امام جلال الدین رومیؒ ایک حکایت
میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت یوسف ؑ کے پاس ایک بچپن کا دوست مصر میں آگیا۔
اُس نے آپ کو تمام احوال زندانِ چاہ سے لے کر برادران کے سلوک تک یاد کرائے۔
پھر آپ نے مصر میں قید و بند اور عزیزِ مصر کے منصب تک پہنچنے کے حالات
سنائے۔ بعد ازاں آپ نے اُس سے دریافت کیا کہ ہمارے لیے کیا لائے ہو۔ کیونکہ
کسی دوست کے پاس بغیر تحفہ کے نہیں جانا چاہیے۔ خواہ تمہیں اپنے روز مرہ کے
معمولات میں کمی ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ اُس دوست نے کہا میں نے بہت سی چیزوں
کو پرکھا مگر آپ کے شایانِ شان کوئی بھی نظر نہ آئی تاہم مجھے ایک آئینہ مل
گیا اور وہ آپ کے لیے تحفتہً لایا ہوں تاکہ آپ اُس میں اپنا حسن و جمال
دیکھا کریں۔ امام رومیؒ حکایت کے سبق میں لکھتے ہیں کہ ایک حسین و جمیل کے
لیے آئینے سے بڑھ کر کوئی بھی تحفہ نہیں ہوسکتا۔
قارئین! آج کا کالم ایک قرض تھا جو ہم ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسے
قرضے کی پہلی قسط سمجھئے۔ ہم نے آزادکشمیر ریڈیوFM93میرپور کے پلیٹ فارم سے
سب سے مقبول پروگرام ”لائیو ٹاک وِد جنید انصاری“ میں گزشتہ دو سالوں کے
دوران سات سو سے زائد سیاستدانوں ، ماہرینِ تعلیم ، ماہرینِ سماجیات سے لے
کر ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے انٹرویوز کئے۔ آواز اور
تحقیق کے اس سفر میں خضرِ راہ اُستاد کا فریضہ ہمارے دوست مہربان اور
آزادکشمیر کے غیر جانبدار ترین صحافی راجہ حبیب اللہ خان نے انجام دیا۔ ہم
نے تعلیم کے حوالے سے خصوصی طور پر مایہ ناز ایٹمی سائنسدان فخرِ امتِ
مسلمہ ڈاکٹر عبد القدیر خان اور پاکستان میں تعلیمی انقلاب کے بانی ڈاکٹر
عطاءالرحمن کے خصوصی انٹرویوز کئے۔ موجودہ صدر آزادکشمیر سردار یعقوب خان
اور وزیر اعظم چوہدری عبد المجید سے لے کر وفاقی وزرائ، تحریکِ انصاف کے
سربراہ عمران خان، برطانوی ہاﺅس آف لارڈز کے پہلے تاحیات مسلمان رُکن لارڈ
نذیر احمد ، آزادکشمیر کابینہ کے بیشتر ممبران اور اپوزیشن جماعتوں سے تعلق
رکھنے والے ممبرز کی بڑی تعداد کا انٹرویو کیا۔تعلیم کے حوالے سے کئے جانے
والے انٹرویوز میں ڈاکٹر عبد القدیر خان نے جو باتیں ہم سے آن ایئر شیئر
کیں وہ سونے کے پانی سے لکھنے کے لائق ہیں۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان نے یہ
بتایا کہ پاکستان میں معیارِ تعلیم کے تیزی سے گرنے کی وجہ نقل کا رجحان،
جینوین ریسرچ سے دوری اور تعلیمی ترجیحات کا متعین نہ کرنا ہے۔ ڈاکٹر عبد
القدیر خان نے انتہائی دلگیر انداز میں بتایا کہ اس وقت کراچی سمیت ملک کے
مختلف علاقوں میں والدین اور اساتذہ مل کر امتحانی عمل کے دوران بچوں کو
نقل کرواتے ہیں۔اگر یہی صورتحال جاری رہی تو اسے تعلیمی خود کشی ہی قرار
دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ہم نے پاکستان میں تعلیمی انقلاب کی خشتِ اوّل
رکھنے والے عظیم ماہرِ تعلیم ڈاکٹر عطاءالرحمن سے جب بات چیت کی تو اُن کا
یہ کہنا تھا کہ ہمارا ملک پاکستان اس وقت تعلیم کے معاملے میں اقوامِ عالم
کی فہرست میں ایک سو اٹھائیسویں نمبر پر ہے۔ ہم اپنے GDPکا صرف 1.8% تعلیم
پر خرچ کر رہے ہیںجبکہ بھارت ، سری لنکا، نیپال، بھوٹان سمیت خطے کے مختلف
ممالک تعلیم کے شعبے میں دس فیصد کے قریب رقم مختص کیئے ہوئے ہیں۔اسلامی
ممالک میں ملائیشیا سب سے بڑی مثال ہے کہ جس نے آج سے تیس سال قبل ڈاکٹر
