اشاعت دین متین میں صوفیاے کرام
و اولیاے عظام کا نمایاں کردار رہا ہے۔ اسلامی تاریخ کا جائزہ لے لیجیے۔
مسلمانوں کا اقتدار حکما و سلاطین کی بے راہ روی سے زوال پذیر بھی ہوا لیکن
اولیا و صوفیا کا مشن کام یابی کے ساتھ جاری رہا۔ غلامی کے عہد میں، جور و
ستم کے دور میں، جب کہ اربابِ حق کو ستایا گیا، دین کے معمولات پر قدغن
لگایا گیا ایسے پر آشوب دور میں اولیاے کرام کا کام جاری رہا۔ ہر مصیبت
برداشت کی لیکن دین حق کی دعوت برابر جاری رکھی۔ وہ کیا اسباب تھے جن کی
بنیاد پر اولیا ثابت قدم رہے…… استقامت اور طریقۂ نبوی علیہ الصلاۃ والسلام
پر ثابت قدمی و سنت کا پاس و لحاظ۔
اولیاے کرام کے مشن میں جو جوہر کام کرتا رہا ہے وہ کوئی ہتھیار نہیں بلکہ
گفتار و ارشاد کی قوت ہے۔ بڑی بڑی تقریروں سے وہ فائدہ نہیں ملتا جو کسی
ولی کامل کے چند ارشادات سے ملتا ہے۔ اسی ذیل میں اولیاے کرام کے ملفوظات
آتے ہیں۔ ان کی ایک تاریخ رہی ہے جو بعد کو ایک فن کی شکل اختیار کر گئی۔
ملفوظات کی اہمیت اب بھی ہے، صوفیا کا مشن کئی جہات سے جاری ہے، ایک طرف ان
کی روحانیت کام کر رہی ہے تود وسری طرف ان کے ارشادات کی معنویت ذہنوں کو
اپیل کر رہی ہے۔
ملفوظات و ارشادات کی روایت ہمارے یہاں فارسی سے آئی، مشائخ چشتیہ کے
ملفوظات اس خصوص میں پیش کیے جا سکتے ہیں، صدیوں قبل انھیں حیطۂ تحریر میں
لایا گیا۔ اردو کا آغاز ہی مشائخ و صوفیا کی تعلیمات سے ہوا۔ جنوبی
ہندوستان میں حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کا تصوف پر ایک رسالہ پیش کیا
جاتا ہے، اسی طرح حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کے ملفوظات بھی اہمیت
رکھتے ہیں، گو کہ ان کی زبان با ضابطہ اردو نہیں لیکن یہ بات تسلیم شدہ ہے
کہ اردو زبان کا آغاز صوفیا کی تعلیمات سے ہوا۔ ترجمہ کے حوالے سے بھی یہ
روایت قدیم ہے کہ ارشادات اولیا کو اردو کا جامہ پہنایا گیا۔ مختلف شکلوں
میں ملفوظ نگاری کی تاریخ ہمیں ملتی ہے اور اس سے ملفوظات کی فنی اہمیت کا
پتا چلتا ہے۔
مواعظ و ارشادات کے ذریعے مخلوق کی تربیت اولیاے کرام کی خصوصیت رہی ہے،
کبیرالاولیا حضرت سید احمد کبیر رفاعی قدس سرہٗ(۵۱۴ھ۵۷۸-ھ) کے مواعظ تو
کافی اہمیت و تاثیر رکھتے ہیں۔ اس بابت سید رضی الدین رفاعی رقم طراز ہیں:
’’آپ کی مجالس واعظ و ارشاد میں ہزارہا لوگ گناہوں سے تائب ہو کر جاتے،
نصاریٰ، یہود اور آتش پرست گروہ در گروہ آپ کی مجالس اور نصائح میں اسلام
سے مشرف ہوتے۔‘‘ (شان رفاعی، دوم،ص۴۰)
اتباع سنت آپ کا مشن تھا، بدعات کے خاتمہ کے لیے سرگرم رہے،محمد عبداﷲ
قریشی فرماتے ہیں:
