’واہ میرے مالک تو نے ہم غریبوں
کی دال روٹی چلانے کے لیئے بھی کیسے کیسے ذریعے بنائے ہیں۔‘ شافو ابھی اسی
سوچ میں تھا کہ سگنل بند ہو گیا، اور گاڑیاں اس کے سامنے آ کر رکنا شروع ہو
گئیں ۔ شافو نے اپنے پھول سنبھالے اور گاڑیوں کے درمیان گھومنا شروع کر دیا۔
آج 14 فروری کا دن تھا ۔ شافو صبح سے تین مرتبہ دکان سے مال لا چکا تھا ،اور
اب تیسری مرتبہ لائے ہوئے پھول بھی ختم ہونے کو تھے ۔لال چمکتی گاڑی میں
بیٹھے بابو نے جب اس سے پھول خرید کر بیگم صاحبہ کو دیا تو نہ جانے کیوں،
صفیہ کا بھولا بھالا چہرہ اس کی آنکھوں میں گھوم گیا۔صفیہ کا خیال آتے ہی
اس نے پلاسٹک میں لپٹے پھولوں میں سے ایک پھول اپنی جیب میں رکھ لیا۔اس نے
سوچا کہ آج جب اپنی اضافی کمائی کے ساتھ یہ پھول وہ صفیہ کو دے گا تو وہ کس
قدر خوش ہو گی۔تب ہی اس نے فیصلہ کیا کہ کل وہ کام سے چھٹی کرے گا اور صفیہ
کو کلفٹن گھمانے لے جائے گا ۔اسے یاد آیا کہ وہ آخری مرتبہ کلفٹن ،دو سال
پہلے شادی کے فوراً بعد گئے تھے۔اس نے صفیہ کو جتنا خوش اس دن دیکھا تھا
اتنا خوش پھر کبھی نہیں دیکھا۔
سگنل کی بتّی اور ایک دو مرتبہ لال ہوئی اور شافو کے تمام پھول بک گئے ۔اب
وہ سڑک کے کنارے فٹ پا تھ پر بیٹھا دن بھر کی کمائی کا حساب کرنے لگا۔اسنے
وہ پیسے الگ کر لیئے جو واپسی پر اسے اس دکان پر دینے تھے جہاں سے وہ سارا
دن ادھار پرمال لاتا رہا تھا۔اسکی دھوئیں اور مٹی سے اٹی قمیض کی جیب میں
وہ پھول لگا تھا جو اس نے صفیہ کے لیئے رکھ چھوڑا تھا ۔
سگنل بند ہونے پر ساجد نے گاڑی فٹپاتھ کے ساتھ روک دی ۔ اس کی نگا ہیں پھول
والے کو تلاش کر رہی تھیں۔اسی لمحے شافواپنے گجرے سنبھالتا اٹھ کھڑا
ہوا۔ساجد نے شیشہ اتارا اور اسے آواز دے کر بلایا، ’ ہاں بھئی! ایک گلاب کا
پھول تو دینا ۔‘ ’صاحب پھول تو ختم ہو گئے ۔یہ گجرے ہیں یہ لے جائیں۔‘ شافو
نے گجرے آگے کیئے۔ ’ارے یہ ایک جیب میں لگا ہوا تو ہے۔ ‘ ’نن نئیں ساب یہ
یہ تازہ نہیں ہے۔‘ شافو نے بہانہ بنایا۔’ جیسا بھی ہے دے دو۔‘ ساجد نے یہ
کہتے ہوئے سو کا لال نوٹ جیب سے نکال لیا۔شافو ابھی اسی کشمکش میں تھا کہ
اچانک اس کے ذہن میں خیال آیاکہ جب وہ واپسی پرپیسے دینے دکان جائے گا
توصفیہ کے لئے پھول وہاں سے لے لے گا۔تب ہی اس نے جیب سے پھول نکال کر ساجد
کو تھمایااور نوٹ لے کر جیب میں رکھ لیا۔ا بھی اس نے بقایاپیسے واپس کرنے
کے لئیے جیب میں ہاتھ ڈالا ہی تھا کہ بتّی ہری ہو گئی۔
رات کے دس بج چکے تھے ، شافو دکان کی طرف روانہ ہوا۔دکان پر پہنچ کر اس نے
حساب کیا ،اس کی انکھیں دکان میں کچھ تلاش کر رہیں تھیں ’کیا گلاب کے پھول