مہاتیر محمد کی قیادت میں تعلیمی شعبے کے لیے تیس فیصد رقم مختص کر دی
تھی۔ڈاکٹر عطاءالرحمن نے انتہائی دُکھی انداز میں یہ بات بھی شیئر کی کہ
ہمارے حکمران اور ہماری سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی منشور میں تعلیم کے متعلق
کوئی بھی ایجنڈا نہیں رکھتیں۔
قارئین! اب آتے ہیں آج کے کالم کے عنوان کی طرف جس کے لیے ہم نے پاکستان کی
دو محترم ترین ہستیوں کی باتیں کیس کو مضبوط کرنے کے لیے پیش کیں کہ کیا
ہونا چاہیے تھااور کیا ہو رہا ہے۔ یہ ڈاکٹر عطاء الرحمن ہی تھے کہ جنہوں نے
جنرل مشرف کے دور میں بطور وزیر سائنس ٹیکنالوجی اینڈ آئی ٹی ملک بھر میں
نئی یونیورسٹیوں کا ایک جال بچھا دیا تھا اور انہوں نے آزادکشمیر کے ہونہار
طلباءو طالبات کے لیے اربوں روپے کی مالیت سے”میرپور یونیورسٹی آف سائنس
اینڈ ٹیکنالوجی“ کے نام سے ایک بیش بہا گراں قدر تحفہ اہلِ کشمیر کو
دیا۔چاہےے تو یہ تھا کہ آزادکشمیر کے حکمران اس تحفے کی قدر کرتے لیکن ہوا
کچھ اور ....پہلے تو سابقہ دورِ حکومت میں اس یونیورسٹی میںجب بھرتیاں کی
گئیں تو مبینہ طور پر ایسی ایسی اقرباءپروری اور برادری ازم کے مظاہرے کئے
گئے کہ یونیورسٹی کا نام یار لوگوں نے ”مسٹ“ کی بجائے”رسٹ“ رکھ دیا۔سینہ
گزٹ سے پھیلنے والی خبروں کے مطابق اس یونیورسٹی میں چانسلر ادارہ صدر
آزادکشمیر راجہ ذو القرنین خان کی ہدایت پر یا اُن کو خوش کرنے کے لیے ایک
برادری کے لوگوںکو بڑی تعداد میں بھرتی کیا گیا اور میرٹ پر اوّل نمبر پر
آنے والے لوگ محروم رہے۔ ہم اس الزام کی تہہ تک نہیں جاتے اور نہ ہی اس پر
کوئی تبصرہ کرتے ہیں لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ وہی ادارے ترقی کرتے ہیں کہ
جن کی بنیادوں میں میرٹ کا خوشبو دار پانی چھڑکا جاتا ہے۔ اس یونیورسٹی کے
قیام میں اُس وقت کے صدر آزادکشمیر راجہ ذو القرنین خان کا کردار مثالی
نوعیت کا ہے۔کیونکہ یہ اُنہی کی کاوشیں تھیں کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور
ڈاکٹر عطاءالرحمن کی خواہش کے مطابق مسٹ کو پانچ ہزار کنال اراضی دی گئی
تاکہ یونیورسٹی کا ایک بڑا کیمپس اور دیگر عمارتیں تعمیر کی جاسکیں۔مسٹ کے
قیام کے حوالے سے راجہ ذو القرنین خان کا کردار رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے
گا اور اُن کی ناقابلِ فراموش جدوجہد تاریخ کا حصہ ہے۔
قارئین! مسٹ کے قیام کے فوراً بعد اُس وقت کے آزادکشمیر یونیورسٹی کے وائس
چانسلر ڈاکٹر حبیب الرحمن کو اضافی ذمہ داریاں سونپی گئیں کہ وہ ادارے کا
انتظام و انصرام سنبھالیںاور اُس دوران پہلے VCکی تعیناتی کے لیے سینٹ کے
اجلاس کی قرار داد کے مطابق سرچ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔یہاں پر ہم
قانون ساز اسمبلی کی طرف سے پاس کردہ یونیورسٹی ایکٹ کی اُس شق کا حوالہ
بھی دیتے جائیںکہ جس کے مطابق یہ صاف ہدایت موجود ہے کہ یونیورسٹی کا پہلا
وائس چانسلر صدر آزادکشمیر اپنے صوابدیدی اختیار کے مطابق کسی کو بھی متعین
کر سکتے ہیں۔چنانچہ صدر آزادکشمیر راجہ ذو القرنین خان نے انجینئر نائب
حسین کو پہلا وائس چانسلر مقرر کر دیا۔ یہاں پر ایک نئے باب کا آغاز ہوا جس
کا اختتام ہونا باقی ہے۔یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ڈاکٹر ریاض مغل نے عدالت
میں کیس دائر کر دیا کہ انجینئر نائب حسین وائس چانسلر بننے کے اہل نہیں
ہیں۔ کیونکہ وہ PhDڈگری ہولڈر نہیں ہیں۔یہ کیس عدالت میں سماعت کے لیے پیش
