(اسلام کی صداقت و آفاقیت پر ایک
مدلل و علمی تحریر)
عالَم کائنات اور انسان
آسمان و زمین کا خوب صورت منظر جسے ہم ارد گرد دیکھتے ہیں، خود ایک عظیم فن
کار کی تخلیق ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ کائنات میں نظم و ترتیب کا یہ وجود جس
کا موجودہ سائنس سے پتا چلتا ہے ایک اعلیٰ و اولیٰ قوت اور ذہن پر یقین
کرنے کی طرف رہ نمائی کرتا ہے، جو اس پے چیدہ اور منظم نظام کا ضامن ہے،
گویا اس سے ایک مافوق الفطرت ہستی کا ثبوت ملتا ہے، جس نے کائنات کو وجود
اور حیات و نشو و نما کے لوازمات سے نوازا۔ قرآن پاک کے الفاظ میں اسی کا
نام ’’رب العالمین‘‘ ہے۔
سائنس کے مطابق کائنات مختلف اجزا کا ایسا مرکب ہے جس کے تمام حصے خوب
صورتی اور توازن کے ساتھ باہم متعلق ہیں، علاوہ ازیں یہ (کائنات) قانون کی
ایک مملکت (یا ریاست) ہے، جس میں ہر ذرہ قانون کے مطابق طے شدہ اور مستقل
راستے پر چلتا ہے، فضائی سیاروں سے لے کر ساحلِ سمندر کے ذراتِ ریگ تک کوئی
بھی اس راستے سے انحراف نہیں کر سکتا ۔ ان کی زندگی سائنس کے مطابق قوانین
فطرت اور مذہب کی زبان میں قوانین خدا کی پوری طرح تابع ہے، گویا ان کی
زندگی اسلام کی زندگی ہے، جس کے معنٰی ہیں ’’قوانین خدا کی متابعت‘‘ (اور
پابندی) دوسرے الفاظ میں وہ ’’مسلم‘‘ ہیں۔ قرآن حکیم نے اس حقیقت کے متعلق
یوں اشارہ کیا ہے:
وَلَہ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْھًا
وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ(سورۃ آل عمران:۸۳)
’’اور اسی کے حضور گردن رکھے ہیں جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی سے
اور مجبوری سے اور اسی کی طرف پھریں گے‘‘ (کنزالایمان)
اس عام اصول سے مستثنیٰ ہے تو صرف انسان۔ وہ عالَم تخلیق میں اس حد تک
واقعی بے مثل ہے کہ اسے عقل اور قوتِ ارادی بھی دی گئی ہے نتیجتاً اس کے
کردار و عمل کی راہیں غیر متعین ہیں۔ آپ سورج کے کام کی تو پیش گوئی کر
سکتے ہیں، کیوں کہ وہ اٹل قانون کے ما تحت کام کرتا ہے اور اس سے ہٹ نہیں
سکتا، مگر انسان کی بابت کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتے۔ اس کے سوا کائنات کی
ہر چیز مشینی انداز سے چلتی ہے مگر یہ (انسان) اپنے مقاصد کا انتخاب اور
انھیں حاصل کرنے کے ذرائع (اپنی مرضی کے مطابق) اختیار کر سکتا ہے لہٰذا وہ
عقل پر بھروسا کرتا ہے، لیکن اس سلسلے میں بڑی بڑی چیزیں حاصل کرنے کے ساتھ
ساتھ غلطیاں بھی کرتا ہے اور بالآخر اضطراب (یعنی پریشانی) میں گھر جاتا ہے۔
وہی قوت یا حس جو فیصلہ کرنے میں اس کی مدد گار تھی غلط استعمال کی بنا پر
آلۂ تخریب بن جاتی ہے، انسانی ذہن صرف مخصوص حدود تک اس کی رہ نمائی کر
سکتا ہے کیوں کہ (انسان) حقائق معلومہ کی بنا پر نامعلوم چیزوں کو دریافت
کرنا چاہتا ہے۔ یہ (ذہن) کسی حد تک طبعی (اور ظاہری) حقائق کے میدان میں
کام یابی سے کام کر سکتا ہے مگر جب صداقتوں کی تحقیق کرنے لگتا ہے جہاں
ماضی، حال اور مستقبل کے علم کی شدید ضرورت ہے تو یہ (ذہن) سواے اندازا
کرنے اور نتیجہ نکالنے کے کچھ نہیں کر سکتا، گویا فطرتاً ہی یہ نہائی حقائق
کو دریافت کرنے سے عاجز ہے۔
بہر حال روحِ انسانی ان انتہائی حقیقتوں کو جاننے کی زبردست خواہش مند ہے
کیوں کہ ان کے بغیر زندگی کا اصل مقام غیر واضح اور انسانی کوششوں کا صحیح
ضابطہ غیر متعین رہتا ہے۔ سائنس یہ چیز مہیا نہیں کر سکتی، کیوں کہ اس کا
تعلق تو قریب ترین (اور بالکل ظاہری) طبعی حقیقت سے ہے۔ اسی طرح فلسفہ بھی
اسے بہم پہنچانے سے عاجز ہے۔ کیوں کہ اس کی بنیاد صرف مقولوں اور نتیجوں پر
ہے۔
انبیا علیہم السلام کی بعثت کا مقصد
یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کی روح اس غیبی بلند و بالا ہستی سے رہ نمائی کی
درخواست کرتی ہے، اور اس کو روشنی کے لیے مشعل راہ کی اور یقینی (علم پر
مبنی) رہ نمائی کے لیے کسی رہ نما کی ضرورت ہے۔
انسانیت کو یقینی، مثبت اور جامع رہ نمائی کی ضرورت ہے تو اسی خلاقِ کریم
نے جو ہماری اور کائنات کی طبعی ضرورتیں پوری کرتا ہے، اس شدید ضرورت کا
پورا کرنا اپنے ذمۂ کرم پر لے لیا ہے۔ انسانی تاریخ اس حقیقت پر شاہد ہے کہ
مذہب حیاتِ انسانی کے آغاز ہی سے دنیا میں چلا آیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے
کہ رب کریم نے بنی آدم کو ہدایت و تخلیق سے بہ یک وقت مشرف فرمایا تا کہ
اسے ٹھوکریں نہ کھانا پڑے (آسانی سے) قوانین فطرت کے مطابق چل سکے۔