اتباع سنت کے آپ خود بھی پابند تھے اور خدام کو بھی یہی تاکید فرماتے تھے،
دنیا دار صوفی مشرف لوگوں نے جو باتیں خلافِ شرع ایجاد کر رکھی تھیں آپ
ہمیشہ ان کو مٹانے کی کوشش فرماتے اور بدعتوں سے سخت نفرت کرتے تھے۔
(مقدمہ؛حکمت رفاعی،ص۱۹)
سنت و شریعت کے معاملے میں مداہنت یا سمجھوتہ کبھی نہ کیا۔ آپ کی حیات طیبہ
کا یہ گوشہ لایق توجہ بھی ہے اور مسلمانوں کے لیے نمونۂ عمل بھی۔ شاید اس
پر ہمارے مسلمان بھائی توجہ دیں اور اپنی زندگی کی تعمیر کے لیے رفاعی
تعلیمات سے استفادہ کریں، مولانا غلام علی قادری رفاعی تحریر فرماتے ہیں:
وعظ و ارشاد کا سلسلہ بھی جاری فرمایا جس میں سارا زور اس پر ہوتا کہ سنت و
شریعت پر عمل کر کے اپنی زندگی میں اجالا پیدا کرو۔ اس کے بغیر نہ ولایت
ملتی ہے نہ خدا ملتا ہے، وصول الی اﷲ کا راستہ صرف یہی ہے کہ شریعت مطہرہ
پر اپنی زندگی ڈھال لی جائے اس کے سوا جو راستہ ہے وہ محض گم راہی اور
زندقہ ہے۔ (کبیرالاولیا رفاعی،ص۳۴)
سر زمین ہندوستان میں ۲۰ویں صدی میں ایسا لگتا ہے کہ حضرت رفاعی کی تعلیمات
کا احیا امام احمد رضا قدس سرہٗ نے فرمایا، آپ نے بدعات کے خلاف جدوجہد کی
اور کام یاب کاوش کی۔ ہم تعلیمات رضا میں تعلیمات رفاعی کی کرنیں واضح طور
پر پاتے ہیں۔بالخصوص اعتقادی و اصلاحی تعلیمات میں۔
حضرت رفاعی قدس سرہٗ کے سوانح نگاروں نے اس پہلو پر وضاحت سے روشنی ڈالی ہے
کہ اکثر فیض یافتگان کے دل کی دنیا میں آپ کے ارشادات و ملفوظات سے انقلاب
برپا ہوا۔ آپ کی گفتگو موثر اور دلوں میں اترنے والی ہوتی۔آپ کے ارشادات کے
مطالعہ سے آپ کی وسعت علمی، جلالت علمی،استحضار علمی، روحانی مقام اور سنت
نبوی کی پاس داری کا اندازا بہ خوبی ہوتا ہے۔ آپ کا کردار روشن تھا، گفتار
میں بانک پن تھا، ہر ہر ادا طریقۂ مصطفوی علیہ الصلاۃ والسلام کی غماز تھی۔
کوئی کام شریعت سے باہر نہ تھا۔ خود بھی پابندی شرع کا اہتمام فرماتے اور
دوسروں کو بھی تعلیم فرماتے۔
انھوں نے اپنی کرامتوں کا اظہار راہِ استقامت کو استوار کرنے کے لیے کیا۔
عملی زندگی پیش کی۔ جس میں نجات کا پیغام تھا، حق کا جوہر تھا، فکر کی
درستی کا پیام تھا۔ کردار کی تابندگی کا نسخۂ کیمیا تھا۔ انھوں نے دنیا میں
رہ کر بے رغبتی سکھائی، طمع، حرص، لالچ، مال، دولت، مفاد، شہرت، جاہ جیسے
عوامل سے دوری کا درس دیا۔ ان کا فقر اختیاری تھا، اضطراری نہ تھا، ان کی
قناعت ان کی مرضی مولا میں رضا مندی کی نشان دہی کرتی ہے، عزیمت اختیار کی۔
اصحابِ جاہ و اربابِ ثروت قدموں میں جبیں رکھتے لیکن انھوں نے اپنی ذات کو
اپنے مولا کے سپرد کر دیا تھا، دنیا ان کے قدموں کو مضمحل نہ کر سکی۔
استقامت کا یہ عالم کہ شریعت کی راہ سے انحراف دیکھا تو برملا جو حق تھا
