امام جلال الدین رومی ؒ ایک
حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ یمن کے علاقے میں ایک مردِ صالح رہتا تھا۔ وہ
سخی مرد تھا اور سخاوت کی حقیقت کو سمجھتا تھا۔وہ فصل کی پیداوار کے وقت
دسواں حصہ خیرات کرتا۔ پھر گندم کی پسائی پر دسواں حصہ خیرات کرتا ، پھر
آٹا گوندھنے پر دسواں حصہ خیرات کرتا اور پھر روٹی پکنے پر دسواں حصہ خیرات
کرتا۔ یہ اُس کا طریقہ تھا۔ اور اس کی وجہ سے اُس کی گلی فقیروں کا قبلہ
وکعبہ تھی۔ اُس کے دروازے پر مساکین کا ہجوم رہتااور اُس کے اس عمل کی وجہ
سے اُس کی فصل ، پیداوار ، کھیتی اور کاروبار میں برکت تھی۔ وہ اس سخا کے
نتائج اور برکت سے واقف تھا۔ اور اِس پر یقینِ کامل رکھتا تھا۔ اُس نے مرنے
سے پہلے اپنے بیٹوں کو بھی اس روش اور طریق کو اپنانے کی نصیحت کی۔مگر
بیٹوں نے جب دیکھا کہ اس طرح زیادہ حصہ پیداوار تو فقیر وں اور مسکینوں کو
چلا جاتا ہے۔ اُنہوں نے بوجہ حسد اور بخل اس روش کو ترک کر دیااور سخا کی
برکے سے محروم ہو گئے۔ اُن کے کاروبار ، کھیتی اور پیداوار میں کمی واقع ہو
گئی۔ کیونکہ پہلے وہ کھیتی بے شمار لوگوں کی پرورش کی ضمانت تھی۔ جب اُنہوں
نے اسے روک دیا تو صرف چند لوگ اس سے استفادہ کرنے لگے اور قدرت کے فیاض
ہاتھوں نے بھی اضافی پیداوار بند کر دی۔ امام رومیؒ اس حکایت کے سبق میں
لکھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں مال و دولت خرچ کرنے میں کمی نہیں ہوتی بلکہ
اس میں برکت اور اضافہ ہوتا ہے۔
قارئین!ہم نے گزشتہ روز میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی کرپشن
کہانیوں میں سے چند چیدہ چیدہ باتیں آپ کے گوش گزار کی تھیں۔ہم نے نیک نیتی
کے جذبے کے تحت جب سے یہ یونیورسٹی بنی ہے ہمیشہ کوشش کی کہ اس کے متعلق
کلمہ خیر ہی لوگوں کے سامنے رکھا جائے اور کمیونٹی کو اس جانب مائل کیا
جائے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ اور مخیر حضرات کی سرپرستی کے ذریعے اس
ادارے کو پروموٹ کیا جائے۔یہاں ہم ایک چونکا دینے والی خبر آپ کے ساتھ شیئر
کرنے لگے ہیں۔ آگرہ گروپ آف ریسٹورنٹس برطانیہ کا ایک ایسا نام ہے جو کسی
بھی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔اس ادارے کے سربراہ حاجی محمد صابر مغل کا تعلق
میرپور کی تحصیل چکسواری کے ایک چھوٹے سے گاﺅں کے ساتھ ہے۔ حاجی محمد صابر
مغل نے ایک روپیہ دیہاڑی سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور مزدوری اور
راجگیری کا کام سیکھنے کے بعد 1960ءکی دہائی میں برطانیہ کی سرزمین پر قدم
رکھا۔ فیکٹریوں میں کام کیا۔ڈرائیونگ کی غرض دنیا کی کون سی مزدوری ہے جو
اس درویش صفت انسان نے نہیں کی۔ حاجی محمد صابر مغل نے اپنے بیٹے ساجد کی
خواہش پر ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ کھولا اور اللہ نے اس میں اتنی برکت ڈالی
کہ آج آگرہ کے نام سے ریسٹورنٹس کی ایک ایسی چین انگلینڈ میں بن چکی ہے جو
برطانیہ میں کسی بھی ایشیئن کا سب سے بڑا ریسٹورنٹ بزنس کہلاتا ہے۔ حاجی
