انجینئر افتخار چودھری
صدا آباد شہر ام القری مکہ المکرمہ کی رونقیں اسی طرح ہیں جیسے ہمیشہ ہوتی
ہیں، دل جب بھی ذرا سا پریشان ہو سوئے حرم چل پڑتا ہوں پچھلی بار گیا دلدار
شکیل نے عمرہ کرنا تھا میں نے طواف کیا،رات کو دل نے پھر ٹھانی کہ چلا جائے
بیگم اور بیٹی عمرے کے لئے تیار اور میں بھی۔کدی کے راست ہمیشہ داخل ہوتا
ہوں جیاد ہوٹل سے پہلے تک محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی رش نہیں ہے جیسے ہی آگے
بڑھا زائرین کی بسوں کی لمبی قطار نظر آئی اور پھر وہی رش وہی رونق میرے
سامنے تھی۔میں عموما گاڑی جیاد محلے کی طرف کھڑی کرتا ہوں حرم کے قریب ہوٹل
۲۰ ریال گھنٹے کے حساب سے چارج کرتے ہیں اور سو ریال دینے کی بجائے دور
کھڑی کر لیتا ہوں۔جدہ میں رہنے کا فایدہ یہ بھی ہے کہ آپ اپنے آپ کو
پاکستان سے قریب محسوس کرتے ہو،عمرے اور حج پر آنے والے عزیز رشتہ دار گلی
محلے کے لوگ آتے رہتے ہیں ہم جنہیں کچھ اور شوق بھی ہقتا ہے وہ بھی پورا ہو
جاتا ہے وہ ہے ادبی سماجی اور سیاسی شخصیات سے ملنے کا شوق،سیاست دان اتنے
باخبر شاید پاکستان کے سیاست دان بھی نہ ہوں سریع الخبری کا کا واقع سناؤں
پچھلے دنوں جب جماعت اسلامی کے سابق نائب امیر پروفیسر غفور اس جہان فانی
سے رخصت ہوئے تو میں مرحوم قاضی حسین احمد کو جھٹ سے ملایا انہوں نے میرا
شکریہ ادا کیا اور کہا کہ افتخار صاحب آپ کی کال سے مجھے پتہ چلا ہے زمین
پر چمکتے جگنو در اصل قاضی صاحب جیسے چاندوں کے دفن کی خبر دیتے ہیں وہ
یہاں جدہ آتے تو برادر میاں خالد ان سے ملاقات کا اہتمام کراتے میاں خالد
تحریک انصاف میں شامل ہو گئے قاضی صاحب چلے گئے نہ اب ان جیسا مہمان اور ان
جیسا میز بان اﷲ اﷲ خیر صلہ۔بات حاضری ھرم کی چل رہی تھی بچوں کو وہیں جیاد
ہوٹل کے اشارے کے پاس اتارا اور وہ چلے گئے اس معروف زمانہ گھری کی جانب جو
با عبدالعزیز کے باہر ایستادہ ہے میرے خیال میں ۹۰ فی صد لوگ اسی گھڑی کی
بات کرتے ہیں وہاں نلہ سے میرے گاؤں کے لوگ آئے ہوئے تھے ان سے ملاقات کا
وقت طے تھا تھوڑی دیر میں،میں نے بھی انہیں جائن کیا،اﷲ کے مہمان کا تعلق
فوج سے تھا حوالدار حاضر سروس، موصوف سیاچین میں جاب کر چکے ہیں اور آج کل
ایبٹ آباد جس کے نام پر تہمت لگ چکی ہے کہ اسامہ کی قتل گاہ ہے یہ،خوبصور
چیڑ کے درختوں اور مرغزاروں کا دیس ایبٹ آباد۔مجھے معصوم حوالدار نے بتایا
چا چا ہم آج کل بڑی ٹینشن میں ہیں ہمیں ہر وقت فکر رہتی ہے کہ کسی وقت بھی
کچھ بھی ہو سکتا ہے،میں نے کہا بچے جب اپنے دشمن بنا لئے جائیں تو ایسا ہی
ہوتا ہے وہ قبائیل جو ہمارے نظریاتی حلیف تھے وہ اب دشمن ہیں محسود قبایل
کی بات تو کل کی ہے ،ملا نذیر جو ہماری ڈھال تھا اسے امریکی مار گئے ،مارنے