ایسے (عظیم الشان) افراد جنھیں رب تعالیٰ نے خلقت کی ہدایت کے لیے مقرر
فرمایا مذہب کی اصطلاح میں رسول یا پیغمبر کہلاتے ہیں۔ انھوں نے خود تو وحی
الٰہی کی شکل میں وہ رہ نمائی حاصل کی اور انھوں نے اسے تحریری صورت میں
عوام پر پیش کیا ، الہامی کتاب میں وہ قوانین بیان کیے گئے ہیں جنھیں
کائنات کے خالق و قیوم نے صحیح زندگی کے لیے بنایا ہے۔ اس ہدایت کا مقصدِ
واحد قوانین الٰہی کی اطاعت سکھانا ہے اور اسی کو عربی زبان میں ’’اسلام‘‘
کہتے ہیں۔ اس رہ نمائی کا مطلب یہ ہے کہ انسان آزاد ہو کر بھی ویسے ہی اپنی
اصلی فطرت کے مطابق عمل و رویہ اختیار کرے جیسے باقی مخلوق قوانین فطرت کے
مطابق مشینی انداز میں کام کرتی ہے، یہی لفظ مسلم کا مفہوم ہے۔ قرآن پاک کے
ارشاد کا مفہوم ہے: فطرت جس میں خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے اس کی خلقت
میں کوئی تبدیلی نہیں لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے۔
خدا نے اس ہدایت کو کسی خاص گروہ یا قوم تک محدود نہیں رکھا بلکہ سب قوموں
اور نسلوں پر (ہدایت) پیش کی گئی۔ خدا کی نعمت سب کو عطا کی گئی جیسے کہ
ارشاد ہوتاہے:
وَ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ (سورۃ فاطر:۲۴)
’’اور جو کوئی گروہ تھا سب میں ایک ڈر سنانے والا گزر چکا‘‘ (کنزالایمان)
تاریخ نے ان سب ہادیوں میں چند ہی کے اسماے گرامی محفوظ رکھے ہیں جب کہ کئی
دوسروں کے کاموں اورناموں کو بالکل فراموش کر دیا ہے۔ جن انبیا علیٰ نبینا
و علیہم السلام کے نام ہاے نامی ابھی تک یاد ہیں ان میں سے حضرت آدم، حضرت
نوح، حضرت ابراہیم، حضرت اسمٰعیل، حضرت اسحٰق، حضرت یعقوب، حضرت موسیٰ و
حضرت عیسیٰ علیہم السلام پہلے گروہ میں سے ہیں۔ آخری رسول ۱ (یعنی خاتم
النبیین) حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں۔حضور پر نور علیہ
الصلاۃ والسلام نے ساتویں صدی عیسوی میں مبعوث ہو کر انبیاے سابقین علیہم
السلام کے بتائے ہوئے راستہ کی طرف بلایا اور دنیا کو قرآن کریم دیا، جس
میں انبیاے سابقین علیہم السلام کی تعلیمات کامل اور جامع ترین شکل میں پیش
کی گئی ہیں، لوگوں نے ان (تعلیمات) کو کبھی یہودیت اور کبھی عیسائیت وغیرہ
کا نام دیا، حضور خاتم النبیین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انھیں ’’اسلام‘‘
جیسا ابتدائی اور با معنٰی نام یاد دلایا۔
(۱) اِنَّ الدِّ یْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامُ (سورۃ آل عمران:۱۹)
’’بے شک اﷲ کے یہاں اسلام ہی دین ہے‘‘ (کنزالایمان)
(۲) مِلَّۃَ اَبِیْکُم اِبْرٰہِیْمَ ط ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ
(سورۃ الحج:۷۸)
’’تمہارے باپ ابراہیم کا دین اﷲ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے‘‘
(کنزالایمان)
(۳) مَا کَانَ اِبْرٰھِیْمُ یَھُوْدِیًّاوَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰکِنْ
کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا (سورۃ آل عمران:۶۷)
’’ابراہیم نہ یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ ہر باطل سے جدا مسلمان تھے‘‘
(کنزالایمان)
حضور ختم المرسلین علیہ الصلاۃ والسلام نے مذہب کو فرقہ پرستی کی سطح سے
اُٹھایا اور بتایا کہ الہامی دین جہاں کہیں پہنچا اور جس نے بھی اس کی
تبلیغ کی اسلام ہی کے نام سے موسوم ہوا، جس کا مطلب جیسا کہ پہلے بھی دو
دفعہ کہا ہے ’’خدا کے مقرر کردہ قوانین کی اطاعت اور پابندی‘‘ ہے۔
تعلیماتِ اسلامی کے دو حصے
(پھر یہ سمجھ لیجیے کہ) تعلیماتِ اسلامی کے دو حصے ہیں: (۱) ایمان (۲) عمل
(الف) توحید پر ایمان:
ایمان کے سلسلے میں (یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ) بنیادی عقیدے کا تعلق
خدا سے ہے۔ یہی یقین مختلف شکلوں میں انسانی اعمال پر اثر انداز ہے۔نبی
اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت مختلف مذہبی گروہوں کے مختلف نظریات
تھے، لوگوں نے خدائی کے (متعلق انوکھے) تصورات ایجاد کر رکھے تھے، اور
انھوں نے انسانوں کو ہی نہیں بلکہ بے عضو چیزوں کو بھی خدا سمجھ رکھا تھا۔
سرور دو عالَم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سب باطل خیالات کی اصلاح فرماتے ہوئے
اسلام کا اولین سبق ان الفاظ میں دیا:
لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ ’’اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں‘‘
اس انقلابی اعلان کا مطلب یہ ہے کہ خدا ایک اور صرف ایک ہے، اس کا کوئی