ہوتا رہا اور اُس دوران انجینئر نائب حسین وائس چانسلر کی حیثیت سے کام
کرتے رہے اور رجسٹرار کی حیثیت سے پروفیسر خضر نے کام جاری رکھا۔اُس دوران
میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں 150سے زائد ملازمین بھرتی
کئے گئے اور پورے آزادکشمیر میں ایک ہنگامہ مچ گیا۔حکومتی بینچوں اور
اپوزیشن نے قانون ساز اسمبلی میں واویلا کیا کہ مسٹ میں کرپشن کی ایسی
داستانیں رقم کی گئی ہیں کہ ماضی میں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔اس معاملے
کی تحقیقات کے لیے قانون ساز اسمبلی نے ایک کمیٹی تشکیل، دی جس کی تحقیقات
جاری تھیں کہ اُس دوران عدالت نے وائس چانسلر انجینئر نائب حسین کی تعیناتی
کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اُنہیں برطرف کر دیا اور یہاں پر عدالت کے
فیصلے میں واضح طور پر لکھا گیا کہ جلد از جلد نئے وائس چانسلر کی تعیناتی
کے لیے اشتہار دیا جائے اور سرچ کمیٹی تشکیل دی جائے۔ یہ دونوں کام نہ کئے
گئے اور راتوں رات ایک اور عظیم دماغ ڈاکٹر سرور کو وائس چانسلر تعینات کر
دیا گیا۔اُس دوران یونیورسٹی میں طلباءاور انتظامیہ کے درمیان ایک بہت بڑا
تنازعہ پیدا ہوا اور یونیورسٹی کو وائس چانسلر نے ایک ماہ کے لیے تالے لگا
دیئے۔ موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر سرور استاد کی حیثیت سے بہترین انتخاب ہیں
لیکن اُن کی انتظامی صلاحیتیں اس لحاظ سے سوالیہ نشان ہیں کہ انہوں نے بطور
وائس چانسلر اپنی تعیناتی کے اڑھائی ماہ کے دوران ایک ماہ یونیورسٹی بند
رکھی اور اب تک نہ تو نئے وائس چانسلر کی تعیناتی کے لیے نہ تو اشتہار دیا
گیا اور نہ ہی سرچ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔اس وقت یونیورسٹی کے اساتذہ اور
طلباءکے اندر شدید ترین بے چینی اور اضطراب کی کیفیت ہے۔یہاں پر صدر
آزادکشمیر سردار یعقوب خان ، وزیر اعظم چوہدری عبد المجید اور اُن کی پوری
کابینہ کی بصیرت کا امتحان ہے کہ وہ لائق اور اہل ترین شخص کو اس انقلابی
ادارے کا وائس چانسلر مقرر کرتے ہیں یا ڈنگ ٹپاﺅ پالیسی کے تحت موجودہ وائس
چانسلر کے ذریعے ہی اپنا کام چلاتے ہیں۔ یاد رکھئے وہی قومیں ترقی کرتی ہیں
کہ جہاں اداروں کی قیادت صاحبِ بصیرت لوگ کر رہے ہوتے ہیں۔اس وقت یونیورسٹی
کے متعلق مختلف کہانیاںگشت کر رہی ہیں۔ ان کرپشن کہانیوںکے مطابق سابقہ
رجسٹرار پروفیسر خضر الحق نے ”میگا پراجیکٹس“ چلانے والے کچھ لوگوں کے
ڈیمانڈ کردہ پانچ کروڑ روپے دینے سے انکار کر دیا تھا۔اور اسی جرم کی پاداش
میں دیانتداری کا انعام دیتے ہوئے اُنہیں راتوں رات برطرف کرنے کی منصوبہ
بندی بھی کی گئی اور اُن سے استعفیٰ لے لیا گیا۔
قارئین! آج کا کالم ہم پہلی قسط کے طور پر آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ہم
نے مختلف الزامات اور ڈھیروں شواہد جو ہم تک پہنچے ہیں اُن کی تحقیقات کے
لیے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر سرور سے ملنے کی کوشش کی تو حضورِ والا نے
مصروفیت کا بہانا بنا کر جان چھڑانے کی کوشش کی ۔ اس پر ہمارا ماتھا ٹھنکا
اور ہم نے دن رات تحقیقات پر صرف کر دیئے۔
قارئین میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ایک قومی اثاثہ ہے۔ ہم یہ
معصوم خواہش رکھتے ہیں کہ یہ ادارہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے۔ اس کے لیے
ہم ہر حالت میں اپنا قلمی جہاد جاری رکھیں گے۔ امید ہے کہ آپ بھی سچ کی اس
تلاش اور حق کی سربلندی میں ہماری مدد کریں گے۔ |