والے تو آسمانوں سے ڈرون داغتے ہین اور پھر زمین پر تم جیسے بیٹے ان کے
انتقام کا نشانہ بنتے ہیں ہم ان کا نام رکھتے ہیں تحریک طالبان اور پتہ
نہیں کیا کیا۔پاکستان نے ۶۵ اور ۷۱ میں اتنی قربانیاں نہیں دیں جتنی اس
لڑائی میں۔نوجوان نے کہا کبھی واقعی یہ لڑائی پرائی تھی مگر اب ہم نے اسے
اپنی بنا کر ہی چھوڑا ہے۔یہ شاہین صفت لوگ میرے گاؤں کے کبھی کومیلا میں
مارے گئے اور اور کبھی سنگا پور ملایا میں۔
دو وقت کی روٹی کے لئے جسے کبھی مذہب،کبھی ملک، کبھی علاقے کے نام پر ہمیں
لڑا دیا گیا۔میں ملائیشیا گیا وہاں دوسری جنگ عظیم کے لوگوں کی ایک یادگار
ہے وہاں ایک تختی لگی ہے میر زمان، کالا خان، گھیبا گجر ، رکھا سنگھ یہ سب
شہداء ٹھہرائے گئے انگریز کے لئے لڑنے والے اس کی رائل فورسز کے ساتھ ۱۸
روپے پر بھرتی ہونے والے گھیبے گجر کو ملایا کی سر زمین پر ایک پھینے
جاپانی نے مار دیا،صدقے جانواں وکٹوریہ کراس حاصل کرنے والے دیسیوں
پر،چودھری اشرف گجر صدر ۃائی کورٹ بار اسلام آباد کہہ رہے تھے کہ تین میں
سے دو گجر تھے وہ کچھ بھی تھے مگر ان کی جرائت ان کی دلیری ان کی بہادری
ایک گورے نے چند ٹکوں کے عوض خرید لی، آنے والے کل کو شاید کوئی لکھے کہ
چند ڈالروں کے عوض جزبہ ء جہاد پر کھڑی فوج کو اپنے سے لڑانے والے قومی
مجرم تھے۔ میں نہیں میرا بیٹا نوید نہیں شاید ریحان میرا پوتا پڑھے۔لیکن۔۔۔۔لیکن
کیا ضروری ہے کہ سمجھنے کے لئے نسلوں کو انتظار کرنا پڑھے یہ کوئی راکٹ
سائینس تھوڑی ہے جسے گجر خان کے جنرل کیانی کو سمجھ نہیں آتی بھاڑ میں جائے
سیاسی حکومتیں ان کی پہلے کون سنتا تھا یہ وہیں ہیں نہ جن کے منتحب وزیر
اعظم تین گھنٹے جی ایچ کیو کے انتظار خانوں میں بیٹھی رہیں اور ہوا وہی جو
پیا کے من نے چاہا۔
میں انہی پریشانیوں کے ساتھ حرم میں داخل ہوتا ہوں ٹھکا ٹھک کی آوازیں،اویس
نے مجھے بتایا کہ بارہ ہزار لوگ دن رات کام کر رہے ہیں اور مطاف کو وسیع کر
رہے ہیں۔کہا پیارے رب نے آواز دی،سننے والے نے سنا اور لبیک کہا۔ کہتے ہیں
خلیل اﷲ کی آواز پر لبیک کہنے والوں نے حاضری دینی ہے مجھے اﷲ تعالی نے ۷۷
سے بار ہا حاضری دینے کا موقع فراہم کیا ہر بار یہاں توسیع ہوتی دیکھی سب
سے بڑی توسیع خادم حرمین شریفین ملک فہد بن عبدالعزیز کے دور میں ہوئی اب
مطاف کو کھلا کیا جارہا ہے پہلے براآمدے جو ترک دور میں بنے تھے وہ طواف
والی جگہ میں شامل کئے جا رہے ہیں ،سعی کی جگہ پہلے ہی کھلی کی جا چکی ہے
اس سے لاکھوں افراد کو طواف کرنے میں آسانی ہو گی۔خادم حرمین شریفین کی
حکومت حجاج کرام کے لئے سہولیات میں اضافہ کر رہی ہے ایک شخص جو حج کو آتا
ہے اگلے سال نیا منظر اس کے سامنے ہوتا ہے۔ہم نے عمرے کی ادائیگی پر اﷲ کا