شریک نہیں، خدا ہی خالق ہے اور اس کے سوا باقی سب مخلوق ہے۔ اس کا مقصود یہ
تھا کہ کسی مخلوق کو خالق کا درجہ نہیں دیا جا سکتا خواہ اس کے کمالات اور
اوصاف کتنے ہی بلند کیوں نہ ہوں۔ خط امتیاز واضح اور نا قابلِ عبور ہے۔
تاریخ نے انبیاے کرام علیہم السلام کی معجز نمائی کو بھی محفوظ رکھا ہے،
لیکن اس صورت میں (یاد رکھیے کہ) یہ پاک بزرگ صرف وسیلہ و ذریعہ تھے، وہ
طاقت جو پس پردہ کام کرتی تھی رب کریم کا دست قدرت تھا۔ انبیا و رُسل علیہم
السلام کا اولین مقصد انسانیت کو خدا کی طرف بلانا اور اس کے دل و ذہن کو
اس کی طرف پھیرنا تھا۔ ان کی پاکیزہ زندگی کی بڑی بڑی نشانیوں میں سب سے
بڑی یہ نشانی تھی کہ وہ لوگوں کو سنانے کے لیے خدا کے پیغامات وصول کرتے
تھے، اسی لیے انھیں ’’رسول‘‘ (یا پیغمبر) کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اُمّی ۱
ہونے اور کسی اسکول میں بالکل نہ پڑھنے کے باوجود اعلیٰ ترین حقیقتیں
بتائیں۔
(ب) انبیا علیہم السلام پر ایمان:
رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسلام کے بنیادی عقیدے کا دوسرا حصہ ان تمام
نبیوں اور رسولوں کے مقصد و پیغام پر ایمان لانے کو ٹھہرایا اور توحید کے
ساتھ ساتھ سرور عالَم صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت جمع کی گئی، کیوں کہ خاتم
الانبیا ہونے کی حیثیت سے آپ پہلے تمام انبیا علیٰ نبینا علیہم السلام کی
نمائندگی کرتے ہیں، گویا پورا اسلامی عقیدہ ہے۔
لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ’’اﷲ کے سوا کوئی
عبادت کے لائق نہیں محمد مصطفی (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اﷲ کے رسول
ہیں۔‘‘
اب جس طرح بہت سے خدا کو ماننے (جیسے باطل عقیدے) سے انسانیت ختم نہ ہونے
والی تقسیم کا شکار ہو جاتی ہے اسی طرح خدا کے نبیوں اور رسولوں میں تفریق
کرنے (یا فرق ڈالنے ) سے وہ مختلف گروہوں میں بٹ جاتی ہے۔ ہدایت ربانی اس
کی اجازت نہیں دیتی (یعنی خدائی دین تو انسانیت کو متحد کرنا چاہتا ہے پھر
کیسے ہو سکتا ہے وہ انبیا علیہم السلام میں تفریق کرنا سکھائے جس کا نتیجہ
افتراق اور انتشار ہے۔) یہاں قرآن کریم بنیادی عقیدے کی تفصیل یوں بیان
فرماتا ہے:
قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَمَآ اُنْزِلَ عَلٰٓی
اِبْرٰھِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ
اُوْتِیَ مُوْسٰی وَعِیْسٰی وَالنَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ لَا
نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ (سورۃ آل
عمران:۸۴)
’’یوں کہو کہ ہم ایمان لائے اﷲ پر اور اس پر جو ہماری طرف اترا اور جو اترا
ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحٰق اور یعقوب اور ان کے بیٹوں پر اور جو کچھ
ملا موسیٰ اور عیسیٰ اور انبیا کو ان کے رب سے ہم ان میں کسی پر ایمان میں
فرق نہیں کرتے اور ہم اسی کے حضور گردن جھکائے ہیں‘‘ (کنزالایمان)
(ج) فرشتوں پر ایمان:
ایک اور نکتہ جس میں انسانیت نے شدید غلطیاں کی ہیں مخلوقِ خدا کی اس قسم
سے متعلق ہے جسے ’’ملائکہ‘‘ (یا فرشتے) کہا جاتا ہے، بعض نے ان کو خدا کی
بیٹیاں خیال کیا جب کہ بعض دوسروں نے انھیں الوہیت میں شریک سمجھا۔ اسلام
صاف صاف بتاتا ہے کہ وہ روحانی مخلوق ہے جو خداے تعالیٰ کے حکم کے مطابق
عاجز غلام کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ وہ خدائی انعامات کے عطا کرنے والے
نہیں بلکہ خدائی پروگرام کو عمل میں لانے کا ذریعہ ہیں۔ حقیقی منعم صرف رب
قدیر ہے اور فرشتے صرف غلام ہیں، قرآن فرماتا ہے:
لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ
(سورۃ التحریم:۶)
’’جو اﷲ کا حکم نہیں ٹالتے اور جو انھیں حکم ہو وہی کرتے ہیں‘‘
(کنزالایمان)
(د) یوم آخر یا روزِ جزا پر ایمان:
اب میں یوم آخر اور روزِ جزا کے متعلق اسلامی عقیدہ بتاتا ہوں۔ ہم سب جانتے
ہیں کہ جسمانی صحت کے کسی قانون کی خلاف ورزی سے جسمانی نقصان ہوتا ہے۔ نا
مناسب خوراک کا استعمال، غیر موزوں آب و ہوا کے اثرات اور صحت کے اصولوں کی
مخالفت سے جسم پر بہت برا اثر پڑتا ہے، اس کے بر عکس صحت کے اصولوں پر چلنا
ہماری قدرتی نشو و نما کا ضامن ہے۔ در اصل ہمارا ہر کام ہی نتیجہ خیز ہوتا
ہے، یہ بات ہے کہ نتیجہ جلدی ظاہر ہو یا دیر سے لیکن کبھی نہ کبھی ظاہر
ضرور ہو گا۔ چناں چہ اسلام ہمارے اعمال کے آخری جائزے (یا محاسبے) پر بھی
یقین رکھتا ہے اور یوم الدین (روزِ جزا) کو ان کے آخری نتائج کے اعلان پر
بھی۔
جہاں تک کائنات کی بقا کا تعلق ہے موجودہ سائنس کا اندازا ہے کہ یہ ایک نہ
ایک دن ختم ہو جائے گی۔ یہ بتاتی ہے کہ متعدد اجرام فلکی اور ستارے جو
کائنات کا حصہ ہیں مقناطیسی قوتوں کے ایسے جال میں باہم بندھے ہوئے ہیں جن
کو ان ہی اجسام سے نکلنے والی قوت کے اخراج (یا پھیلاؤ) سے سہارا ملتا ہے۔
پھر سائنس یہ بھی کہتی ہے کہ یہ قوت روز بہ روز کم ہوتی جاتی ہے اور اس سے
یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ ایک ایسا وقت ضرور آئے گا جب قوتوں کا توازن درہم
برہم ہو جائے گا۔ اور اس طرح تمام کائنات تباہ ہو جائے گی۔ اسلام دنیا کے
ختم ہونے پر یقین رکھنا سکھاتا ہے اور اس واقعہ کا نام ’’قیامِ قیامت‘‘
(قیامت کا آنا) رکھتا ہے۔ اسلام میں ایمان کے یہ سادا سادا اصول ہیں، یہاں
مجھے ایک نکتے پر زور دینا ہے، حقیقت یہ ہے کہ انسان کی صحت مند زندگی اور
نشو و نما کے لیے دو بنیادی یقین انتہائی ضروری ہیں:
(۱) ہر چیز کو جاننے اور دیکھنے والے خدا پر یقین، جو مثبت اعمال کو ہی
نہیں بلکہ دل کے مخفی کانوں پر پوشیدہ خیالات اور جذبات کو بھی دیکھتا سنتا
ہے۔
(۲) یہ ایمان کہ انسان اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے اور آخر کار اس کو انعام
ملے گا یا سزا لینی پڑے گی۔
ظاہر ہے کہ بہت سے لوگوں کو جرم سے بچانے والے قانون کے وہ عملی ذرائع ہیں
جن کے ما تحت وہ زندگی بسر کرتے ہیں یا سزا کا وہ خوف (جرم سے روکتا ہے) جو
قانون کی خلاف ورزی کرنے سے ہوتا ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ قانون کے محافظوں
کی موجودگی میں کوئی شخص مشکل ہی سے جرم کے ارتکاب کی جرأت کرتا ہے۔
قرآن حکیم نے کھلے الفاظ میں اعلان فرمایا ہے کہ کوئی کسی دوسرے کے گناہ کا
بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور کسی کو بھی دوسرے کے جرموں پر نہیں پکڑا جائے گا۔
ارشاد ہوتا ہے:
وَلَا تَزِرُوَازِرَۃٌ وِّ زْرَاُخْرٰی (سورۃ بنی اسرائیل:۱۵)
’’اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی‘‘
(کنزالایمان)
نتیجتاً اگر کسی پر خداے سمیع و بصیر کے وجود اور اپنے آخری محاسبے پر یقین
کرنے (اور ایمان لانے) کا صحیح معنوں میں اثر ہو چکا ہے تو اس کے لیے گناہ
کرنا مشکل ہوگا۔
گویا جملہ انبیا علیہم السلام کی تعلیمات جن کا نام ’’اسلام‘‘ ہے کے مطابق
ایمان کے بنیادی اصول یہ ہیں:
٭ ایک سچے خدا پر ایمان
٭ خدا کے تمام انبیا علیہم السلام پر ایمان
٭ تمام الہامی کتابوں پر ایمان
٭ فرشتوں پر ایمان
٭ یوم آخر اور یوم جزا پر ایمان
٭ مختار فعل ہونے کی حیثیت سے انسانی اعمال کے حساب و کتاب اور آخری انعام
یا سزا پانے پر ایمان۔
ارکانِ ایمان کے ساتھ ساتھ یہ مجموعۂ قوانین جسے انسانیت نے وحی الٰہی کی
شکل میں حاصل کیا، زندگی کے عملی شعبوں کے لیے بھی ہدایت کا مکمل نظام مہیا
کرتا ہے (اس مختصر سے رسالہ میں) تفصیل کی گنجایش نہیں۔ یہاں (افادۂ عام کے
لیے صرف) حقوق اﷲ، حقوق النفس اور حقوق العباد جیسے تین بنیادی عنوانات پر
کچھ روشنی ڈال دی جاتی ہے۔
حقوق اﷲ
حقوق اﷲ کا انحصار انسان کے خدا کے ساتھ صحیح اور شعوری تعلق پر ہے (رہا یہ
کہ)یہ تعلق کس صورت میں ظاہر ہو؟ (تو یاد رکھیے کہ) اس سلسلے میں بنیادی
حقیقت محبت اور شکرانے کا رویہ ہے (جب) انسان کا فطری خاصّہ (یہ) ہے کہ وہ
معمولی سی نیکی کرنے والے کا بھی شکریہ ادا کرتا ہے، اور محبت کا جواب محبت
سے دیتا ہے تو (غور کیجیے کہ) خدا کے بارے میں کیا رویہ ہونا چاہیے جو ہمیں
عدم سے وجود میں لایا اور جس نے نکتۂ کمال تک رہ نمائی کرنے کو اپنے ذمۂ
رحمت پر لیا، اس لیے اسلام اسی منعم حقیقی کو مرکز محبت بنانے، اسی کے حضور
فکر و عمل کی قوتوں کو سرنگوں کرنے اور دل و زبان سے اسی کا شکریہ ادا کرنے
کی تعلیم دیتا ہے۔
نماز:
اس مقصد کے حصول کی خاطر رب تبارک و تعالیٰ کو ہر وقت یاد رکھنے اور ایک
قسم کی عبادت کو جسے صلوٰۃ (نماز) کہتے ہیں قائم رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ اس
عبادت اور ذکر کی اہمیت انسان کی روحانی زندگی کے لیے وہی ہے جو اس کی
جسمانی زندگی میں صحت بخش خوراک ہے۔ چناں چہ جتنی توجہ ادھر دے گا اتنی ہی
اخلاق اور روحانیت میں ترقی ہو گی۔ اسلام اس (نماز) کو فرض قرار دے کر
مقررہ طریق سے اور مقررہ اوقات پر ویسے ہی ادا کرنے کا حکم دیتا ہے جیسے
طبیب لوگ جسم کی توانائی کے لیے کھانے کی مخصوص صورتیں اور وقت بتاتے ہیں۔
قرآن کریم میں ہے:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْ مِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا
(سورۃ النسآء:۱۰۳)
’’بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے‘‘ (کنزالایمان)
اور خاتم الانبیا صلی اﷲ علیہ وسلم نے نماز پر یوں زور دیا کہ فرمایا:
اَلصَّلٰوۃُ بَیْنَ الْعَبْدِ وَالْکُفْرِ ’’مومن اور کافر میں نماز ہی کا
فرق ہے‘‘
روحانی تربیت کے سلسلے میں عبادت کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن پاک
نے فرمایا:
اَلَا بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ(سورۃ الرعد:۲۸)’’سن لو اﷲ
کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے‘‘ (کنزالایمان)
نمازوں کی ادائیگی کے نتائج ان الفاظ میں بیان کیے:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ (سورۃ
العنکبوت:۴۵)
’’بے شک نماز منع کرتی ہے بے حیائی اور بُری بات سے‘‘ (کنزالایمان)
گویا نماز اخلاقی اور روحانی امراض سے محفوظ رکھتی ہے۔ اس سے روحانی ترقی
ملتی ہے اور خدا کا قُرب حاصل ہوتا ہے۔
زکوٰۃ اور حج:
خالق کے ساتھ صحیح تعلق اور محبت کا تقاضا صرف توجہ ہی نہیں بلکہ اس کے لیے
اپنی زندگی اور دولت کو سرگرمی کے ساتھ عملی طور پر وقف کرنا بھی ہے۔ اس کے
عملاً اظہار کے لیے اسلام غریب ٹیکس یا زکوٰۃ فرض کرتا ہے۔
اسی مقصد کے تحت اسلام ہر صاحب استطاعت (یعنی مقدور و طاقت والے) شخص کو
مکۂ معظمہ کا حج بھی ضروری ٹھہراتا ہے، اس میں مسلمان اپنی عیش و عشرت اور
مال و دولت دونوں کو خدا کی محبت پر قربان کرتا ہے۔ معاشرتی لحاظ سے حج کا
فائدہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے گروہ میں برادرانہ تعلقات مضبوط ہو
جاتے ہیں اور کئی سیاسی، مالی اور بین الاقوامی مسائل حل ہو جاتے ہیں۔
صوم (روزہ):
ان کے علاوہ صوم (یعنی روزہ) بھی فرض ہے۔ انسانی شخصیت کی متوازن ترقی اس
کے ضمیر کی متوازن کار کردگی پر مبنی ہے، جسے خود غرضی کے وسیع میلان کی
بنا پر خراب یا تباہ ہونے کا خطرہ ہے، زندگی کی رغبتوں اور لغزشوں سے بچ
نکلنے کے لیے ضبطِ نفس کی اشد ضرورت ہے، اس لیے اسلام نے رمضان بھر میں
روزہ رکھنا فرض قرار دیا ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا
کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o
اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ (سورۃ البقرۃ:۱۸۳۔۱۸۴)
’’اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ
کہیں تمھیں پرہیز گاری ملے گنتی کے دن ہیں‘‘ (کنزالایمان)
یہ بات قابل ذکر ہے کہ رب تبارک و تعالیٰ نے روزے کی فرضیت کا اعلان کرتے
ہوئے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ سابقہ الہامی کتب و صحائف اور
انبیا علیہم السلام کے پیروکاروں پر بھی روزہ فرض کیا گیا تھا مگر دوسرے
مذاہب میں اس کا بھی وہی حشر ہوا جو دوسری عبادتوں کا ہوا (یعنی) غلط
توجیہات اور نئی چیزوں کے داخل کرنے سے یہ بالکل ناپید ہو گیا۔ قرآن حکیم
نے اس حقیقت سے آگاہ کیا اور اس طرح روزے کے سلسلے میں بھی انبیاے سابقین
علیٰ نبینا و علیہم الصلاۃ والسلام کی تعلیمات کو دوبارہ زندہ کیا۔ قرآن
پاک کی رو سے روزہ رمضان بھر میں دن کے وقت کھانے پینے اور شہوانی کاموں کو
مکمل طور پر ترک کرنے کا نام ہے۔ جب کوئی آدمی جائز کاموں میں بھی ضبطِ نفس
سے کام لیتا ہے تو اس میں فکر و عمل کی قابلِ پرہیز مرغوبات کو روکنے کی
قوت از خود پیدا ہو جاتی ہے۔یہ تھا اسلام کے بنیادی اصولوں کا بیان جنھیں
سرور دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جامع الفاظ میں ذکر فرمایا ہے:
بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ شَھَادَۃُ اَنْ لَّا اِلٰہَ
اِلَّااللّٰہُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ وَاِقَامُ
الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَاءُ الزَّکٰوۃِ وَالْحَجُّ وَصَوْمُ رَمْضَانَ (مشکوٰۃ
شریف)
ترجمہ: اسلام پانچ چیزوں پر قائم کیا گیا، اس کی گواہی کہ اﷲ کے سوا کوئی
معبود نہیں، محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، اور زکوٰۃ
دینا اور حج کرنا (بہ شرطیکہ طاقت ہو) اور رمضان کے روزے۔
یاد رہے کہ مذہب دنیا کے عام تصور کے مطابق چند رسومات و عبادات وغیرہ ہی
کا مجموعہ ہوتا ہے، لیکن اسلام اس تصور سے بَری ہے کیوں کہ یہ روحانی،
اخلاقی، سیاسی اور معاشی بلکہ فی الحقیقت انسانی سرگرمی کے تمام پہلوؤں پر