کہا، اس میں یہ نہ دیکھا کہ مرتکب صاحبِ ثروت ہے، صاحبِ عزوجاہ ہے۔
ویسے بھی حضرت رفاعی قدس سرہٗ کا دور بڑا لرزا خیز تھا، فلاسفہ کے فتنوں نے
الگ ہنگامہ مچا رکھا تھا، یہودیوں کی ریشہ دوانیاں عروج پر تھیں، صلیبیوں
نے اسلامی مملکت کی تاراجی کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ حکم راں اقتدار کے نشے
میں چور اپنے معبود حقیقی کے احکامات فراموش کیے بیٹھے تھے، قرامطہ کا الگ
زور تھا، عراق فتنوں کی آماج گاہ بنا ہوا تھا۔ ایسے نازک دور میں آپ نے
اسلام کی فصیل کی حفاظت اپنے کردار کی جولانی اور افکار کی تابانی سے کی۔
آپ کی روحانی بصیرت نے حوادث کی زد پر ایمان کے بجھتے چراغوں کو سہارا دیا
اور من کے اندھیروں کو دور کر کے ایمان کے اجالے پھیلائے۔
آئیے! آپ کے ارشادات کی ایک جھلک دیکھتے ہیں جن میں حیات کی درخشانی ہے،
زندگی کا فلسفہ ہے، باطن کی صفائی کا ساماں ہے، خیالات کے لیے انقلابی
لائحۂ عمل ہے۔ الغرض آپ کے ارشادات میں سنت نبوی اور طرق صالحین کا
دستورالعمل پنہاں اور ایک آفاقی فکر نہاں ہے۔
اتباع سنت:
حضرت سید احمد کبیر رفاعی قدس سرہٗ فرماتے ہیں:
حضرت پیغمبر ذی شان علیہ الصلاۃ والسلام کے دامن کو پکڑ اور شرع شریف کو
نظر کے سامنے رکھ! اجماع امت کی شاہ راہ تجھ پر آشکارا ہے اور اہل سنت کے
گروہ سے جو کہ مسلمانوں میں نجات پانے والا فرقہ (سوا د اعظم) ہے دور نہ
ہو۔ (حکمت رفاعی،ص۶)
بھائی میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ اﷲ جل شانہٗ سے ڈرتے رہو، اور سنت رسول
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیروی کرو۔ (حوالۂ سابق،ص۳۳۔۳۴)
متابعت اور پیروی:
اﷲ اﷲ! اس رسول اعظم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی جو ہمارے پاس تمام عالم کے
لیے رحمت، مخلوق پر حجت اور موحدین کے لیے نعمت بن کر تشریف لائے ہیں
متابعت اور کامل پیروی کرو، (شان رفاعی، دوم، ص۷۳)
اخلاق نبوی:
اپنے اخلاق کو پیغمبر صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مطابق کر جو حسبِ ذیل
ہیں:
عادت میں نرمی، مذاق نیک، نہایت برد بار، بڑا معاف کرنے والا، برداشت کرنے
والا، مصیبتوں پر صبر کرنے والا، اﷲ پر بھروسا رکھنے اور اس سے مدد چاہنے
والا، فقیروں اور ضعیفوں کا دوست، اور حرام باتوں پر برہم ہو جانے والا۔
(حکمت رفاعی،ص۷۔۸،ملخصاً)
تعظیم نبوی:
بزرگو! اپنے نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان کو بہت ہی بڑی شان
سمجھو۔ آپ ہی واسطہ ہیں اور وسیلہ ہیں مخلوق اور حق تعالیٰ کے درمیان آپ ہی
نے خالق و مخلوق کا فرق بتایا ہے…… (شان رفاعی،دوم،ص۵۲)