شکریہ ادا کیا اور واپس جدہ آ گئے۔
شہر جدہ باب حرمین کے پاکستانی دنیا بھر میں پھیلے دیگر محبان پاکستان کی
طرح فکرمند ہیں اپنی دھرتی پاکستان کے لئے ان کے پاس کینیڈا امریکہ اور
برطانیہ کی نیشنیلٹیز نہیں ہیں ان کا سب کچھ پاکستان ہے سال ہا سال سے مقیم
پاکستانی ہر سال رہائیش کے لئے اقامت کی درخواست کرتے ہیں محمودوایاز سب
لائین میں۔پاکستان سے آنے والوں کا استقبال کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں
لیتے پاکستان کے لیڈران کا دوسرا گھر بھی یہاں ہیں کچھ کی یہاں رشتہ داریاں
بھی قائم ہو گئی ہیں۔گزشتہ روز صحافتی حلقوں کی ایک معروف شخصیت یہاں جدہ
آئی تو مملکت میں طویل عرصے سے مقیم ملک محی الدین اعوان نے ان کے اعزاز
میں ظہرانے کا اہتمام کیا دوپہر ہونے کی وجہ سے کم تعداد میں لوگ شریک ہوئے
مگر پھر بھی بھاری بھرکم لوگ شامل تقریب ہوئے جو جسمانی لحاظ سے اور ویسے
بھی کمیونٹی میں ایک مقام رکھتے ہیں جن میں مرزا گلنار بیگ،افضل جٹ شامل
ہیں۔تقریب کی ایک خاص بات یہ تھی کہ میز بان تقریب نے اپنے دیرینہ دوست ملک
منظور کے صاحبزادے عمر کو بھی مدعو کیا تھا ،عمر منظور خیر سے ہونہار بروا
ہیں اور حال ہی میں اردن کے پاکستانی سفارت خانے میں تھرڈ سیکریٹری تعینات
ہوئے ہیں الف مبروک ٹو برادر منظور۔ان کے ساتھ ورلڈ بنک میں ملازمت اختیار
کرنے والے ان کے نوجوان دوست بھی تھے،ناس ائیر کے کیپٹن اعجاز،برادر محترم
مظہرچیمہ اور سیٹھ عابدبھی تھے ،اسی شام میاں نواز شریف جدہ آ رہے تھے ۔میاں
فضل الہی نے اس موقع پر جدہ کے متحرک پاکستانیوں کو اپنے خیالات سے مستفید
فرمایا۔گزشتہ دنوں کام کے سلسلے میں ریاض جانے کا موقع ملا۔قلیل وقت میں
بہت سے پاکستانی بھائیوں سے ملاقات ہوئی چودھری مجید گجر شہر ریاض کی ایک
منفرد اور باغ و بہار شخصیت ہیں پتہ چلا کہ برادر خالد رانا کے والد محترم
اب اس دنیا میں نہیں رہے ان سے اظہار تعزیت کے لئے ان کی رہائش گاہ پر
حاضری دی وہیں خالد چیمہ،پروفیسر محمود باجوہ اور میاں عمران سے بھی ملاقات
ہوئی۔خالد رانا گزشتہ دنوں ہی والد محترم کو حوالہ خدا کر کے ریاض پہنچے
تھے،قارئین رب زوالجلال بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے احوال پر رحم فرمائے
ان پر خصوصی کرم ہو ان پر وہ وقت بہت مشکل ہو تا ہے جب انہیں یہاں کسی
پیارے کے بچھڑ جانے کی خبر ملتی ہے کفیلوں کے پاس پاسپورٹ اور ان سے اجازت
لینا پھر سیٹ حاصل کر نا یہ سب کچھ نصیبوں والوں کے نصیب میں ہو تا ہے کہ
وہ اپنے عزیزوں،پیارے والدین کا منہ دیکھ لیں۔سعودی عرب میں مقیم پاکستانی
ان حالات سے گزر رہے ہیں معمولی تنخواہوں پر محنت مزدوری کرنے والے اکثر و