اندر رکھ دیئے؟‘گلاب کے پھول نہ پا کر ،اس نے دکان والے سے پوچھا ۔’تم لو گ
ہی توسارے چن چن کر لے گئے تھے۔دیکھ لو اگراندر کوئی پڑا ہو۔‘ دکان دار نے
جواب دیا۔شا فو نے ساری دکان چھان ماری مگر آج گلاب کا پھول دکان پر کیا
پورے کراچی میں نایاب ہو چکا تھا ۔گلاب نہ پا کر شافو نے بیلے کے کچھ پھول
رومال میں لپیٹے ،دکان والے کو سلام کیا اور گھر کی جانب روانہ ہو گیا ۔
وہ اپنے خیالات میں گم چلا جا رہا تھا ۔اس کا دل بوجھل تھا اور اس کاضمیر
اسے ملامت کر رہا تھا کہ وہ پھول جو صفیہ کی امانت تھا اس نے چند روپوں کی
خاطر بیچ ڈالا۔یہ احساس اس کے دل میںپھانس بن کرچبھ رہا تھا۔ اس نے خود کو
تسلّی دی ۔’صفیہ کو کیا پتہ کہ میں نے اس کے لیے کوئی پھول رکھا تھا وہ
معصوم تو یہ سو کا نوٹ لے کرہی خوشی سے پھولے نہیں سمائے گی۔ ‘ مگر اس خیال
کے ساتھ ہی ایک عجیب سا سوال اس کے ذہن میں ابھرا۔
’آیا یہ سو کانوٹ صفیہ کے لیئے زیادہ مسرت کا باعث ہوگا، یا وہ گلاب کا
پھول اس کو ذیادہ خوشی دیتا؟‘
اس سوال نے اس کے ذہن میں عجیب سی کشمکش پیدا کر دی ۔سڑک سنسان تھی ۔اسے
پتا ہی نہ چلا کہ کب وہ چلتا ہوا سڑک کے بیچ پہنچ گیا۔ تب ہی دائیں جانب سے
مڑنے والی تیز رفتار کار کی ہیڈ لائٹس نے اس کی آنکھیں چندھیا دیں ۔ اس سے
پہلے کہ وہ خود کو بچاتا گاڑی کے پہیوں کی چرچراہٹ اور اس کی چیخ سناّٹے کو
چیر گئی وہ تقریباً اڑتا ہوافٹپاتھ پہ جا گرا۔کار ڈرائیورنشے میں تھا اسے
تو کیا رکنا تھا۔آس پاس کے بنگلوں سے چوکیدار باہر نکل آئے۔کسی نے ایدھی
سینٹر فون کیامگر جب تک ایمبولینس پہنچی شافو دم توڑ چکا تھا ۔
عین اسی وقت شہر کے ایک معروف ریسٹورنٹ میں ساجد نے اپنی تیسری گرل فرینڈ
کو ایک خوبصورت سا تحفہ اور گلاب کا پھول پیش کیا جسے لڑکی نے بڑی ادا کے
ساتھ وصول کیا ۔ دونوں نے ایک شاندار ڈنر کیا اور ہنستے مسکراتے ہوٹل سے
رخصت ہو گئے۔ویٹر نے ٹیبل صاف کی اور گلاب کا پھول اٹھا کر بچے کچے کھانے
کے ساتھ کچرے کے ڈبے میں ڈال دیا۔
شافو کی جیب سے ملنے والے شناختی کارڈ سے ایڈرس لے کر صفیہ کو اطلاع دی گئی
۔وہ روتی پیٹتی ایدھی سینٹرپہنچی ، ایک رضا کار نے شافو کی جیبوں سے ملنے
والا سامان لا کر صفیہ کے سامنے رکھ دیا۔ یہ کچھ رقم اور خون میں لت پت ایک
رومال تھا ۔صفیہ نے لپک کر شافو کا رومال اٹھا لیا ۔اس میں لپٹے بیلے کے
پھول شافو کے خون سے سرخ ہوکر چھوٹے چھوٹے گلاب معلوم ہوتے تھے۔صفیہ نے ان
پھولوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا ،چوما اور آنکھوں سے لگا لیا ۔ دور آسمانوں
پر کہیں شافو کی روح مسکرائی ۔اسے اس کے سوال کا جواب مل گیا تھا۔ |