قرآن وحدیث میں ظلم کی شدید مذمت
کی گئی ہے ، اسلام نے اخلاق کے درس سے ظلم کا خاتمہ کیا
آج کی مادی دنیا میں انسانیت سسک رہی ہے، صفت آدمیت دم توڑرہی ہے، انسانوں
میں جذبہ صلہ رحمی وجذبہ محبت خال خال ہی نظر آتا ہے، ایثاروقربانی کا جذبہ
مفقود نظر آتا ہے، آدم کی اولادیں آپسی چپقلش اور دلی رنجشوں کا شکار
ہوکراپنی شیرازہ بندی کو منتشر کرچکے ہیں، ایک انسان دوسرے پر ، ایک ریاست
دوسری ریاست پر اور ایک ملک دوسرے ملک سے برتری کا خواہش مند ہے، ایسی
خواہش رکھنے والے ایک دوسرے پر ظلم جیسے رذیل فعل کو انجام دینے سے بھی
گریز نہیں کرتے۔ اقتدار وطاقت وقوت کے نشے سے سرشار ظالم ان باتوں کو بھول
جاتے ہیں کہ ایک دن ظلم کا انجام برا ہونا ہے۔ فرمانِ نبوی ہے کہ ظلم قیامت
کے دن اندھیروں کا سبب ہوگا۔(بخاری ومسلم) جو شخص ایک بالشت زمین ظلم سے
حاصل کریگا اللہ تعالیٰ اس کے گلے میں ساتوں زمینوں کا طوق ڈالے گا۔(مسلم
وبیہقی) بعض کتب میں مرقوم ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس آدمی پرظلم میرے
غضب کو بھڑکا دیتا ہے جس کا میرے سوا کوئی مدد گارنہیں ہے۔مجدد عصر امام
احمد رضا علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیکہ حضورﷺ نے فرمایا:جو دیدہ ودانستہ
کسی ظالم کے ساتھ اسے مدد دینے چلاوہ اسلام سے نکل گیا۔(فتاوی رضویہ،حصہ
دوم250/9)ایک اور مقام پر فرمان رسالت ہیں:جو کسی جھگڑے میں ناحق والوں کو
مدد دے ہمیشہ خدا کے غضب میں رہے جب تک اس سے بازآئے۔(ابن ماجہ)
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو ایسی سینکڑوں مثالیں نظر آئیں گی جس میں
ظالم حکمرانوں کے تخت وتاج کے تارپود بکھرگئے۔ایک دانشمند نے کہا ہے کہ جب
تو صاحبِ اقتدار ہوتو کسی پر ہرگز ظلم نہ کر کیونکہ ظالموں کا انجام
شرمندگی ہے، تیری آنکھیں سوئیں گی مگر مظلوم کی آنکھیں جاگ کرتیرے لئے اللہ
تعالیٰ سے بددعا کریں گی اور اللہ تعالیٰ کبھی سوتا نہیں ہے ۔ میدان کربلا
میں یزیدیوں نے خانوادہ ¿ رسالت پر ظلم و ستم کیا نتیجتاً دنیا میں بھی
ذلیل وخوار ہوئے ، اقتدار کا خاتمہ ہوا اور آخرت کی دائمی رسوائی بھی مقدر
بن گئی۔ اہل مکہ نے اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں کو اپنے ظلم وستم کا
نشانہ بنایا مگر اللہ پاک نے ظالموں کو شکست فاش دی اور اہل ایمان شاہانہ
طمطراق کے ساتھ فاتح مکہ بن کر شہر مکہ میں داخل ہوئے، ۸۱ویں اور ۹۱ویں صدی
میں برٹش گورنمنٹ نے ملک ہندوستان پر ظلم کا شکنجہ کسنا چاہا مگر علمائِ حق
نے احقاقِ حق اور ابطالِ باطل فرمایا اور ظالم اپنے کیفرِ کردار کو پہنچے،
چیچنیا ، بوسینیا ، افغانستان اور عراق پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے مگر آج
ظالموں کا انجام ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ اسی لئے اسلاف کرام نے فرمایا کہ
کمزوروں پر ظلم نہ کر ورنہ تو بدترین طاقتوروں میں سے ہوجائے گا۔
ذہن نشین رہے کفر کی حکومت زیادہ دنوں تک پنپ سکتی ہے مگر ظلم کی حکومت کی
زندگی انتہائی مختصر ہوتی ہے پیغمبر اسلام کا واضح فرمان موجود ہے کہ مظلوم
کی دعا کبھی رد نہیں کی جاتی۔ مظلوم کی ایک آہ و کراہ بلند ہوتی ہے اور
ظالموں کے ایوانوں میں زلزلے بپا ہوجاتے ہیں۔امیر المومنین سیدنا فاروق
اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول گرامی وقارﷺ نے ارشاد فرمایا:جس کا
کوئی حامی ومددگار نہیں اللہ ورسول اس کے حامی وناصر ہیں۔(ترمذی،ابن ماجہ)
توریت میں مرقوم ہے کہ پل صراط پر منادی ندا کرے گا: اے شرکش ظالمو! اے
بدبخت ظالمو! بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنی عزت کی قسم یاد فرمائی ہے کہ آج
ظالم کا ظلم پل صراط سے نہیں گذرے گا یعنی ظالم پل صراط سے نہیں گذرسکیں گے۔
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ظالم قیامت کے دن آئے گا جب وہ
پل صراط پر پہنچے گا اسے مظلوم مل جائے گا اوروہ اپنے ظلم کو خوب پہچان لے
گا۔ لہٰذا ظالم مظلوموں سے نجات نہیں پائیںگے یہاں تک کہ ظلم کے بدلے ان کی
نیکیاں لے لیں گے اور ان کی نیکیاں نہیں ہوں گی توان کے ظلم کے برابر اپنے
گناہ ظالموں پر ڈال دیں گے تاکہ ظالم جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں بھیجیں
جائیں ۔ حتیٰ کہ حضورﷺ نے یہاں تک فرمایا جو ناحق ایک چابک مارتا ہے قیامت
کے دن اس کا بھی بدلہ لیا جائے گا۔ انسان تو انسان جانوروں کے تعلق سے
فرمان رسالت ہیں:اگرسینگ والی بکری بغیر سینگ والی بکری کو سینگ مارے گی تو
اس کا بدلہ بھی قیامت کے دن سینگ والی بکری سے لیاجائے گااور اس کاطریقہ یہ
ہوگاکہ مولیٰ بغیر سینگ والی بکری کو سینگ عطاکرے گااور سینگ والی بکری سے
بدلہ لیاجائے گا۔اللہ پاک ہم سب کو ظلم سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین |