تذکرہِ غوثِ اعظم حضرت سید عبدالقادر جیلانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیہ(اول)۔

اللہ عزوجل کے نیک اوربرگزیدہ بندے!!
جن کا قرب ہراہل ایمان کی روح کو تازگی بخشتا ہے!!!
جن کی صحبت دنیا و آخرت میں فلاح و کامرانی کی ضامن ہے!!!
جن کی حیات تقویٰ و پرہیزگاری کی زندہ مثال ہوتی ہے!!!
جن کی زندگی جذبہ احیاء سنت اورخیرخواہی ئ مسلمین میں بسر ہوئی!!!
جن کے ملفوظات ہمارے لیے تاحیات مشعل راہ ہیں!!!
. پردہ فرمانے کے بعد بھی جن کا فیض جاری رہتا ہے !!!

محترم قارئین کرام:آج ہم اللہ کے ولی سید عبد القادر جیلانی علیہ رحمۃ کا ذکر خیر کر تے ہیں۔ولی اللہ بننے کے لئے اللہ عزوجل اور اس کے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی رضا حاصل کرنا پڑتی ہے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خالصتاً اللہ تعالیٰ اور اسکے رسولصلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا بننا پڑتا ہے۔ولی ہونا آسان نہیں۔یہ گدڑی نشین دنیا کی ہر نعمت کو ٹھکرادیتے ہیں۔یہ ایسے فقیر ہوتے ہیںجن کی خانقاہؤں میںبادشاہ وقت برہنہ پا حاضر ہوتے ہیں۔اس لئے اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں سے حاجت مندوں کی جھولیاں ،دعائیںسے مرادوں سے بھر دیتا ہے۔ان کے ہاتھ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور دوسروں کے لئے پھیلتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو شکر کی ایسی کیفیت کو جانتے ہیں۔جو نعمتوں کو دوام بخشتی ہیں۔یہ شکر اور صبر جیسی عظیم نعمتوں سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔یہ زندگی کی کسی منزل اور ماحول کی کشمکش بھی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور خوشنودی کی شاہراہ سے ڈانواں ڈول نہیں ہونے دیتے۔انہیں کوئی نعمت دی جاتی ہے تو اللہ کے اس احسان کا شکر ادا کرتے ہیں اور کوئی آزمائش آتی ہے تو صبر کرتے ہیں۔
اللہ عزوجل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولاھم یحزنون ہ (پ11، یونس: 62)
ترجمہ کنزالایمان: سن لو بے شک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم۔
(۔ ۔ ۔ ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے:
قل ان الفضل بیداللہ ج یؤتیہ من یشاء (پ3، آل عمران: 73)
ترجمہ کنزالایمان: تم فرما دو کہ فضل تو اللہ ہی کے ہاتھ ہے جسے چاہے دے۔

سرکار مدینہ، قرار قلب و سینہ، باعث نزول سکینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے،( اطلبوا الخیر والحوائج من حسان الوجوہ(عربی پڑھی نہیں جائیگی لکھی جائیگی)) ۔ یعنی بھلائی اور اپنی حاجتیں خوبصورت چہرے والوں سے طلب کرو۔ (المعجم الکبیر، رقم 11110، ج11، ص67)

اللہ عزوجل کے محبوب، دانائے غیوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے: من عادی للہ ولیا فقد بارزاللہ بالمحاربۃ (عربی پڑھی نہیں جائیگی لکھی جائیگی)۔ یعنی جو اللہ عزوجل کے کسی دوست سے دشمنی رکھے تحقیق اس نے اللہ عزوجل سے اعلان جنگ کر دیا۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب من ترجی لہ السلامۃ من الفتن، رقم 3989، ج4، ص350)

حضور اکرم، نور مجسم، سرکار دو عالم، شہنشاہ بنی آدم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: کوئی بندہ میرے فرائض کی ادائیگی سے بڑھ کر کسی اور چیز سے میرا تقرب حاصل نہیں کر سکتا (فرائض کے بعد پھر وہ) نوافل سے مزید میرا قرب حاصل کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اسے محبوب بنا لیتا ہوں، جب وہ میرے مقام محبت تک پہنچ جاتا ہے تو میں اس کے کان، آنکھ، زبان، دل، ہاتھ اور پاؤں بن جاتا ہوں، وہ میرے ذریعے سے سنتا، دیکھتا، بولتا اور چلتا ہے۔

امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ الباری اپنی معرکۃ الآرا تفسیر تفسیر کبیر میں ایک روایت نقل فرماتے ہیں: اولیاء اللہ لا یموتون ولکن ینقلون من دارالی دار یعنی بے شک اللہ عزوجل کے اولیاء مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل ہو جاتے ہیں۔ (التفسیر الکبیر، پ4، آل عمران: 169، ج3، ص427)

چوتھی پانچویں صدی ہجری کا زمانہ اسلامی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔یہ وہ زمانہ ہے ۔جسے مسلمانوں کے انتہائی عروج ،خوشحالی اور سیاسی اقتدار و غلبے کا زمانہ کہنا چاہیے۔اس وقت منفرد تہذیب وتمد ن کے اعتبار سے کرئہ ارض پر کوئی قوم مسلمانوں کی ہمسر نہ تھی ۔ عالم میں ان کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔بغداد ،عالم اسلام کا مرکزِاعصاب اور علوم فنون کے اعتبار سے دنیا کے لئے پر کشش حیثیت اختیار کر چکا تھا۔جہاں مسلمان قوم ان بلندیوں کوچھو رہی تھی وہاں بیرونی نظریات وخیالات کی یلغار اس کے یقین واعتمادکی دیواریں بھی تیزی کے ساتھ کھوکھلی کر رہی تھی ۔یونانی علوم کی بھر مارکے ذریعے پیدا کردہ شکوک وشبہات نے ا ثبات واستقلال کی دنیا میں ہلچل ڈال دی تھی ۔ضرروت تھی کہ قدرت اپنی فیاضی سے کوئی ایسی شخصیت پیدا کرے ۔جو اپنے قدو قامت میں صدیوں پر بھاری ہواور جو اپنے ایمانی جذبے اور غیر معمولی صلاحیت سے اس دھارے کا رخ بدل ڈالے۔

چنانچہ محبوبِ سبحانی ،غوثِ صمدانی،قطبِ ربانی ،محی الدین،غوثِ اعظم حضرت سیدنا ابومحمد عبدالقادر جیلانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہ کی رمضان المبارک ٤٧٠ ؁ھ میںنیف(گیلان)عراق میں پیدا ہوئے ۔ (غنیۃ الطالبین مترجم،ص٣(مقدمہ))
''غوثیت'' بزرگی کا ایک خاص درجہ ہے، لفظِ غوث کے لغوی معنیٰ ہیں'' فریادرس یعنی فریاد کو پہنچنے والا'' چونکہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ غریبوں ،بے کسوں اور حاجت مندوں کے مدد گار ہیں اسی لئے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو '' غوث اعظم'' کے خطاب سے سرفراز کیاگیا، اور بعض عقید ت
مند آپ کو ''پیر ان پیر دستگیر ''کے لقب سے بھی یاد کرتے ہیں ۔
(غوث پاک کے حالات ص15مطبوعہ مکتبۃ المد ینہ بابُ المدینہ کراچی پاکستان )

اکابرین اسلام کی عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے لئے پیشن گوئیاں!!!

شیخ عبدالقادرجیلانی کی ولادت سے چھ سال قبل حضرت شیخ ابواحمد عبداللہ بن علی بن موسیٰ نے فرمایاکہ میں گواہی دیتاہوں کہ عنقریب ایک ایسی ہستی آنے والی ہے کہ جس کا فرمان ہوگا کہ!!

کہ میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے۔

حضرت شیخ عقیل سنجی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے پوچھا گیا کہ اس زمانے کے قطب کون ہیں؟ فرمایا، اس زمانے کا قطب مدینہ منورہ میں پوشیدہ ہے۔ سوائے اولیاء اللہ کے اُسے کوئی نہیں جانتا۔ پھر عراق کی طرف اشارہ کرکے فرمایاکہ اس طرف نوجوان عجمی ظاہر ہوگا۔ وہ بغداد میں وعظ کہے گا۔ اس کی کرامتوں کو ہر خاص و عام جان لے گااور وہ فرمائیگا کہ!!

کہ میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے۔

سالک السالکین میں ہے کہ جب عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کو مرتبہء غوثیت و مقام محبوبیت سے نوازا گیا توایک دن جمعہ کی نماز میں خطبہ دیتے وقت اچانک آپ پر استغراقی کیفیت طاری ہو گئی اوراسی وقت زبانِ فیض سے یہ کلمات جاری ہوئے!!!
قدمی ھذا علی رقبۃ کل ولی اللہ!!
کہ میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے۔
معاًمنادیء غیب نے تمام عالم میں ندا کردی کہ جمیع اولیاء اللہ اطاعتِ غوثِ پاک کریں۔ یہ سنتے ہی جملہ اولیاء اللہ جو زندہ تھے یا پردہ کرچکے تھے سب نے گردنیں جھکادیں۔ (تلخیض بہجتہ الاسرار)

