عتیق الرحمن رضوی
پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقشبندی علیہ الرحمہ (1429ھ/2008ئ)دنیائے
علم و فن کی نام ور شخصیت کا نام ہے.... جن کے علم و فضل اور تحقیقاتِ
علمیہ کا لوہا نہ صرف برّ ِ صغیر ہند و پاک نے مانا ہے بلکہ آپ کے محاسن کا
چرچا بلادِ یورپ و امریکا اورافریقا وغیرہا ممالک میں ہو رہا ہے.... آپ کی
علمی و دینی خدمات کا دائرہ بڑا ہی وسیع ہے.... بالخصوص مجددین اسلام(مجدد
الف ثانی و امام احمد رضامحدث بریلوی) پرآپ کے علمی کارنامے قدر کی نگاہ سے
دیکھے جاتے ہیں.... امام احمد رضا کی ہمہ پہلو شخصیت پر ہونے والے بیش تر
علمی وتحقیقی کام(پی۔ایچ۔ڈی وایم۔فل)آپ کے ہی مرہونِ منت ہیں.... آپ نے
مطالعہ رضویات کو بین الااقوامی دانش گاہوں تک پہنچایا یہی وجہ ہے کہ آپ کو
’ماہرِ رضویات‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے.... آپ تا حیات دین متین کی خدمت
انجام دیتے رہے مگر کبھی اسے ذریعہ معاش نہیں بنایا....آپ کی درجنوں تصانیف
کئی ملکوں سے مستقل شایع ہو رہی ہیں....جو ہمہ جہت موضوعات کو محیط ہیں، جن
میں قرآنیات، سیرت، سائنس،اصلاح، مجددیات،رضویات اور تصوف شامل ہیں....آپ
عصری دانش گاہوں کے اعلیٰ مناصب پر فائز رہے.... باوجود اس کے آپ نے ہمیشہ
فقیرانہ اور سادہ گزر بسر کو ہی پسند فرمایا.... ہر کسی سے منکسرالمزاجی سے
ملتے.... اپنے بیگانے سب کو نوازتے....وہ تمام خوبیاں جو ایک مردِ مومن میں
ہونی چاہیے آپ ان سے متصف تھے....
ڈاکٹر محمد مسعود احمد علیہ الرحمہ کی شخصیت کا شمار ان نفوس مبارکہ میں
ہوتا ہے.... جو قوم کے لیے آئیڈیل ہوتے ہیں.... جن کے اقوال و افعال مشعل
راہ ہیں....ذیل میں مسعود ملت کے چند ناصحانہ کلمات اور اقوالِ زرّیں پیش
ہیںملاحظہ فرمائیںاور انھیں طاقِ حیات پر سجائیں:
٭ اللہ کا خوف زندگی کو متوازن بناتا ہے۔
٭ جو اللہ سے نہیں ڈرتا سب سے ڈرتا ہے، جو اللہ سے ڈرتا ہے کسی سے نہیں
ڈرتا۔
٭ انسان سازی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
٭ بنے ہوئے بناتے ہیں بگڑے ہوئے بگاڑتے ہیں۔
٭ اچھی سیرتیں اچھی صورتوں سے بہتر ہیں۔
٭ اچھی عادتیں انسان کو خوب صورت بناتی ہیں۔
٭ اخلاص،عمل کی جان ہے۔
٭ صبر میں چین ہے،بے صبری میں بے چینی۔
٭ اسلام نے انسان کو انسان بنایا۔
٭ معاملے سے انسان کھلتا ہے۔
٭ جس سے اللہ محبت فرماتا ہے اس سے نفرت کرنے والے ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔
٭ ہم گن گن کر پیش کرتے ہیں وہ بے گنتی عطا فرماتا ہے،کیسی عجیب بات ہے!
