یہ
کہتی ہے کر دیجیے نا پلیز، ورنہ یہ اپنی جان دے دے گی، بہت ضدی ہے،،۔ مجھے
بھی کچھ کچھ اندازہ ہو گیا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ اُسے آہستہ آہستہ اس
سے بعض رکھنے کی کوشش کروں گا۔
اُس کے بعد قصہ مختصر کہ میں نے اُسے تین چار مرتبہ بلایا اور وہ بھی فارغ
وقت میں کہیں ریستوران وغیرہ لے جاتا اور سمجھاتا کہ ماڈلز کس کسمپرسی کی
زندگی گزارتی ہیں۔ اُس کو نہیں ماننا تھا وہ نہیں مانی ۔ تنگ آ کر میں نے
دبئی میں موجود ایک ایجنسی سے رابطہ کیا جس کے مالک سے میرے کاروباری روابط
تھے اور وہ ہماری پڑوڈکٹس کی تشہیر بھی کیا کرتے تھے۔ اُنہوں نے وعدہ کر
لیا کہ وہ اُسے ٹریننگ دیں گے اور کام بھی۔
آپ لوگ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ حسین لڑکی ہو اور ماڈلنگ کا شوق ہو پھر
کامیابی کیسے نہ ملتی وہ کامیاب ہوتی چلی گئی-
دبئی کے ٹرپ سے جب بھی واپس آتی مجھے ملنے ضرور آتی تھی۔ اور پھر ایک دن وہ
ہوا جس کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں۔ وہ میرے آفس آئی تھی اور پرس صوفے پر
پھینک کر سیدھی میرے سامنے کھڑی ہو گئی۔،، کیا ہے،، میں نے پوچھا تھا۔،،
مجھے آپ سے محبت ہو گئی ہے،،۔ یہ سننا تھا کہ میرا پارہ ساتویں آسمان پر جا
پہنچا۔ میں نہیں جانتا قارئین کہ میں نے اُسے کیا کیا کہا، مجھے کچھ یاد
نہیں ۔یاد ہے تو صرف اتنا کہ اُس نے نہایت اطمینان سے وہ ساری مغلظات سُنیں
اور جاتے جاتے پھر کہا کہ میں آپ سے شادی کر کے رہوں گی۔
آپ میرا یقین کیجیے کہ اُس کے بعد وہ ہر روز ہی تقریبا میرے دفتر آ جاتی
اور اپنا مطالبہ دہراتی۔ پھر ایک دن تو میرے حیرانی کی انتہا نہ رہی ، جب
صابر نے دفتر میں آ کر میرے سامنے ہاتھ جوڑ دیے،، صاحب آپ اُس سے شادی کر
لیجیے وہ مر جائے گی،،۔ ،، صابر تُم جانتے ہو کہ میں ایک شادی شدہ شخص ہوں
، تُم اُس کے لیے کوئی اچھا سا لڑکا کیوں نہیں ڈھونڈ لیتے،،۔ ،، سر آپ
جانتے ہیں کہ جو اُس کے دماغ میں ایک بار آ گیا وہ اُسے حاصل کرنا ہی ہے،،
پھر وہ میرے پاؤں پڑ گیا ۔ میں نے اُسے اُٹھایا اور گھر جانے کو کہا، وہ
چلا گیا۔
اُسی شام سفینہ کو ایک بین الاقوامی ماڈلنگ ایجنسی سے آفر آ گئی، میں سمجھا
کہ چلو جان چھٹ گئی ۔ لیکن وہاں سے روزانہ اُس کے فون آنا شروع ہو گئے۔
کبھی دھمکیاں ، کبھی التجائیں ۔ پوچھیے مت یہ سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ کیا
کروں ۔ دماغ مفلوج ہو جاتا تھا ۔ پھر ایک دن میں نے اُسے صاف منع کر دیا
اور آئیندہ فون کرنے سے بھی منع کر دیا۔ رات اُس کے والد کا فون آیا کہ اُس
کا پردیس میں انتقال ہو گیا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ اُس نے خودکشی کی تھی۔
اور یہی وہ سوال تھا جو میں آپ سے کرنا چاہتا تھا ، کیا میں واقعی اُس کا
مجرم ہوں، یا میں اُس کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اپنے بال بچوں کا مجرم
بن جاتا، آپ ہی بتائیے؟ |