روشنی ڈالنے والے تمام و کمال نظام حیات (اور مجموعۂ قوانین) بہم پہنچانا
ہے، قرآن حکیم کا اعلان ہے:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ
وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِ سْلَامَ دِیْنًا
(سورۃالمائدۃ:۳)
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری
کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا‘‘ (کنزالایمان)
میں نے اب تک اسلام کے صرف ان ہی اصولوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو خالصاً
مذہبی اور عبادتی گروہ کے زیر عنوان آئے ہیں، گو مجھے زور دار الفاظ میں اس
حقیقت کو واشگاف کرنا ہے کہ ان (اصولوں) کا انسانی تہذیب پر گہرا اثر پڑتا
ہے۔
حقوق النفس اور حقوق العباد
اب جہاں تک حقوق النفس (یعنی انسان پر اس کی اپنی ذات کے حقوق) کا تعلق ہے
اسلام کے نزدیک زندگی رب تبارک و تعالیٰ کی اولین و اہم ترین نعمت ہے، اور
یہ (اسلام) اس کی حفاظت اور تعظیم پر مائل کرتا ہے۔ انسان کو تکلیف دینا
گناہ ہے جسے قرآن نے عام اصول کے طور پر یوں بیان فرمایا ہے:
وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ (سورۃ البقرۃ:۱۹۵)
’’اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو‘‘ (کنزالایمان)
اسلامی قانون کے لحاظ سے خودکشی کبیرہ (بڑا) گناہ ہے اور خدا نے اس کے لیے
سخت ترین سزا مقرر کر رکھی ہے۔ اس کے بر عکس اپنی ذات کی مناسب اور صحیح
نشو و نما بہترین نیکیوں میں سے ہے اسی لیے اسلام نے کئی ایسی کھانے پینے
کی چیزوں کا استعمال نا جائز ٹھہرایا ہے جنھیں خداے علیم انسانی جسم کے لیے
مُضر فرماتا ہے:
(۱)یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا
وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ (سورۃ البقرۃ:۱۶۸)
’’اے لوگو کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اور شیطان کے قدم پر قدم نہ
رکھو‘‘ (کنزالایمان)
(۲) اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ
الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ (سورۃ البقرۃ:۱۷۳)
’’اس نے یہی تم پر حرام کیے ہیں مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ
جانور جو غیر خدا کا نام لے کر ذبح کیا گیا‘‘ (کنزالایمان)
(۳) یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ
وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْ لَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ
فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (سورۃ المآئدۃ:۹۰)
’’اے ایمان والو شراب اور جوا اور بت اور پانسے نا پاک ہی ہیں شیطانی کام
تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ‘‘ (کنزالایمان)
اسلام نے انسانی لباس کے اخلاقی پہلو کو مدِ نظر رکھا ہے اور جسم کے ان خاص
حصوں کو ڈھانپنا فرض قرار دیا ہے جو جنسی میلان کو ابھارتے ہیں۔
اسلام دنیا داری اور کش مکشِ حیات کو بُرا نہیں کہتا بلکہ اس کے نزدیک جائز
طریقوں سے کمائی کرنا فرض اور خدا کی نعمت ہے، قرآن کریم فرماتا ہے:
وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَاسعٰی(سورۃ النجم:۳۹)
’’اور یہ کہ آدمی نہ پائے گا مگر اپنی کوشش‘‘ (کنزالایمان)
وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ (سورۃ الجمعۃ: ۱۰) ’’اور اﷲ کا فضل تلاش
کرو‘‘ (کنزالایمان)
حدیث پاک میں (مفہوم) ہے: ’’(ماتھے کے پسینے سے ) کمائی کرنے والا اﷲ کا
محبوب ہے۔‘‘
اسلام نے نا جائز طریقوں سے دولت کمانا نا جائز قرار دیا ہے، قرآن پاک میں
ہے:
لَا تَاْ کُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ (سورۃ النسآء:۲۹)
’’آپس میں ایک دوسرے کے مالِ نا حق نہ کھاؤ‘‘ (کنزالایمان)
وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا (سورۃ البقرۃ:۲۷۵)
’’اور اﷲ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سود‘‘ (کنزالایمان)
اسلام نے اپنی ہی جائے داد کو خرچ کرنے کے حق کو بھی محدود کر دیا، ارشاد
ہوتا ہے:
کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ
الْمُسْرِفِیْنَ (سورۃ الاعراف:۳۱)
’’کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں‘‘
(کنزالایمان)
وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًاo اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْآ اِخْوَانَ
الشَّیٰطِیْنِ ( سورۃبنی اسرائیل: ۲۶۔۲۷)
