جیل حکام نے کشمیر سنگھ کو نگران وفاقی
وزیر انسانی حقوق انصار برنی کی تحویل میں دے دیا۔
کشمیر سنگھ کو پینتیس برس قبل جاسوسی کے الزام میں گرفتار
کیا گیا تھا اور موت کی سزا سنائی گئی تھی۔امرتسر پولیس کے سپاہی کشمیر سنگھ
کو ان کے ایک ساتھی سمیت انیس سو تہتّر میں راولپنڈی کے علاقے بائیس نمبر
چونگی سےگرفتار کیا گیا تھا اور کشمیر سنگھ کو جاسوسی کے الزام میں فوجی
عدالت نے سزائے موت دی تھی جبکہ اس کے ساتھی کو دس سال قید کی سزا سنائی گئی
تھی جو اپنی سزا پوری کرنے کے بعد بھارت چلے گئے تھے۔
کشمیر سنگھ گزشتہ پینتیس سال سے قید میں
تھے اور نگران وفاقی وزیر انصار برنی کی مداخلت پر پاکستانی صدر جنرل ریٹائرڈ
پرویز مشرف نے ان کی رحم کی اپیل منظور کرتے ہوئے موت کی سزا ختم کر دی تھی۔
کشمیر سنگھ نےعدالت کی طرف سے دی جانے
والی موت کی سزا کے خلاف انیس سو اٹھہتر میں اس وقت کے صدر چوہدری فضل الٰہی
کے سامنے رحم کی اپیل کی گئی تھی جو مسترد کر دی گئی۔
انصار برنی کے مطابق کشمیر سنگھ کی رہائی
پیر کی شام چار بجے کے قریب عمل میں آنی تھی۔ان کے بقول صوبائی محکمہ داخلہ
کی ایڈیشنل سیکرٹری کی وجہ سے کشمیر سنگھ کی رہائی چار گھنٹے تاخیر سے ہوئی
جس کا ان کو دکھ ہے۔
کشمیر سنگھ نے پیر کی رات انصار برنی کے
ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ان پر جاسوس ہونے کا الزام غلط ہے بلکہ وہ
محکمہ پولیس میں اپنی معطلی کے بعد کاروبار کے لیے پاکستان آئےتھے۔
ان کا کہنا ہے کہ جیل میں ان کو بچوں کی
بڑی یاد آئی تاہم وہ اپنی بیوی کے سواء کسی بچوں کو نہیں پہچان سکتے کیونکہ
جس وقت وہ پاکستان میں گرفتار ہوئے تھے ان کی بچے بہت چھوٹے تھے۔
جب کشمیر سنگھ سے پوچھا گیا کہ ان کو یہ
امید تھی کہ ان کی اپنے وطن واپس ہوگی تو ان کا کہنا تھا کہ انسان آس کے
سہارے زندہ رہتا ہے اور اگر زندگی میں آس نہ ہو تو زندگی ختم جاتی ہے۔
کشمیر سنگھ نے بتایا ان کی پسند کی شادی
ہوئی تھی اور جب وہ پاکستان آئے تو اس کے وقت کی بڑے بیٹے کی عمر چھ برس،
چھوٹے بیٹے کی عمر تین سال اور بیٹی کی عمر سوا سال تھی۔ |