از: عتیق الرحمن رضوی
نوری مشن ،مالیگاﺅں
بزرگان دین کے اقوال بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔جن سے عبرت کا درس اور فکر
کو راہ ملتی ہے۔دلوں کو سکون اور روح کی تسکین کا سامان کرتے ہیں۔جو فکر کو
جلا اور ذہن کی تشکیل کرتے ہیں۔دور حاضر میں علامہ قمرالزماں خاں اعظمی کی
علمی شخصیت ہرذی علم،عوام و خواص سب میں یکساں معروف و مشہور ہے،موصوف کا
شمار دور حاضر کی عبقری ،اور دنیائے اسلام کی با اثر شخصیات میں ہوتا
ہے۔ابتدائی تعلیم سے متعلق خود ان کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں....
”۶ سال کی عمر میں گاؤں کے مدرسہ میں داخل ہوا۔ ۸ سال کی عمر کے بعد مدرسہ
انوار العلوم، جین پور (اعظم گڑھ) میں داخل ہوا۔ پرائمری درجات اور ابتدائی
عربی اور فارسی کی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ شام کو ہر روز دادا عبدالصمد خاں
مرحوم آمد نامہ اور گلزارِ دبستان خود پڑھایا کرتے تھے۔ اس طرح سے گھر اور
مدرسہ کے ماحول میں میرے علمی اور دینی مذاق کی تربیت میں بہت اہم رول ادا
کیا۔ 1958ءمیں مولوی کا امتحان الہ آباد بورڈ سے پاس کیا اور اسی سال
دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور میں داخلہ ہوا۔ اس وقت قدوری کی جماعت سے
ابتدائی تین سال تک اشرفیہ متوسطات تک مکمل کی ۔ 61 ءمیں ندوة العلماءمیں
داخلہ لیا۔ وہاں سے عا لمیت کی سند 63 ءمیں حاصل کی۔ 64 ءکے ابتدا میں
تعطیلِ کلاں میں مکان واپس ہوا اور حافظِ ملّت علیہ الرحمہ کے حکم سے ۴۶ءمیں
چند مہینوں کے لیے مدرسہ عزیز العلوم، نان پارہ میں بحیثیت مدرّس کام کرتا
رہا۔پھر حضور حافظِ ملّت علیہ الرحمہ کے حکم پر 1966ءمیں اشرفیہ میں صحیحین
کا امتحان دینے کے بعد دستارِ فضیلت سے نوازا گیا.... (تجلیات قمر ،ص14)
بحر کیف اس تحریر کا مقصد آپ کے فکری اصلاحی اور تبلیغی اقوال وملفوظات پر
روشنی ڈالنا ہے ۔نہ کہ حیات و سوانح۔بزرگان دین کے اقوال کو محفوظ کرنے کی
روایت کافی پرانی رہی ہے۔اس لحاظ سے سیرت طیبہ پر کتابیں بھی اس ضمرے میں
لائی جا سکتی ہیں۔جو ایک مستحسن اور لائق تقلید فعل ہے۔کیوں کہ بزرگان دین
کے ارشادات و اقوال کا جمع بعد کی نسلوں کے لیے ماخذ و مشعل راہ ثابت ہوتے
ہیں۔ علامہ قمرالزماں اعظمی کے اقوال و ملفوظات پڑھنے سے تعلق رکھتے
ہیں۔جنہیں پڑھ کر افکار و اذہان کا قبلہ بدلتا ہوا نظر آے گا۔اور آپ خود
میں ایک انقلابی قوت محسوس کریں گے۔کہیں آپ کو فکر غزالی نظر آئے گی، کہیں
رازی کا سوز دروں،کہیں فکر اقبال کی جلوہ گری دکھائی دے گی۔تو کہیں عشق
امام احمد رضا(وصال 1921ئ) کی چاشنی۔داعیانہ اسلوب عالمی مبلغ اسلام مولانا
شاہ عبدالعلیم میرٹھی(مدفون جنت البقیع،وصال1954ئ)کے فکر کا آئینہ دار
ہے۔ذیل میں (تجلیاتِ قمر،مرتب: زبیر قادری،ممبئی سے)علامہ قمرالزماں اعظمی
کے چند ملفوظات بلا تبصرہ پیش خدمت ہیں:
نکتہ دعوت:
﴿ جہاں تبلیغی اجلاس منعقد ہوں وہاں کوئی مرکز بھی قایم ہوجائے۔
﴿ اسلام ہی پوری دنیا کا نجات دہندہ(مذہب ہے)۔
﴿ انسان نے کوئی ترقی نہیں کی بلکہ انسان سانس سانس انحطاط پذیر ہے۔ ہاں
انسان نے جس چیز کو چھودیا وہ ضرور ترقی کر گئی۔
﴿ نجات کا کامل تصور صرف اسلام نے پیش کیا ہے۔
عشق رسول:
﴿ عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اگر دِلوں میں راسخ ہوگیا تو آپ نے
بڑی کامیابی حاصل کرلی۔
