اظہار خیال کی آزادی کو سماجی
زندگی میں ایک نعمت اور اہم ضرورت خیال کیا جاتا ہے اس کی جتنی اہمیت ہے اس
کا اتنا ہی غلط استعمال بلکہ ناجائز فائدہ اٹھایا جارہا ہے بلکہ اگر یہ کہا
جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اظہار خیال کی آزادی کو افراد ہی کی نہیں بلکہ
قوموں و ملکوں خاص طور پر دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری و توہین کا
ذریعہ بنالیا گیا ہے اور کمال کی بات تو یہ ہے کہ مغربی دنیا میں اس معاملے
میں بھی ’’دوہرے معیار‘‘ کو برتنے کی عادی ہے۔ مسلمانوں کے مذہب ان کے
پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں کچھ بھی کہنے کی کھلی چھوٹ ،
اظہارخیال کی آزادی کے بہانے ہر ایک کو حاصل ہے لیکن عیسائی مذہب کے بارے
میں اعتراض اور توہین کرنے والا لائقِ تعزیر ہے۔ یہی رویہ بھی ہمارے ملک
میں اپنایا گیا ہے جب تک یہ آزادی اخبارات، رسائل و کتابوں تک محدود تھی
بات اتنی گمبھیر نہ تھی کیونکہ ان تک کسی بھی علاقہ یا زبان بولنے والوں کی
پہنچ محدود تھی لیکن مختلف زبانوں کے بولنے والوں اور ملک کے ہر علاقہ کے
لوگوں تک ٹی وی چیانلز سے رسائی آسان ہوگئی ہے۔ اس سہولت نے اظہار خیال کی
آزادی کے حق کے استعمال کو بہت آسان بنادیا ہے لیکن اس کا استعمال زیادہ تر
منفی انداز میں ہورہا ہے خاص طور پر فرقہ پرست عناصر مسلمانوں کو بدنام اور
مطعون کرنے کے لیے الکٹرانک میڈیا یا ٹی وی چینلز کا بڑی بے دردی سے
استعمال کررہے ہیں۔ اخبارات رسالے (پرنٹ میڈیا) تو تھے ہی تھے اب ٹی وی
چینلز(الکٹرانک میڈیا) نہ صرف مسلمانوں کے لیے باعث آزار ہے بلکہ یہ ملک و
قوم کی اعلیٰ روایات اور اقدار کو پامل کرکے ملک کی عزت اور وقار کو داؤ پر
لگارہے ہیں اور کمال کی بات تو یہ ہے کہ ٹی وی چیانلز پر گرفت کرنے اور ان
کو قابو میں رکھنے کے لیے کوئی کوشش نہیں ہورہی ہے تو بھلا قانون سازی کیا
ہوگی؟ بلکہ ان کی حرکتوں کا ا س سنجیدگی سے نوٹس بھی نہیں لیا جارہا ہے جس
کی ضرورت ہے۔ اس خرابی کی اصل وجوہات مقبولیت کے حصول کے لیے تجارتی مسابقت
بلکہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی خاطر مسابقت نہ صرف غیر صحت مندانہ بلکہ اس
حدتک احمقانہ ہوگئی ہے کہ جو بات مسئلہ (ایشیو Non Issue) نہ ہو اس کو
مسئلہ (Issueایشیو) بنانا ٹی وی چیانلز کا کمال ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ
جس خبر کو چیانلز بڑی خبر بتاکر بڑی اہمیت سے دکھاتے ہیں وہی خبر اخبارات
میں کسی اہمیت اور خاص توجہ کی مستحق نہیں سمجھی جاتی ہے۔ اکثر ایک معمولی
سی خبر کو اس قدر اہمیت اور وقت دیا جاتا ہے کہ محسوسیہ ہوتا ہے کہ دنیا
میں اور کچھ ہو ہی نہیں رہا ہے اگر کوئی خبر یا مسئلہ فرقہ وارانہ نوعیت
بلکہ ایسا ہو جو مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے تو اس کو مسلمانوں کو