’’ اور فضول نہ اڑا بے شک اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ‘‘ (کنزالایمان)
وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا
وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا (سورۃ الفرقان:۶۷)
’’اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں
کے بیچ اعتدال پر رہیں‘‘ (کنزالایمان)
ایک عام خیال ہے کہ دنیا میں صرف دو ہی قسم کے نظریات ہیں اور بنی نوعِ
انسان کو ان میں سے ایک کو ضرور اختیار کرنا ہے، نظریات یہ ہیں: (۱)
اشتراکیت (۲) سرمایہ داری
لیکن دونوں مکتب نظر انتہا پسندی کا شکار ہیں اور انسانیت کی فلاح کسی
(تیسرے) متوازن نظریے کو قبول کرنے میں ہے۔ ایسا نظریہ صرف اسلام میں مل
سکتا ہے، جو ایک طرف ذاتی جائے داد کی اجازت دیتا ہے لیکن دوسری طرف آمدنی
کے ذرائع اور خرچ کرنے کے طریقوں کو محدود کر دیتا ہے۔ جو فرد اور معاشرے
کے مفادات کو آزاد اخلاقی بنیاد پر توازن دیتا ہے، اپنے منشور حکومت میں ہر
فرد کی بنیادی ضروریات کو مہیا کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔
جدید نظریات اور اسلام میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ اسلام اپنی تمام تعلیمات
کی بنیاد ’’اصلاحِ اخلاق‘‘ پر رکھتا ہے اور فرد کی اخلاقی اصلاح پر پورا
زور دیتا ہے۔ خالص اخلاقی اقدار جیسے راست بازی، انصاف اور سخاوت وغیرہ تو
اس کی روحِ رواں ہیں۔ فرد اور معاشرے کے مفادات کاوجود ہم مرکز حقائق کی
طرح ہے۔ اسلامی معاشرہ ایسے آزاد افراد کی ایک متعاون دولت مشترکہ ہے،
جنھیں توازن کا پابند کیا جائے جس طرح انسانی جسم ہے (کہ مختلف اعضا کے
توازن سے بنتا ہے۔)
بنیادی طور پر تمام انسانوں میں مساوات قائم کرنا اسلام کا بنیادی اصول ہے
اور یہ تصور صرف مَردوں کے باہمی تعلقات میں بھی کار فرما ہے۔ حقیقت میں
اسلام نے عورت کی اس وقت قدر و منزلت بڑھائی جب وہ ایک مویشی یا زیادہ سے
زیادہ ایک مَرد کا کھلونا سمجھی جاتی تھی، اور اس بات پر جھگڑا تھا کہ کیا
اس کا شمار انسانوں میں کیا جا سکتا ہے، جب وہ کسی قانونی شخصیت کی مالک
نہیں تھی، بلکہ جائے داد کی مالک بھی نہیں بن سکتی تھی۔ اسلامی نظریے کے
مطابق عورت بیٹی ہے تو بیٹے سے عزیز تر ہے، بیوی ہے تو گھر کی ملکہ، اور
ماں ہے تو باپ سے زیادہ قابلِ تعظیم و تکریم ہے۔
اسلام نے رنگ و نسل کی تمام تمیزیں اڑا دیں اور واضح ترین الفاظ میں انسانی
برادری کی زیادہ سے زیادہ عملی اور سچی صورت سمجھا دی، قرآن پاک میں ہے:
یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی
وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ
عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ o (سورۃ
الحجرات:۱۳)
’’اے لوگو ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھیں شاخیں
اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بے شک اﷲ کے یہاں تم میں زیادہ عزت
والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہے بے شک اﷲ جاننے والا خبردار ہے‘‘
(کنزالایمان)
برادری افراد سے بنتی ہے، جن کا احترام کسی قسم کے طبعی امتیاز سے بے نیاز
ہے۔ در اصل اسلام ایک فرد کو ایک جہاں خیال کرتا ہے اور اسے تمام انسانیت
کا نمایندہ ظاہر کرتا ہے، چناں چہ قرآن کریم فرماتا ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ
فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ
اَحْیَاالنَّاسَ جَمِیْعًا o (سورۃ المآئدۃ:۳۲)
’’جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کیے تو گویا اس
نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو جِلا لیا اس نے گویا سب لوگوں
کو جِلا لیا‘‘ (کنزالایمان)
انسانوں کے درمیان باہمی کش مکش کا باعث خود پسندی ہے۔ جو بڑھتے بڑھتے خود
غرضی بن جاتی ہے۔ اسلام درج ذیل الفاظ میں صحیح اسلامی زندگی کا نقشہ کھینچ
کر اس کے خلاف زبردست قدم اُٹھاتا ہے:
وَیُؤْ ثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ (سورۃ
الحشر:۹)
’’اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انھیں شدید محتاجی ہو‘‘
(کنزالایمان)
اسلامی ایثار کا تصور آپس میں بے انتہا محبت کے نظریے کا قدرتی نتیجہ صریح
ہے۔ اس کی اصل خداے تبارک و تعالیٰ کی محبت کا خیال ہے جو اسلامی تعلیمات
کا مرکزی نکتہ ہے۔ خدا کے وجود اور وحدت پر ایمان اسلام کا اولین اصول ہے۔
خدا کا قرب حاصل کرنا مسلمان کی زندگی کا منتہا (مقصد)ہے۔ مسلمان خدا کے
لیے جیتا ہے اور ضروری ہے کہ اس کی تمام کار کردگی اسی مقصود کے حصول کے