حضرت رفاعی قدس سرہٗ کے ملفوظات میں عقیدے کی پختگی کی تعلیم جا بہ جا ملتی
ہے، آپ نے صحتِ عقیدہ پر خاصا زور دیا۔ عظمت و شانِ نبوی کے سلسلے میں کسی
کی رو رعایت نہیں کی بلکہ ساری زندگی ناموس رسالت کے تحفظ کا پیغام عام
کرنے میں گزاری۔آپ کا عقیدہ وہی تھا جسے موجودہ دور میں بعض فرقے بریلی سے
منسوب کرتے ہیں جسے اہل سنت و جماعت کہا جاتا ہے، سواد اعظم کی مقدس و
پاکیزہ اور نجات یافتہ جماعت سے جانا جاتا ہے۔
شریعت پر استقامت:
جو حقیقت شریعت سے جدا ہو وہ زندیقہ ہے …… طریقت عین شریعت ہے۔ (حکمت
رفاعی،ص۳۵۔۴۰)
مخلوق سے سلوک:
جو شخص خدا کی مخلوق پر دست درازی کرتا ہے خدا کے نزدیک اس کاہاتھ چھوٹا
ہوتا ہے اور جو خدا کے بندوں کے مقابل غرور کرتا ہے، وہ اس معبود برحق کی
نظر سے گر جاتا ہے۔ (حوالۂ سابق، ص۳۷)
بدعات کی مذمت:
جھوٹا وہ ہے جس کی بنیاد بدعتوں پر ہے اور عقل مند وہ ہے جو بدعات سے پاک
ہو۔ (حوالۂ سابق،ص۳۸)
جو شخص پیغمبر اسلام صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے طریقے کے سوا کوئی اور راہ
اختیار کرتا ہے گم راہ ہوتا ہے…… پیرویِ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے
راستہ پر چلتا رہ اس لیے کہ پیرویِ رسول ہی کا راستہ بھلا ہے اور بدعت کا
راستہ بُرا ہے۔ (حوالۂ سابق،ص۵۵۔۵۸)
وہ ذلیل و خوار ہوتا ہے جو نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے
راستے کو چھوڑ کر کسی اور راستے پر چلتا ہے۔(شان رفاعی،دوم،ص۴۷)
صوفی اور عارف:
صوفی وہ ہے جس کے نفس کا آئینہ ایسا صاف ہو گیا کہ اسے دوسروں پر اپنی
فضیلت نہیں نظر آتی۔ (حکمت رفاعی،ص۳۹)
عارف کی پہچان یہ ہے کہ اپنے حال کو چھپائے اور بات سچی کہے اور امید و
آرزو کے پھندے سے چھوٹ جائے۔ (حوالۂ سابق،ص۳۹۔۴۰)
صوفی وہ ہے جو حضرت رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سوا کسی اور
طریقے پر نہ ہو، اور اس کے سوا کسی اور چیز کو اپنے حرکات و سکنات کی بنیاد
نہ قرار دے۔ (حوالۂ سابق،ص۶۵)
علم:
علم وہ ہے جو تجھے جہالت کی حالت سے نکال دے، غرور کے مقام سے دور کرے اور
اولوالعزم لوگوں کی راہ پر لگائے۔ (حوالۂ سابق،ص۴۰)
جب تم میں سے کوئی شخص نیک چیز سیکھے تو اس کو لازم ہے کہ دوسرے لوگوں کو
بھی سکھائے۔ (شان رفاعی،دوم،ص۴۲)
شیخ کون؟
شیخ وہ ہے جو اپنی نصیحت تیرے ذہن نشین کر دے…… شیخ وہ ہے جو تجھے قرآن و
حدیث کے راستے پر لگائے اور نئی باتوں اور بدعتوں سے الگ کرے…… شیخ وہ ہے
جس کا ظاہر و باطن شرع (شریعت کے مطابق) ہو۔ (حکمت رفاعی،ص۴۰)
شیخ و مرشد وہی ہے جو اپنے مرید کا نام بروں کے دفتر سے دور کر کے نیکوں کے
دفتر میں لکھ دے۔ (کبیرالاولیا رفاعی،ص۱۴۸)