مطعون اور بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھنے میں بھی زبردست مسابقت
ہوتی ہے۔
یہ تو ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تیسری دنیا یا ایشیاء و افریقہ کے ذرائع
ابلاغ (میڈیا) پر صیہونیوں یا مغربی دنیا کے سرمایہ داروں کا زبردست اثر ہے
(عام طور پر موافق مغرب میڈیا کہہ کر صیہونیوں اور یہودیوں کی پردہ پوشی کی
جاتی ہے) ہمارے وطن عزیز میں ذرائع ابلاغ پر کبھی سرمایہ داروں کا غلبہ تھا
( اس وقت اسے ’’جوٹ Juteپریس کہا جاتا تھا) اب زیادہ تر سرمایہ دار سنگھ
پریوار کے سرپرست ہوگئے ہیں نیز سنگھ پریوار کا اپنا بھی اثر بڑا کام کرتا
ہے لہٰذا زیادہ تر اخبارات اور ٹی وی چیانلز سنگھ پریوار کے ایجنڈے پر عمل
پیرا ہیں۔ سنگھ پریوار کے ایجنڈے میں مسلم دشمنی ہی شامل نہیں ہے بلکہ سنگھ
پریوار کا فاشزم پر بھی اٹوٹ ایقان ہے اور فاشزم کی ایک صورت منفی قوم
پرستی بھی ہے۔ منفی حب الوطنی یا قوم پرستی کی انتہا ازحد نقصان دہ ہے۔
سنگھ پریوار کے زیراثر میڈیا موافق امریکہ بھی ہے لہٰذا امریکہ کی خاطر
ہمارا میڈیا چین کے بھی خلاف ہے۔ انگریزی و ہندی کے ہی نہیں بلکہ اردو کا
اکلوتا چینل اور تمام علاقائی زبانوں کے چیانلز پر موقع ملتے ہی چین کے
خلاف تبرہ بازی شروع ہوجاتی ہے حالانکہ چین اس وقت ہندوستان کی مخالفت سے
زیادہ امریکہ سے معاشی میدان میں نہ صرف مسابقت بلکہ امریکہ پر فوقیت حاصل
کرنے کے لیے سرگرداں ہے جو بھی ملک معاشی استحکام یا معاشی میدا ن میں ترقی
کے لیے جدوجہد کرنے والا ملک اپنے پڑوسی ممالک سے معاندانہ رویہ اختیار
نہیں کرسکتا ہے۔ اسی لیے ملک کے سچے بہی خواہ پاکستان کے خلاف غیر ضروری
مہم پسندی سے احتراز پر زور دیتے ہیں۔
اب ہمارے ٹی وی چینلز کا مسلمانوں کے خلاف غیر ضروری بے جواز، بے موقع اور
جھوٹے، من گھڑت اور بے بنیاد پروپگنڈے کی بات کریں لیکن پہلے میڈیا اور
پاکستان کی بات کی جائے ابھی ہم نے بتایا کہ چین کے ساتھ ہمارے ٹی وی
چیانلز کا رویہ معاندانہ ہے تو پاکستان سے ہمارے ٹی وی چیانلز کا رویہ اور
بھی زیادہ مخالفانہ معاندانہ ہے۔ ہمارے ملک کی اعلیٰ اقدارو روایات کو بری
طرح پامال کیا جارہا ہے ۔ خاص طور پر ہندوستان کی مہمان نوازی اور خوش
اخلاقی تو دنیا بھر میں مشہور و معروف ہے لیکن پاکستانی مہمانوں سے بد
اخلاقی، بدتمیزی یا ان کی توہین کرنا جو ہمارے ملک کے شایان شان نہیں ہے۔
ہندی و انگریزی کے یوں تو کئی میزبان (اینکرس) کا رویہ نا مناسب ہوتا ہے
لیکن ان میں آگے ارنب مکرجی اور راہل (انگریزی والے چینل ہیں)
ہم ماضی میں زیادہ دور نہیں جانا چاہتے ہیں۔حال ہی میں چند واقعات کے حوالے
سے ٹی وی چیانلز کا رویہ پیش کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی ملعون و مردو د قلم
کار (وہ بھی نام نہاد) ہندوستان میں طویل قیام کے ویزے سے مستفید ہورہی ہے
مسلمانوں کو اس پر انتہائی سخت اعتراض و ناراضگی ہے۔ مسلمانوں کی ناراضگی