محمد صابر مغل کا بیٹا ساجد اس جہانِ فانی سے کم عمری میں کوچ کر گیااور
اپنے اکلوتے بیٹے کی یاد میں حاجی محمد صابر مغل نے فلاحی کاموں میں حصہ
لینا شروع کر دیا۔ حاجی محمد صابر مغل پرنس چارلس کی چیئریٹی کی مدد کرتا
ہے ، حاجی محمد صابر مغل برطانیہ کے متعدد ہسپتالوں کا ڈونر ہے ، حاجی محمد
صابر مغل پاکستان میں جنرل جہانداد خان مرحوم کی ابتدائی ٹیم کا حصہ بنا
اور الشفاءآئی ٹرسٹ ہسپتال کے ابتدائی ڈائریکٹر ز میں اُن کا شمار ہوتا
ہے۔آٹھ اکتوبر 2005ءکو جب آزادکشمیر اور پاکستان میں قیامت خیز زلزلہ آیا
اور لاکھوں انسان اس تباہی کی نذر ہو گئے تو حاجی محمد صابر مغل کے
رضاکاروں کی ٹیم سب سے پہلے زلزلہ زدہ علاقوں میں پہنچی جہاں انہوں نے وفات
پا جانے والے لوگوں کی تجہیز و تدفین کے علاوہ ریلیف کا کام شروع کر دیا۔اس
ریلیف کے کام میں حاجی محمد صابر مغل نے کروڑوں روپے خرچ کر ڈالے۔ حاجی
محمد صابر مغل کی انہی عظیم خدمات کو دیکھتے ہوئے ملکہ برطانیہ الزبتھ نے
اُنہیں ممبر آف برٹش ایمپائر کے اعزاز سے نوازا۔حاجی محمد صابر مغل کے
چھوٹے بھائی محمد اسلم کو بھی دو سال قبل ممبر آف برٹش ایمپائر کا اعزاز
دیا گیا۔ یہ کسی بھی ایشیئن اور پاکستانی خاندان کے لیے ایک منفرد اعزاز ہے
کہ دوبھائی ممبر آف برٹش ایمپائر ہیں۔یہی پر کہانی ختم نہیں ہوتی۔ میٹرو
پولیٹن یونیورسٹی آف لیڈز نے حاجی محمد صابر کی کاروباری کامیابیوں سے
متاثر ہو کر اُنہیں بزنس کے شعبہ میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دے ڈالی۔ حاجی
محمد صابر مغل کے چھوٹے بھائی محمد اسلم کو لیڈز یونیورسٹی کے بورڈ آف
ڈائریکٹرز میں شامل کر لیا گیا۔ان دونوں بھائیوں کو یونیورسٹی کی انتظامیہ
نے مدعو کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ یونیورسٹی اُن کے آبائی علاقے
میرپور میں کسی یونیورسٹی کو اپ گریڈ کرنے کے لیے مدد کرنا چاہتی ہے۔ان
دونوں بھائیوں نے جب لیڈز یونیورسٹی کی ہائیر اتھارٹیز کے یہ ارادے دیکھے
تو یہ دونوں بھائی خوشی سے پھولے نہ سمائے۔اُن کے اپنے وطن میں جہاں حاجی
محمد صابر مغل کو آٹھویں جماعت میں محض اس لیے سکول چھوڑنا پڑا تھا کہ
سرکاری سکول کی فیس جمع کروانے کے لیے اُن کے پاس آٹھ روپے نہیں تھے۔ آج یہ
دن آن پہنچا تھا کہ برطانیہ کی صفِ اوّل کی جامعات میں سے ایک جامعہ کئی
ملین پاﺅنڈز اُن کی وساطت سے میرپور کی کسی یونیورسٹی کو اپ گریڈ کرنے کے
لیے خرچ کرنا چاہتی تھی۔ یہ بات بلاشبہ کسی بہت بڑے اعزاز سے کم نہ
تھی۔حاجی محمد صابر مغل نے برطانیہ سے راقم کو فون کیا۔اور خوشی کے عالم
میں بتایا کہ برطانیہ کی ایک بڑی یونیورسٹی میرپور میں اس نوعیت کا کام
کرنا چاہتی ہے اور اس حوالے سے میرپور کی کسی یونیورسٹی کے ذمہ دار فرد سے
رابطہ کریں۔ راقم نے فی الفور میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا
نام لیا اور حاجی محمد صابر مغل سے لیڈز میٹروپولیٹن یونیورسٹی کے ہائیر
آفیشلز نے جو جو معلومات پوچھیں راقم وہ معلومات اکٹھی کر کے اُن کو
پہنچاتا رہا۔ اس کے بعد رابطے میں ایک تعطل پیدا ہوا اور دوماہ کا عرصہ
گزرنے کے بعد حاجی محمد صابر مغل میرپور آئے۔ راقم کی اُن سے گہری محبت اور
دوستی ہے ۔ ہم نے گپ شپ کے دوران اُن سے دریافت کیا کہ میرپور یونیورسٹی آف
سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی فنی معاونت کے حوالے سے میٹروپولیٹن یونیورسٹی آف
لیڈز کا منصوبہ کہاں تک پہنچا۔ اس پر حاجی محمد صابر مغل دلگیر سے انداز
میں ہنسے ۔ کچھ توقف اختیار کیا اور پھر کہنے لگے کہ ہمارے ملک کا عجیب
نظام ہے۔جو بھی بڑی سیٹ پر بیٹھتا ہے وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کسی منصوبے سے
کسی ادارے کا کیا بھلا ہو گا۔وہ سب سے پہلے دیکھتا ہے کہ اُس کی اپنی جیب
میں کیا جا رہا ہے۔ہم نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی تو ان کے جوابوں سے جو
نتیجہ نکلا وہ کچھ یوں تھا کہ میٹرو پولیٹن یونیورسٹی آف لیڈز کا منصوبہ یہ
تھا کہ میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے تمام ورکنگ سسٹمز،
ریسرچ لیبز، ٹیچنگ سٹاف سے لے کر تمام ماحول کو ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ
بنانے کے لیے کئی ملین پاﺅنڈز خرچ کر کے پاکستانی پروفیسرز کو ٹریننگ مہیا
کرنے کے ساتھ ساتھ طلباءکے لیے برطانیہ سے تربیت حاصل کرنے کے مواقع پیدا
کرنا تھے۔لیکن جب ابتدائی بات چیت شروع ہوئی تو معاملہ وہیں پر کریش ڈاﺅن
ہو گیا کہ جب میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے بزرج مہروں نے
یہ عندیہ دیا کہ لیڈز یونیورسٹی مہربانی فرما کر یہ تمام خطیر رقم نقد حالت
میں مسٹ کے حوالے کر دے ۔ مسٹ والے جانیں اور یہ رقم جانے۔ اس پر برطانیہ
کے ذہین دماغوں نے اس منصوبے کو ترک کر کے معذرت کر لی۔
قارئین! درج بالا بیان کردہ تمام داستان ایک کہانی نہیں ہے بلکہ دردِ دل
اور خونِ جگر کے ساتھ تحریر کی گئی وہ سچی داستانِ رنج و الم ہے کہ جس پر
ماتم کرنے کا دل چاہتا ہے۔ہم نے چند روز قبل میرپور یونیورسٹی آف سائنس
اینڈ ٹیکنالوجی کے تمام شعبہ جات کا ایک سروے کیا۔اس سروے میں ہم نے بیچلرز
، ماسٹرز اور ایم فل پروگرام میں پڑھنے والے بچوں ، طلباءو طالبات سے کھل
کر دریافت کیاکہ اُنہیں یونیورسٹی میں کن کن چیزوں کی ضرورت ہے۔ تمام
سٹوڈنٹس نے یک زبان ہو کر بتایا کہ اُن کی لیبارٹریز اس وقت انتہائی ناگفتہ
بہ حالت میں ہیں۔ لیبارٹریز کی مشینری بوسیدہ اور پرانے وقتوں کی ہے۔تجربات
کرنے کے لیے جن کیمیکلز کی ضرورت پڑتی ہے وہ کئی کئی ماہ گزر جانے کے
باوجود اُنہیں مہیا نہیں کئے جاتے اور اس کے ساتھ ساتھ اُنہیں یوں لگتا ہے
کہ میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں پڑھانے والے اساتذہ کے
ریفریشر کورسز ہونا چاہےئں نیزنئے اساتذہ وہ بھرتی کئے جانے چاہیئں جو
phdڈگری کے ساتھ ساتھ عصرِ حاضر کی ایجادات اور تحقیق سے واقفیت رکھتے ہوں۔
میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے طلبہ و طالبات کا یہ بھی کہنا