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا نسب شریف
آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ والد ماجد کی نسبت سے حسنی سید ہیں سلسلہء نسب یوں ہے، سید محی الدین ابو محمد عبدالقادر بن سید ابو صالح موسٰی جنگی دوست بن سید ابوعبداللہ بن سید یحیٰی بن سید محمد بن سیدداؤد بن سید موسٰی ثانی بن سید عبداللہ بن سید موسٰی جون بن سید عبداللہ محض بن سید امام حسن مثنٰی بن سید امام حسن بن سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنی والدہ ماجدہ کی نسبت سے حسینی سید ہیں۔ (بہجۃ الاسرار، معدن الانوار، ذکر نسبہ، ص171)
(غوث پاک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے آباء و اجداد)

سرکار بغداد ، حضور غوث پاک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا خاندان صالحین کا گھرانا تھا آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے نانا جان، دادا جان، والد ماجد، والدہئ محترمہ، پھوپھی جان، بھائی اور صاحبزاد گا ن سب متقی و پرہیز گارتھے،اسی وجہ سے لوگ آپ کے خاندان کو اشراف کا خاندان کہتے ہیں ۔
(غوث پاک کے حالات ص16مطبوعہ مکتبۃ المد ینہ بابُ المدینہ کراچی پاکستان )

آپ علیہ رحمہ مادر زاد ولی ہیں آئیے اسی ضمن میں چند کرامات آپ کی نظر کرتے ہیں
(بچپن کی کرامات )
(١)حضور غوث اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں تھے اور ماں کو جب چھینک آتی اور
اُس پر جب وہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہتیں تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ِپیٹ ہی میں جواباً یَرْ حَمُکِ اللّٰہ کہتے ۔
(منے کی لاش ص 03مطبوعہ مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی پاکستان ) (''اَ لْحَقَا ئِقُ فِی الْحَدَائِق''،١٣٩)
سبحان اللہ سبحان اللہ مزید سنیئے:
(٢)جس دن حضور غوث اعظم رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ولادت ہو ئی اُس دن آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے دِیارِ ولادت جیلان شریف میں گیارہ سو(1100) بچے پیدا ہوئے وہ سب کے سب لڑکے تھے اور سب وَلِیُّ اللّٰہ بنے۔
(منے کی لاش ص 03تا04مطبوعہ مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی پاکستان ) ( '' تَفْرِیْحُ الْخَاطِر''،١٥)
(٣)حضرت سیِّدُنا غوث الاعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْاَکْرَم نے پیداہوتے ہی روزہ رکھ لیا اور جب سورج غروب ہوا اُس وقت ماں کا دودھ نوش فرمایا، سارا رَمَضَانُ الْمُبَارَک آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا یہی معمول رہا ۔
(منے کی لاش ص 05مطبوعہ مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی پاکستان ) ( '' بَھْجَۃُ الْاَسْرَار ''،١٧٢)
(٤)حضرت سیِّدُنا غوث اعظم رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ پانچ برس کی عمر میں جب پہلی بار بِسْمِ اللّٰہ پڑھنے کی رسم کے لئے کسی بزرگ کے پاس بیٹھے تو اَ عُوْذُ اور بِسْمِ اللّٰہ پڑھ کر سورہئ فاتحہ اور ا لۤمۤ سے لے کر اٹھارہ پارے پڑھ کر سنادیئے ،اُن بزرگ نے کہا، بیٹے اور پڑھئے !فرمایا، بس مجھے اتناہی یاد ہے کیوں کہ میری ماں کو بھی اتنا ہی یاد تھا جب میں اپنی ماں کے پیٹ میں تھا اُس وقت وہ پڑھا کرتی تھیں، میں نے سن کر یاد کرلیا تھا۔
(منے کی لاش ص 04مطبوعہ مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی پاکستان ) (''اَ لْحَقَا ئِقُ فِی الْحَدَائِق''،١٤٠)
(٥)جب سرکار غوث اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْاَکْرَم لڑکپن میں کھیلنے کا ارادہ فرماتے (تو)غیب سے آواز آتی اے عبد القادر !ہم نے تجھے کھیلنے کے واسطے نہیں پیدا کیااورجب آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ مدرَسے میں تشریف لے جاتے تو آواز آتی: '' اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ولی کو جگہ دے دو ۔''
(منے کی لاش ص06مطبوعہ مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی پاکستان ) (''اَ لْحَقَا ئِقُ فِی الْحَدَائِق''،١٤٠) ( ''بَھْجَۃُ الْاَسْرَار ''،٤٨)

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 354682 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.