کا نہ تو کبھی ذکر سننے میں آیا ہے ہاں کوئی مسلمان تسلیمہ نسرین پر یا ملک
میں اس کے قیام پر اعتراض اگر کرے تو اس پر تقنید کی بوچھار ہوگی۔ یہ سوال
کوئی نہیں کرسکتا ہے کہ تسلیمہ نسرین جس کو اس کے اپنے ملک بنگلہ دیش یا
کسی اور ملک میں قیام کی اجازت نہیں ہے (حالانکہ بنگلہ دیش کی حکومت کو خود
اسلام پسند نا پسند کرتے ہیں اور بنگلہ دیش میں حسینہ واجد لبرل، سیکولر(
مذہب بیزار) مانی جاتی ہے ۔ تسلیمہ کوئی بلند معیار کی ادیب بھی نہیں ہے
پھر بھی توہین اسلام کی مرتکب ہوکر مرتدہونا اس کی واحد خصوصیت ہے اور
ہندوستان میں اس کی پذیرائی کی وجہ صرف اس کی توہین اسلام کی جسارت ہے اور
مسلمانوں کی اس سے نفرت ہے۔
سلمان رشدی کی دنیا بھر کے اسلام دشمنوں میں عزت افزائی وجہ اس کا ارتداد
اور اسلام اور اسلام کی مقدس ہستیوں خاص طور پر امہات المومنین کی شان میں
اس کی گستاخی ہے۔ مغرب نے اس غیر ادیب کو بڑا ادیب بنادیا۔ ہندوستان میں
بار بار اس کی آمد اس کی پذیرائی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ حال ہی میں یہ
ملعون اعظم پھر ہندوستان آیا تھا یا بلایا گیا تھا (مسلمانوں کے سینوں پر
مونگ دلنے کیلئے) آفریں ہے ممتاز بنرجی پر کہ اس کو کولکتہ آنے نہیں دیا۔
ممتاجی کے اس اقدام پر جو کچھ ہوا وہ آپ جانتے ہیں اس کی آمد پر مسلمانوں
کے اعتراض کو نظر انداز کرنے والے میڈیا نے ممتابنرجی پر بڑا اعتراض کیا
اور بڑا واویلا مچایا گویا ممتابنرجی نے ملک سے غداری کی ہو۔
کمل ہاسن کے فلم پر ہنگامہ کا موضوع یہ تھا کہ سنسر بورڈ کی منظور شدہ فلم
پر جیہ للیتا کی حکومت نے کیوں اعتراض کیا؟ کسی نے (میڈیا والوں نے) یہ
جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ٹاملناڈو کے مسلمانوں کا اعتراض کیا ہے؟ کیوں ہے؟
آیا اس کا کوئی جواز ہے یا نہیں؟ سارا ہنگامہ اس بات پر تھا کہ اعتراض کیوں
کیا گیا؟
چند دن قبل حیدرآباد میں منعقدہ ایک اسلامی کانفرنس میں برطانوی نو مسلم
خاتون صحافی کو ہندوستان آنے کا ویزا نہ دینے کا کوئی جواز اگر ہوسکتا ہے
تو وہ یہ خدشہ ہے کہ محترمہ ریڈلی کہیں طالبان کے آداب، اخلاق اور شائستگی
کی تعریف نہ کردیں کیونکہ ریڈلی طالبان کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر ہی اسلام
کی طرف راغب ہوکر دولت ایمان سے مالا مال ہوئی تھیں حکومت کی اس نا انصافی
پر میڈیا نے کسی دلچسپی کااظہار نہیں کیا!
مسلم مسائل سے ٹی وی چیانلز کی عدم دلچسپی کا حال سب ہی جانتے ہیں گزشتہ
ایک سال میں راجستھان ، آندھراپردیش ، اترپردیش اور مہاراشٹرا کے فسادات پر
کتنی توجہ دی گئی فسادات کی خبریں اور تصاویر کتنی دیر اور کتنی بار بتائی
گئی ہیں وہ ان چیانلز کی جانب داری کا ثبوت ہے کسی مقام پر اگر پولیس
ہلکاسا لاٹھی چارج کرے تو بڑی اہمیت اور اہتمام کے ساتھ دکھایا جائے گا
لیکن دھولیہ میں پولیس کی وحشیانہ فائرنگ (وہ بھی جان بچاکر بھاگنے والوں!)