تھا کہ یونیورسٹی میں وہی مساوات پیدا کرنا ضروری ہے جو دنیا کے تمام ترقی
یافتہ ممالک اور ہمسایہ ملک چین کے اندر دکھائی دیتی ہے۔ان طلباءو طالبات
نے یک زبان ہو کر یہ بات بھی کہی کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے لے کر
تمام پروفیسرز کی لگژری سرکاری گاڑیوںپر پابندی لگا دینی چاہےے اور یہ تمام
سرکاری قیمتی گاڑیاں نیلام کر کے تمام رقم یونیورسٹی کی لیبارٹریز کو اپ
گریڈ کرنے کے لیے خرچ کر دینی چاہےے۔ اگر کوئی استاد یا وائس چانسلر
پرائیویٹ گاڑی رکھتا ہے تو اس پر اُنہیں کوئی اعتراض نہیں لیکن جب وہ یہ
دیکھتے ہیں کہ وائس چانسلر اور مختلف افسران 1300سی سی سے لے کر 1800سی سی
کی چمچماتی گاڑیوں میں عیاشیاں کر رہے ہیں اور سرکاری کاموں کے لیے ملنے
والی ان گاڑیوں کو بیوی بچوں کی سیر و تفریح اور سکول اینڈ کالج پک اینڈ
ڈراپ کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور اُس کے برعکس اُن کی تمام لیبارٹریز
کسمپرسی کے عالم میں موجود ہیں تو اُن کا خون کھولنے لگتا ہے۔
قارئین!ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قیادت سے بہت فرق پڑتا ہے۔ ایک ضرب المثل ہے کہ
اگر سو بھیڑوں کی قیادت ایک شیر کر رہا ہو تو وہ سب کو شیر بنا دیتا ہے اور
اگر سوشیروں کی قیادت ایک بھیڑ کر رہی ہو تو وہ سب کو بکری بنا دیتی
ہے۔ہمارے ملک کی قیادت سے لے کر تمام اہم اداروں اور یونیورسٹیوں کی قیادت
پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے کہ کس کی قیادت کون کر رہا ہے۔ڈاکٹر سلیم الزمان
صدیقی جیسے عظیم انسان نے جب قیادت کی اور قیادت کا حق ادا کیا تو آج اُن
کے ادارے ابراہیم جمال یونیورسٹی آف کیمیکل سائنسز کراچی سے پورے پاکستان
کے ستر فیصد پی ایچ ڈی پیدا ہو رہے ہیں۔جبکہ میرپور یونیورسٹی آف سائنس
اینڈ ٹیکنالوجی کی قیادت ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ہم یونیورسٹی کے
چانسلر صدر آزادکشمیر سردار یعقوب خان ، آزادکشمیر میں تعلیمی انقلاب کے
بانی وزیر اعظم چوہدری عبد المجید، ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور دیگر تمام ذمہ
داران اتھارٹیز سے یہ دردمندانہ اپیل کرتے ہیں کہ راجہ ذو القرنین خان اور
ڈاکٹر عطاءالرحمن کے اس احسانِ عظیم میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ
ٹیکنالوجی کے حال پر رحم کریں اور اس کی قیادت کے لیے کسی اہل فرد کا
انتخاب عمل میں لائیں۔یہی وقت کا تقاضا ہے۔
آخر میں حسبِ روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔
”استاد نے شاگر د سے پوچھا۔ جلدی سے بتاﺅ گائے اور گوالے میں کیا فرق ہے۔“
”شاگرد نے انتہائی اعتماد سے جواب دیا۔اُستاد جی۔ گائے خالص دودھ دیتی ہے
اور گوالہ پانی ملا کر۔“
قارئین! بدقسمتی سے میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں بھی
تعلیم کے نام پر دودھ میں پانی کی ملاوٹ کی جارہی ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے
بچوں کو خالص تعلیم میسر آئے۔اگر آپ بھی یہی چاہتے ہیں تو آئیے مل کر صفائی
کرتے ہیں۔ |