اس میں رتی برابر شک نہیں کہ
پاکستان میں جمہوریت کی بہتری کے لیے اور پاکستان کے وجود کو استحکام بخشنے
کے لیے الیکشن 2013 کا صاف شفاف ہونا اتنا ہی ضروری ہے ،جتنا انسان کے لیے
آکسیجن ،جتنا مچھلی کے لیے پانی ،جتنا رات کے لیے چاند،جتنا دن کے لیے سورج
، جتنا مذکر کے لیے مونث ، اور مونث کے لیے مذکر،جتنا انسانوں کے لیے خوراک
،مگر حالات بتاتے ہیں کہ پاکستان کے سیاست دان اور موجودہ حکمران ٹولے کو
اسکا زرا برابر احساس نہیں ، انکو تو بس ایک ہی فکر ہے کہ الیکشن میں
کامیابی کس طرح حاصل کرنی ہے ،اس کے لیے انکو کچھ بھی کرنا پڑے وہ کرنے کو
تیار ہیں ، جبکہ ایک بات بلکل عیاں ہو چکی کہ موجودہ حکمران ٹولہ چاہے وہ
فیڈرل میں ہے یا صوبوں میں ، ان میں ایک عجیب قسم کی بے چینی پائی جاتی ہے
،انکو ایک شک ہے کہ کہیں انکی چھٹی تو نہیں ہونے جا رہی ، کیونکہ یہ جانتے
ہیں کہ عوام کو میڈیا نے بہت شعور سے نوازا ہے ، اور باقی جو کسر رہتی تھی
وہ پچھلے پانچ سال میں انکی کارکردگی نے پوری کر دی ہے ، میری زاتی طور ایک
دو سیاست دانوں سے بات ہوئی جو پچھلے پانچ سال سے مزے لوٹ رہے ہیں ، دوران
گفتگو میں نہیں محسوس کیا کہ شاید یہ انکی زندگی کا پہلا الیکشن ہے جس میں
تمام حکمران جماعتیں کنفیوز ہے کہ جب الیکشن کا بگل بجے گا تو اس بار لوگ
ان سے کیا سلوک کریں گے ، سیاستدانوں میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ کہیں کوئی
عوامی لہر انکی ساری انوسٹمنٹ ضائع نہ کر دے ، اس وجہ سے الیکشن سے صرف تین
ماہ پہلے کہیںبھی الیکشن کو ماحول نظر نہیں آرہا ،ہونا تو یہ چاہیے کہ
سیاست دان بے خوف ہو کر عوام میں جائیں مگر اس بار ایسا ہوتا محسوس نہیں ہو
رہا ،اسی وجہ سے یہ اپنا خوف دور کرنے کے لیے اور عوام کے سامنے اپنا امیج
بحال کرنے کے لیے آج کل وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے ممبران کو بے دریع
فنڈز دے رہی ہیں ،اور مزے کی بات یہ ہے جن علاقوں میں کام ہو رہا ہے وہ
بغیر کسی ٹینڈر کے ہو رہا ، تاکہ الیکشن کمیشن کی پکڑ سے بچا جا سکے ، اب
بعد میں انکے حساب کتاب کی بات رہ گئی تو وہ بعد میں دیکھی جائے گئی ،ان سب
کاموں کے بوجود بھی یہ اپنے آپ کو بہتر محسوس نہیں کر رہے ، جسکی شاید ایک
بڑی وجہ وہ تین کروڑ ووٹ بھی ہیں جو پہلی بار اپنا ووٹ کاسٹ کرنے جارہے ہیں
، کیونکہ انکو پتہ ہے کہ ان تین کروڑ ووٹوں میں سے دو کروڑ کے نزدیک ووٹ
کاسٹ ہو گے اور ان دو کروڑ میں سے ایک کروڑ کسی ایک جماعت کو کاسٹ ہوگے تو
انکی ساری انوسٹمنٹ یہ آج کل کے چھوکرے بہا کر لے جائیں گے ، اور انکی جدی
پشتی لوٹ مار کے لائسنس کم از کم انکی زندگی میں شائد کام نہ آسکیں،یہ وجہ
ہے کہ کراچی کی ایم کیوایم سے لیکر پشاورکی ائے این پی تک اور بلوچستان کی
پی پی پی سے لیکر لاہور کی ن لیگ تک ، سب کے سب اپنے آپ کو خطرے میں محسوس
کر رہے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ سیاسی جماعتیں یہ سوچ کر خوش ہوتے
کہ ہم نے پانچ سال کھربوں روپوں کی لوٹ مار کی اب اگر اقتدار میں نہ بھی
ہیں تو کوئی بات نہیں لندن فرانس امریکہ میں باقی زندگی سکو ن سے گزاریں گے
، مگر انکی توندیں کہاں انکو بیٹھنے دیتی ہیں ،اور ہاں اب یہ لوٹ مار کے
طریقے اپنے بچوں کو منقتل کررہے ہیں بلکہ ہر جماعت نے اسکی تیاری بھی شروع
کر دی ہے ،بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو مل رہی ہیں مگر میں یہ سمجھ رہا
ہوں شاید ان سیاسی پارٹیوں کا آخری الیکشن ہو ، یہ وجہ ہے کہ تمام حکومتی
پارٹیاں ہر جائز و ناجائز کام کر رہی ہے کہ کسی طرح میری باری آجائے ، چاہے