سے اور پولیس کی لوٹ مار آتش زنی کے وقت ٹی وی چیانلز کے کیمرے بند تھے اور
رپورٹرس شائد آرام کررہے تھے۔ ان چیانلز کی جانبداری صرف خبروں کے معاملے
تک محدود نہیں ہے۔ ٹی وی پر جو مذاکرے ہوتے ہیں ان کا الگ تماشہ ہے۔ غیر
مسلموں میں منی شنکر ائیر، جسٹس سچر، جسٹس کاٹجو اور ستیلواڈ جیسے غیر جانب
دار اور انصاف پسند مسلم مسائل کے سلسلے میں زیادہ نہیں بلائے جاتے ہیں۔
مسلمانوں میں سے زیادہ تر صلح جو مخالفین اور ارنب مکرجی، راج دیپ دیسائی ،
ندھی رازدان، راہل (صرف انگریزی چیانل والے) راہل (ہند وانگریزی) وغیرہ
وغیرہ جیسے جارحانہ تیور رکھنے والے، ناشائستہ انداز میں چلانے والے بلکہ
ڈرانے والے میزبانوں سے مرعوب ہونے او ر کھل کر صاف اور واشگاف انداز میں
دبنگ لہجہ اور انداز میں بات نہ کرنے والے ہی زیادہ تر بلائے جاتے ہیں۔جو
طالبان کے بارے میں یاتو غلط خیالات رکھتے ہیں یا منافقت میں طالبان کی
برائی کرتے ہیں ایک صاحب جو نہ حیدرآباد کے حالات و ماحول سے واقف اور نہ
ہی اکبر الدین اویسی کی تقریر انہوں نے سنی اور نہ ہی حالات کے پس منظر کا
ان کو علم تھا لیکن محض سنی سنائی پر اکبر پر وہ لعنت و ملامت کی کہ سنگھ
پریوار والے نہ کریں۔ اسی واسطے چند مخصوص مسلم چہروں ہی کو تمام ہی چیانلز
پر بار بار بلایا جاتا ہے۔ اسد الدین اویسی ایم پی اور ممتاز صحافی عزیز
برنی جیسے بے باک، بے خوف ہوکر دبنگ لہجہ میں اینٹ کا جواب پتھر سے نہ سہی
بلکہ پتھر کا جواب اینٹ سے دینے کم کم ہی بلائے جاتے ہیں۔ ہمارے چیانلز پر
سچ بولنے والے افراد کو زیادہ برداشت نہیں کیا جاتا ہے۔
سنگھ پریوار کاپروپگنڈہ بھی خوب ہوتا ہے آج کل سنگھ پریوار اگلے عام
انتخابات کے بعد نریندر مودی کو بطور وزیر اعظم پیش کرنے میں میڈیا کی
زبردست مدد سے سرگرم ہے۔ نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانے کی مخالفت میں پیش
کئے جانے والے نکات کو میڈیا کوئی اہمیت نہیں دیتا ہے۔ اشتہاری خبروں Paid
Newsکے اس دور میں عوام کی اکثریت گمراہ ہوسکتی ہے۔
میڈیا صرف سنگھ پریوار کا پروپگنڈہ کرنے یا مسلم دشمنی اور امریکہ کی خاطر
پڑوسی ممالک سے تعلقات کو تلخ اور کشیدہ بنانے اور مودی جیسے فاشست اور
ظالم کو وزیر اعظم بنانے کی مہم چلانے کا ہی خطاکار نہیں ہے بلکہ، غیر
ضروری وغیر اہم باتوں یا ’’نان ایشیوز کو ایشوز بناکر عوام کی اصل مسائل سے
ہٹانے کا بھی گناہ گار ہے۔
مختصر یہ کہ ملک کی سیاسی، سماجی اور حدتو یہ ہے کہ مذہبی زندگی میں بھی ٹی
وی چیانلز خرابیاں پیدا کررہے ہیں جس کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں۔
آزادی ، اظہار خیال کے حق کے نام پر ہونے والے یہ تماشے اب قابو سے باہر
ہورہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کو قابو میں رکھنے کے لیے ان پر
پابندیوں کی گرفت تنگ کی جائے۔
تفریحی پروگرام پیش کرنے والے ٹی وی چیانلز بھی قابو سے باہر ہورہے ہیں اور
یہ بھی گفتگو کا الگ اور اہم موضوع ہے۔ جس کے لیے ایک علاحدہ تحریر کی
ضرورت ہے اس لیے ہم گفتگو خبروں یا نیوز کے چیانلز پر ہی ختم کرتے ہیں۔ |