بیشتر صبر کر کے رہ جاتے ہیں اور تا زندگی اس دکھ کو سینے میں لئے پھرتے
ہیں۔
یہاں جدہ سے قونصل جنرل پاکستان عبدالسالک خان مدت ملازمت ختم کرنے کے بعد
پاکستان واپس جا چکے ہیں ان کے اعزاز میں مختلف ادبی سماجی تنظیموں اور
افراد نے الوداعی تقریبات کا اہتمام کیا مجھے بہت سی تقریبات میں شرکت سے
معذرت کرنا پڑی مگر چودھری اکرم کی جانب سے تقریب میں شرکت کا موقع ملا جس
میں بہت سے معروف پاکستانی شریک تھے۔امیر محمد خان نے اس خوبصورت تقریب کی
نظامت کی اردو نیوز کے ایڈیٹر طارق مشخص بھی شریک محفل تھے مسعود پوری،جعفر
حسین،انجینئر منشاء،چودھری اعظم اور بہت سے معروف پاکستانی شریک ہوئے
چودھری اکرم نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کا تعارف بھی
کرایا۔قونصل جنرل نے اس موقع پر تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور اپنے
قیام کو بڑا حسین قرار دیتے ہوئے حاظرین سے خصوصی استدعا کی وہ حرمین کی
حاضری میں انہیں یاد رکھیں۔اس بار کا لم جدہ کی ڈائری کی شکل اختیار کر گیا
ہے بہت سے دوستوں کی خواہش تھی کی کالم نویسوں کی تو لمبی قطار ہے اور
لکھنے والے بھی بڑے سان قسم کے لکھاری ہیں ہمیں یہ جاننا ہے کہ یاران وطن
کا کیا حال ہے۔ایک ذکر کرنا بھول گیا ہوں میں ریاض کے مختصر قیام میں برادر
نسیم محمود سے شرف بار یابی ضرور حاصل کی وہ سخت علیل ہیں ان کے لئے خصوصی
کالم بھی لکھ چکا ہوں ان کی صحتیابی کی دعا ہے۔البتہ ملک ندیم شیر جو ریاض
میں تحریک انصاف کے کڑک قسم کے ورکر ہیں اور اپنی پارٹی سے وا بستگی کا حق
بھی ادا کرتے ہیں ان سے برادر جاوید اختر جاوید،ندیم تاجر سے ملاقات نہیں
کر پایا البتہ فون سے معذرت کر لی۔مختصرا یہ کہ لوگ پاکستان میں ہونے والے
انتحابات پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہیں انہیں اس بات کا احساس ہے کہ صرف اور
صرف جمہوریت حالات میں تبدیلی لا سکتی ہے وہ فراڈ قسم کے ارینجمیٹس کے سخت
خلاف ہیں۔میاں نواز شریف یہاں ہیں انہیں ایام بے دخلی کا جدہ بہت اچھی طرح
یاد ہے یہاں ان کے طویل قیام کے دوران بہت سے دوستیاں ہو چکی ہیں خدمت
گاروں کی بھی ایک طویل قطار ان کے انتظار میں رہتی ہے یہ الگ بات ہے اس
قطار کے لوگ بدل چکے ہیں ایام اسیری کے وہ لوگ جو قاید اعظم لیگ میں ہوتے
تھے کل پھول لے کر ان کے استقبال کے لئے موجود تھے سخت دنوں کا ساتھی قاری
شکیل جو ان کی بے وفائی کی نظر ہو کر جنت المعلی میں ہے وہ نہیں ہے سخت گرم
دنوں کا رفیق ارشد خان نہیں ہے سمجھ لیں وہاں کے امیر مقام ادھر بھی مقام
سنبھال چکے ہیں جمہوریت اسے ہی کہتے ہیں اس میں کسی سے مسقل دوستی اور
دشمنی نہیں ہوتی،اس میں وفا نہیں ہوتی،فٹے منہ ایسی جمہوریت کا۔ |