اس باری کے لیے میرٹ کے نام پے ناجائز کام کرنے پڑیں ، چاہیے اس کے لیے
انکو نئے صوبوں کا ڈھونڈورا پیٹنا پڑے ، مگر اس سب کہ باوجود ، جب ان
پارٹیوں کے کرتا دھرتا اپنی آنکھیں کبوتر کی طرح بند کرتے ہیں تو ناجانے
انکو بلی کیوں نظر آتی ہے ، بلی نظر آنے کی بڑی وجہ پچھلے پانچ سال ہیں ،
کھربوں کی کرپشن کرنے کے بعد ان پارٹیوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ عوام کے پاس
کس طرح جائیں ، اسی لیے یہ عوام کو مختلف قسم کے لالچ دے رہے ہیں ، تین
کروڑ نوجوان ووٹ جو پہلی بار ووٹ کاسٹ کرنے جارہے ہیں انکو لالچ دیا جا رہا
ہے ، مگر یہ عقل کے اندھے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ نوجوان شائد بکنے کے
لیے تیار نہیں ، ہاں چند ایک کو خریدلو تو وہ سب کچھ تو نہیں،پاکستان کی
تاریخ میں پاکستانی اور انٹرنشنل اسٹبلشمنٹ کی سب سے پہلی فتح چیف جسٹس کی
بحالی کی صورت میں سامنے آئی ، اور اب حکمران اسٹبلشمنٹ جنکے پیچھے دراصل
نیشنل اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ ہے کو فیصلہ کن شکست کا ان الیکشن میں صاف
خطر ہ نظر آرہا ہے ، جو اس سے پہلے الیکشن میں کبھی ان طاقت کے مرکزوں نے
محسوس بھی نہیں کیا ، امریکی برطانوں عرب حکمران پس پردہ زرداری کے بعد
اپنا اگلا مہرہ لانے کے لیے کوشاں ہیں، اسی لے یہ مہرہ سعودی عرب میں
امریکی سفیر کی موجودگی میں موجودہ حکمرانوں سے مک مکا کرنے کی خبریں کچھ
دن پہلے میڈیا کی زینت بن چکی ہیں، اور اگر نیشنل اور انٹرنیشنل اسٹبلشمنٹ
اپنااگلا گھوڑا الیکشن میں کامیاب کروا گئی جسکو بہر حال رد بھی نہیں کیا
سکتا ، تو پاکستان کے لوگوں کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو گئی کہ سال دو
سال بعد لوگ یہ محسوس کریں گے کہ اس سے زرداری صاحب اچھے تھے ، کیونکہ
سٹیسٹس کوکے کسی مہرے سے پاکستان کی عوام کو کچھ فائدہ نہیں مل سکتا، ہاں
نقصان تو یہ ٹکا کے کریں گے ، اور وہ نقصان لوٹ مار کی صورت میں ہوگا
کیونکہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے لوٹ مار کے جو جدید طریقے ایجاد کیے
ہیںلازمی طور پر یہ بھی اس سے استفادہ حاصل کریں گے ، بجلی کو پورا نہیں
کیا جاے گا ، کیونکہ اگر کرنی ہوتی تو اٹھارویں ترمیم کے بعد بجلی بنانے کا
ٓختیار صوبوں کے پاس ہے مگر افسوس کسی ایک صوبے نے دو سال میں کوئی پاور
پلانٹ تو دور کی بات اسکی پلاننگ تک نہیں کی، سب سے زیادہ بجلی سے متاثر
پنجاب ہے ،افسوس وہاں کے حکمران بھی میڑو بس کے منصوبہ پر تو ستر سے پچھتر
ارب روپیہ لگا گے ، مگر صنعتوں کے بند ہونے پر آنکھیں بند کرکے بیٹھے رہے
اب اگر کوئی یہ کہے کہ یہ پاکستان کو تبدیل کر یں گے تو انکی عقل پر ماتم
نہ کیا جاے ،کیا سڑکیں اور پل عوام کا پیٹ بھر سکتے ہیں نہیں ہر گز نہیں ،
پاکستان کی عوام کوکھانے پینے کی چیزیں تعلیم صحت اور روزگار چاہیے-
انگریز نے آج سے دو سو سال پہلے انڈیا میں ریل کی پٹری بچھائی تھی ، مگر
لوگ اس سے خوش نہیں تھے ، کیونکہ انگریز بھی برصغیر کے لوگوں کو تعلیم صحت
اور روزگار دینے میں آج کے حکمرانوں کی طرح بری طرح ناکام ہوا تھا ، ماضی
کے تجربات کو سامنے رکھ کر یہ بات رد نہیں کی جا سکتی کہ سٹیٹس کو اگلا
الیکشن خریدنے کے در پر ہے ، اگر کسی قسم کی دھاندلی ہوئی یا الیکشن خریدنے
کی کوشش کی گئی تو یہ پاکستان کے عوام کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہو گا ،
اگر ایسا ہوا ، تو کیا لوگ پھر ماضی کی طرح دھنیا پی کے سو جائیں گے ، یہ
چیف جسٹس بحالی کی تحریک کی طرح کوئی نئی تحریک شروع ہو گی ، اسکا فیصلہ
الیکشن کے بعد ہو گا ، کیونکہ یہ 2013 ہے 1990 نہیں - |