لیے ہوجیسے کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ
الْعٰلَمِیْنَ o لَاشَرِیْکَ لَہٗ
(سورۃالانعام:۱۶۲۔۱۶۳)
’’تم فرماؤ بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا
سب اﷲ کے لیے ہے جو رب سارے جہان کا اس کا کوئی شریک نہیں‘‘ (کنزالایمان)
حتیٰ کہ سائنسی دوڑ دھوپ کے میدان میں بھی مسلمان کے پیش نظر خدا اور اس کی
قدرت کی تلاش ہوتا ہے، کیوں کہ ہم قرآن مجید میں دیکھتے ہیں:
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ
النَّھَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ o الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ
اللّٰہَ قِیَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ
فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا
سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ o(سورۃ آل عمران:۱۹۰۔۱۹۱)
’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کی باہم بدلیوں میں
نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لیے جو اﷲ کی یاد کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اور
کروٹ پر لیٹے اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں اے رب ہمارے
تو نے یہ بے کار نہ بنایا پاکی ہے تجھے تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے‘‘
(کنزالایمان)
اسلامی زندگی کے اصولوں کا یہ بڑا مختصر سا خاکہ ہے، اس تعلیم میں کوئی
چوری چھپے کی بات نہیں۔ نہ ہی یہ ضد پر مبنی ہے بلکہ روز روشن کی طرح عیاں
ہے۔ اس کی بنیاد خدا کے مقرر کردہ قدرتی اصولوں پر ہے، اور نتیجتاً اس کے
ہر اصول کا عقلی و عملی ثبوت دیا جا سکتا ہے۔
اب ہر عقل مند کا فرض ہے کہ وہ اپنی عقل کو بروے کار لائے اور سوچے کہ کیا
اسے انسان کے گڑھے ہوئے نا مکمل نظریات کو اختیار کرنا ہے یا ہر چیز کے
جاننے والے خدا کی طرف سے آئی ہوئی مکمل راہِ ہدایت کو۔
(یاد رکھیے) اسلام کسی انسانی ذہن کی پیداوار نہیں یہ خدائی تعلیم ہے، اور
اس (پاک) انسان پر نازل ہوئی ہے جو (کسی دانش گاہ میں داخل ہو کر یا کسی
شخص سے سیکھ کر) لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، جس نے سائنس یا فلسفہ نہیں
پڑھا تھا۔ اور جس کاماحول اعلیٰ اوصاف کو خود بہ خود پیدا کرنے کے امکانات
کے متضاد تھا، وہ مرد خدا، حضرت آمنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا یتیم بچہ، صحرا
کا اُمی فرزند، ۱۴؍ صدی قبل دشت عرب سے اُٹھا اور اپنے متعلق ان خدائی
الفاظ کا اعلان کیا:
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی o اِنْ ھُوَاِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی o (سورۃ
النجم:۳۔۴)
’’اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر وحی جو انھیں کی
جاتی ہے‘‘ (کنزالایمان)
وہ (جان عالَم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ایک اُمی استاذ کی حیثیت سے ظاہر
ہوئے لیکن انھوں نے خدائی الہام کی بنا پر عقل و علم کے بلند ترین اصولوں
کی تشریح کر کے دنیا بھر کو حیران کر دیا۔ انھوں نے انسانیت کو وہ الہامی
اور مکمل ضابطہ حیات دیا جس سے عرب کے بدو دنیا کے پیش رو (قائد) بن گئے،
اور جس نے انسانی نظریات میں انقلاب برپا کر دیا۔ جو لوگ بربریت اور اخلاقی
پستی کا شکار تھے اخلاق کے مشعل بردار اور صلح و جنگ کے تمام فنون میں دنیا
کے استاذ بن گئے۔ انھوں نے موجودہ سائنس کی ابتدا کی اور صدیوں تک جہاں
بانی کا فریضہ انجام دیتے رہے۔
وہی روح پرور پیغام اور نظام آج بھی اپنی اصل اور معتبر شکل میں قرآن پاک
میں موجود ہے۔ قرآن کریم کی عملی صورت اور انسانی کمال کے جامع ترین نمونہ
ہونے کی حیثیت سے سرور کونین باعث تخلیق جہاں صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی
حیاتِ طیبہ آج بھی تاریخ کے قابل اعتماد و اعتبار ریکارڈ میں محفوظ ہے اور
سِرَاجًا مُّنِیْرًا (چمکا دینے والے آفتاب) کے مصداق ہر وقت روشنی دے رہی
ہے۔
جو لوگ شعور کے تقاضے کا احترام کرتے ہیں اور سچے انسانی کمال کے راستے پر
چلنا چاہتے ہیں، قرآن کریم اور خدا کے آخری رسول خاتم الانبیا سید عالم صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے حضور رجوع کریں اور زندگی کے روحانی، اخلاقی،
سیاسی، معاشی، انفرادی اور اجتماعی غرضیکہ ہر شعبے میں روشنی حاصل کریں۔
خدا کرے کہ تمام بنی نوع انسان راہِ ہدایت (اسلام) پر آجائیں۔ آمین۔ |