حیرانی کی بات ہے کہ سیلاب سے
متاثرہ لوگوں کی بہ جائے ان لوگوں کی امداد کی گئی ہے جن کے پاس سے بھی
سیلابی ریلہ نہیں گزرا ہے۔ ٹی وی کی خبروں اور گورنمنٹ کے اہل کاروں کا
دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ ہم نے متاثرین میں روپیہ اور غیر خوراکی اشیاءتقسیم
کیں لیکن تقسیم کے وقت مال او رسامان وہ لوگ بٹورتے جن کا کسی بھی قسم کا
نقصان نہیں ہوا تھا۔ جن لوگوں کے نقصانات ہوئے اور جن کے گھر سیلاب کی نذر
ہوئے وہ اب تک شلٹرز اور کسی اپنے رشتہ دار و یا دوسرے لوگوں کے گھروں میں
مقیم ہیں۔ کیوں کہ ان لوگوں کا پرسان حال کوئی نہیں اور نہ ہی ان لوگوں کو
کچھ ملتا ہے۔ آج بھی بین الاقوامی امداد کا عشر عشیر تک متاثرین میں تقسیم
نہیں ہوا ہے۔ جس کا منہ بولتا ثبوت متاثرین کے اجڑے ہوئے گھر اور کھیت
کھلیان ہیں۔ آج بھی ان کے مسائل ویسے کے ویسے حل طلب ہیں۔ کوئی مجھے بتائے
کہ کیا راشن اور غیر خوراکی اشیاءسے بھی کبھی اجڑے ہوئے گھر آباد ہوئے ہیں؟
حکومت کو چائیے کہ باہر سے ملنے والی امداد سے ان ستم رسیدہ لوگوں کے لیے
گھر وغیرہ بنائیں۔ واٹر چینل پروہ امداد خرچ کرنی چاہیے تاکہ کھیتوں کو
بروقت پانی مل سکے اور لوگوں کے گھروں میں خوش حالی آسکے۔ لوگوں کو دوسروں
کا دست نگر بنانا کہاں کا انصاف ہے۔
بدقسمتی سے پاکستانی سرکار کا ہمیشہ سے یہ قانون رہا ہے کہ وہ اپنی قوم کو
بیچ کر ملنے والی رقم کو اپنے ہی اکاؤنٹس میں جمع کرتی ہے اور جو کچھ ان سے
بچ جاتا ہے وہ ان کے کارندے اپنے درمیان میں بانٹ لیتے ہیں۔ ایسے میں سیلاب
سے متاثرہ ایک عام آدمی کیا توقع رکھے؟۔
میں تو یہ کہتے ہوئے حق بہ جانب ہوں کہ اس ملک میں غریب آدمی کا کوئی نہیں
ہے۔ سیلاب زدگان کا خدا ہی حافظ ہے۔ |