ولی:
تین چیزیں یعنی غرور، بے وقوفی اور کنجوسی ایسی ہیں کہ اگر کسی میں ہوں تو
جب تک اس میں سے دور نہ ہو جائیں ولی نہیں ہو سکتا…… کسی شخص کو تو اگر ہوا
میں اڑتے دیکھے تو بھی جب تک تو اس کے اقوال و افعال کو شرع کی ترازو میں
نہ تول لے اس کا اعتبار نہ کر۔ (حکمت رفاعی،ص۴۱۔۴۵)
ولی وہ مرد ہے جو دل و جان سے نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا دامن پکڑے
اور خدا سے راضی ہو۔ (حوالۂ سابق،ص۵۵)
جب تک انسان کے دل سے تکبر و حماقت اور بخل کی صفتیں زائل نہ ہوں اس وقت تک
وہ ولی نہیں بن سکتا۔ (شان رفاعی،دوم،ص۴۶)
اولیاء اﷲ وہ ہیں جو ایمان لائے اور جنھوں نے تقویٰ اختیار کیا، ولی وہ ہے
جو اﷲ سے محبت رکھتا ہے، اس پر ایمان رکھتا ہے اور تقویٰ پر کاربند ہے پس
جس کو اﷲ سے محبت ہے اس سے دشمنی نہ کرو۔ (حوالۂ سابق،ص۵۴)
خوف واخلاص:
خدا کے ملک میں سب سے اچھا رفیق خوفِ خدا ہے، اور سب سے اچھی شوکت اخلاص
ہے۔ (حکمت رفاعی،ص۴۲)
وسیلہ اور درود:
اگر تو خداوند جل و علا کی طرف دوڑتا اور اس کی درگاہ میں التجا کرتا ہے تو
اس بارے میں حضرت حبیب خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو وسیلہ قرار دے اور
جہاں تک ممکن ہو زیادہ تر درود و سلام کو وِرد زبان کر۔ (حوالۂ
سابق،ص۹۵۔۹۶)
پیمبر صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر درود بھیجنا پُل صراط پر گزرنے کو آسان
اور دعا کو قبول کرتا ہے۔(حوالۂ سابق،ص۶۴)
آل و اصحاب کی محبت:
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اہل بیت کی تعظیم کر…… حضور اقدس صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم کے تمام اصحاب کی محبت کو دل میں محفوظ رکھ اس لیے کہ وہ
ھدایت کے چراغ اور رہ نمائی کے تارے ہیں۔(حوالۂ سابق،ص۹۹)
حضرت رفاعی قدس سرہٗ کے اس ارشاد کی ترجمانی امام احمد رضا محدث بریلوی نے
بڑے خوب صورت انداز میں اس شعر میں کی ہے:
اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحاب حضور
نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اﷲ کی
دوستو! اپنے دلوں کو حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آلِ کرام کی
محبت سے بھی روشن کرو، کیوں کہ یہ حضرات وجود کے چمکتے ہوئے انوار اور
سعادت کے روشن آفتاب ہیں۔ (شان رفاعی،دوم، ص۵۳)
صحابۂ کرام سب کے سب ھدایت پر ہیں (رضی اﷲ تعالیٰ عنھم اجمعین) حضور آقا و
مولا تاج دار انبیا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میرے
اصحاب ستاروں کی مانند ہیں تم جس کی بھی پیروی کر لو گے ھدایت پا لو گے۔
(حوالۂ سابق)
ضرورت مرشد:
جو شخص بغیر مرشد کے راستے میں چلتا ہے ، الٹے پاؤں واپس آتا ہے،(حکمت
رفاعی،ص۴۶)
دوستی:
دوست کی یہ علامت ہے کہ وہ خالص خدا کے لیے دوستی کرتا ہے، اگر ایسا کوئی
رفیق مل جائے تو اس سے رسم و راہ پیدا کراس لیے کہ سچے دوست نہیں ملتے ہیں۔
(حوالۂ سابق،ص۵۱)
دوست وہ ہے جو صرف خدا کے لیے دوست ہو۔ (شان رفاعی،دوم،ص۴۷)
قناعت:
بصیرت اور دل کی صفائی اور آنکھوں کے نور کی رسائی کم کھانے اور کم پینے سے
حاصل ہوتی ہے، اس لیے کہ بھوک خود بینی، کبر اور غرور کو مٹا تی ہے اور اس
کے ذریعے سے نفس کو یہ تکلیف دی جاتی ہے کہ حق کی طرف رجوع کرے، در اصل
بھوک سے بہتر کوئی نفس کو توڑنے والی چیز میں نے نہیں دیکھی۔ (حوالۂ
سابق،ص۶۳)
اگر تو خداے کریم کی رضا پر راضی رہے گا تو تمام مصیبتوں سے بے خوف ہو جائے
گا۔(حوالۂ سابق،ص۴۵)
فقر:
فقیر ہونے کی شرائط میں سے ہے کہ لوگوں کے عیوب پر اس کی نظر نہ ہو بلکہ ان
کے عیوب دور کرنے کی طرف۔(حوالۂ سابق،ص۴۳)
عزت:
جسے خدا عزت دے وہ ہر جگہ باعزت رہتا ہے اور جسے بندے عزت دیں ضروری نہیں
کہ وہ ہر جگہ باعزت ہو۔(حوالۂ سابق،ص۴۶)
وقت اور قلب:
اپنے قلوب اور اوقات کی نگہ داشت کرو کیوں کہ تمام چیزوں سے زیادہ قیمتی
یہی دو چیزیں ہیں: وقت اور قلب…… اگر تم نے وقت کو فضول ضایع کیا اور دل کی
جمعیت کو برباد کر دیا تو تم فوائد سے محروم رہ گئے، اور قلب کا برباد کرنا
یہ ہے کہ انسان گناہ اور غفلت میں مبتلا ہو جائے، اﷲ کی یاد اور اطاعت
وعبادت سے کسی وقت خالی ہو جائے۔ (حوالۂ سابق، ص۵۹)
ارشادات و ملفوظات رفاعی کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو ایک وسیع دستورالعمل
سامنے آئے گا جس میں حیات انسانی کا کوئی گوشہ تشنہ اور محروم نہیں، آپ کے
ملفوظات میں ایک طرف مضطرب روح کے لیے قرار ہے تو دوسری طرف اخلاق و کردار
کی تابناکی کا مکمل لائحۂ عمل بھی ہے۔ علوم و فنون کے جہات پر آپ کے مواعظ
و ارشادات کو پرکھا جائے تو علم و حکمت کے سیکڑوں آبشار پھوٹتے نظر آئیں
گے، علوم و فنون کی ایک پوری کہکشاں سجی دکھائی دے گی۔ آپ کی تعلیمات میں
سبھی کے لیے رہ نمائی ہے، خوشہ چینانِ علم کو چاہیے کہ ارشادات رفاعی قدس
سرہٗ سے استفادہ کر کے قوم کے لیے ایک اصول مرتب کریں، فکر و بصیرت کے لیے
تعمیر کا سامان فراہم کریں تا کہ دل کی دنیا روشن اور فکر کی دنیا تاباں ہو
جائے۔ آپ کے افکار میں آخرت کا پیغام اور کام یاب اسلامی زندگی کا فلسفہ
ہے، اور یہی پہلو آپ کی عظمت کی تفہیم کے لیے کافی ہے، کیوں کہ آپ نے من کی
تعمیر کی ہے، اور معبود حقیقی سے عبد کے رشتے کو استوار کرایا ہے:
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بے زار کرے |