﴿ (نعت کی محفل)دین کی خدمات اور مسلکی ترجیحات کا یہ ایک موثر ذریعہ ہے۔
اغیار کی عشوہ طرازی کا جواب:
﴿ اسلام تلوار نہیں بلکہ اپنی سچائی اور اخلاقی برتری سے پھیلا ہے۔
﴿ اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے عورتوں کو مکمل آزادی عطا فرمائی۔
﴿ اسلام نے غلاموں کو آزاد کرنے کے ہزاروں طریقے وضع فرمائے۔ غلاموں کی
آزادی، گناہوں کا کفّارہ قرار دی گئی، اعمالِ حسنہ کا بدل قرار دی گئی۔
﴿ اسلام میں عورتوں کو حقوق کے سلسلے میں مَردوں کے برابر حیثیت دی گئی ہے۔
﴿ اسلام میں پردہ کا سسٹم عورت کی عصمت، غیرت اور وقار کے تحفّظ کے لیے ہے۔
جبکہ مغرب میں پردہ نہ ہونے کے سبب سے عورت بہت زیادہ غیر محفوظ اور انسانی
درندگی کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔
﴿ اگر پیغمبر اسلام اور ان کے صحابہ نے دنیاوی آسائشوں کے لیے جہاد کیا
ہوتا تو قیصر و کسریٰ کے فاتحین کے پاس اگر قیصر و کسریٰ جیسے محلّات نہیں
تو کم از کم ان کے اپنے مکان تو ہوتے۔
فکرونظر:
﴿ میرے بھائی !کسی بھی شخص کو جاننا ہو تو اس کو پڑھو، نہ کہ کسی کے
پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر اس کے متعلق اپنی رائے قائم کرلو۔
﴿ تم یورپ اور امریکہ میں ذہن کا سودا کرتے ہو، تمہاری کون سنے گا۔ یہ تو
ذہن اور عقل کی زمین ہے۔ یہاں تو روح کی بات سُنی جائے گی۔ دل خالی ہیں،
روحیں بے نور ہیں۔ ان کو عقل کی بات نہ سناؤ۔ ان کو روح کی بات سناؤ۔ اگر
تم کو اِن سے محبت ہے۔
﴿ پوری دنیا میں سیاسی پارٹیوں کے یا ملکوں کے ایسے فیصلے جو اسلام اور
روحِ اسلام سے متصادم ہوں، ان کے خلاف احتجاج کیا جائے ۔
اور اس سے(اسلام مخالف) متعلق قوانین پر احتجاج، مختلف ملکوں میں حجاب کا
مسئلہ۔ ایسے سیاسی نمائندے جو کسی ایسی بات کے موید ہیں جو غیر اسلامی ہے،
ان سے عدم تعاون۔ مختلف ملکوں میں مسلمانوں کا پریشر گروپ تیار کرنا جو
ایسے نمائندوں کی حمایت کریں جو مسلم کاز کے موید ہیں۔ مسلم ملکوں کی غیر
اسلامی روش کے خلاف احتجاج کرنا۔
﴿ سعودی عرب کی پون صدی پر پھیلی ہوئی بے پناہ کوششوں اور پیٹرو ڈالر کے
ذریعے دینی شخصیات و اِداروں کو خریدنے کے باوجود عالمِ اسلام کی اکثریت آج
بھی اہلِ سُنّت و جماعت ہے۔
رضویات:
﴿ امام احمد رضا نے خانقاہی مراسم کو استدلالی زبان دے دی ہے ہر خانقاہ
اعلیٰ حضرت کے احسان تلے دبی ہوئی ہے۔ کوئی خانقاہ امام احمد رضا کے احسان
سے سرنہیں اٹھا سکتی۔
﴿ فکر اعلیٰ حضرت ہی آپ کی رہ نمائی کر سکتی ہے، وہی آپ کو سہارا دے سکتی
ہے، سب کسی در پر جھکے نظر آتے ہیں، وہ تنہا امام احمد رضا ہیں جو کہیں
جھکے نظر نہیں آتے:
منم و کنج خمولی کہ نگنجد دروے
جز من و چند کتابے و دوات و قلمے“
مفکر اسلام نے حکات انسانی کے پیچیدہ مسائل کو کریدہ ہے اور طبیب حاذق بن
کر ان کا درماںبھی کیا ہے۔برادر مکرم غلام مصطفی رضوی آپ کے علوم و معارف
پر تبصرہ کرتے ہوے فرماتے ہیں:
”ارشادات قمر میں صدیوں کا فلسفہ مستور ہے۔آپ کی خطابت علوم و فنون کے کثیر
جہات کو محیط ہے۔حدیث و تفسیر، فقہ و تاریخ،فلسفہ و جغرافیہ ، سائنس اور
علوم جدیدہ و قدیمہ میں تعمق ومہارت آپ کی گفتگو سے واضح ہے۔ایسے دیدہ ورکی
گفتگو دل کی نہاں خانے میں ایمان و ایقان اور علم و معارف کی روشنی بکھیرتی
ہے اور آپ کے ملفوظات ا گر طاق حیات پر سجا لیے جائیں تو من کی دنیا روشن
روشن ہو جائے گی۔“ |