٭ نام کا جپنا ذکر نہیں،نام کا دل میں جم جانا اور فکر و شعور پر چھا جانا
ذکر ہے۔
٭ دل کی حفاظت،جان و ایمان کی حفاظت ہے۔
٭ چاہتوں کی بہاروں میں زندگی گزاریں تو نفرتوں کی خزاں سے دور رہیں گے۔
٭ شریعت صحت کی بھی ضامن ہے اور معاشرت کی بھی.... دنیا کی بھی ضامن ہے اور
آخرت کی بھی۔
٭ جس نے محبت کو پاما ل کیا اس نے انسانیت کو پامال کیا۔
٭ تقویٰ زندگی کا نکھار ہے۔
٭ عقیدت جب عقیدہ بنتی ہے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
٭ تن کی صفائی سے زیادہ من کی صفائی ضروری ہے۔
٭ دل پہلے بنتا ہے،دماغ بعد میں.... دل حاکم ہے دماغ محکوم ۔
٭ جب جان جاتی ہے،زندگی آتی ہے.... زندگی جان دینے میں ہے۔
٭ تربیت ،تعلیم پر مقدم ہے....
٭ دنیا کی محبت انسان کو نظر سے گرا دیتی ہے۔
٭ دنیا کو غم کی قدر نہیں،اس کی قدر و قیمت کو اہل اللہ کے دل سے پوچھیے۔
٭ نعت شریف سنگ دلوں کا علاج ہے،نرم دلوں کی بہار ہے۔
٭ بے ادب کا دل پتھر کی طرح سخت اور باادب کا دل پھول کی طرح نرم ہوتا ہے۔
٭ دوسروں کی غلطی پر نظر رکھنے والا خود کو نہیں بنا سکتا۔
٭ اللہ کے محبوبوں کی محبت میں چین، ان کی باتوں میں چین،ان کی یادوں میں
چین،ان کی قبروں پر چین۔
٭ ہر انسان کے انسان سے تین رشتے ہیں،وہ ایک اللہ کا بندہ ہے،ایک آدم کی
اولاد ہے، ایک رسول کی امت ہے۔
٭ جو آتا ہے خالی ہاتھ آتاہے،زندگی میں جو نیکیاں نہیں کماتا،خالی ہاتھ
جاتا ہے،جو نیکیاں کماتاہے بھرے ہاتھوں جاتا ہے۔
٭ مبارک ہے وہ جو شکوہ شکایت سے بے نیاز ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی
ہے۔
٭ مبارک ہے وہ جو سب سے ملے،دوسروں سے توقع نہ رکھے۔
٭ مبارک ہے وہ جو مخدوم بن کر بھی خادم بنا رہا۔
٭ بزرگانِ دین کی محبت کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
٭ صحبت سے انسان بنتا بگڑتا ہے، اچھی صحبت بناتی ہے،بُری صحبت بگاڑتی ہے۔
٭ جب مال و دولت دل میں گھر کرتا ہے دنیا بن جاتا ہے،دل سے نکلتا ہے تو دین
بن جاتا ہے۔
٭ دوسروں کی خدمت کرنے میں جو لطف آتا ہے وہ اپنی خدمت کرانے میں نہیں۔
٭ حسدسے محسود کے درجے بلند ہوتے ہیں۔حاسد بھی ہمارے محسن ہیں۔
٭ ہم گھروں کو تو صاف کرتے ہیں دلوں کو صاف نہیں کرتے جومکان سے زیادہ کہیں
اعلیٰ اور اہم ہیں....اسے کیوں نہ صاف کیا جائے!
٭ ہم اس کے بندے ہیں،اس کا کہنا نہیں مانتے،حیرت ہے!
٭ ماں،باپ کی فرماں برداری اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری ہے کہ حکم اس نے
دیا،ماں،باپ کی نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔
٭ انسانوں کے لیے زندگی بسر کریں....اپنے لیے تو سب ہی کر لیتے ہیں،جانور
بھی کرلیتے ہی.... مردانگی یہ ہے کہ دوسروں کے لیے کیا جائے....
٭ عمل سے اپنی زندگی کو منور کریں، تعمیر سیرت کو تعلیم سے مقدم سمجھیں۔
٭ وقت اَن مول ہے اس کو ضائع نہ کریں24 گھنٹوں کو اس طرح تقسیم کریں کہ
حقوق النفس اور حقوق العباد ادا ہوتے رہیں۔
٭ منظّم زندگی بسر کریں تاکہ وقت ضائع نہ ہو،غیبت سے بچیںخواہ دشمن کی غیبت
ہی کیوں نہ ہو۔
٭ بڑائی کے کام کریں مگر بڑائی کی آرزو نہ کریں۔
٭ دنیا کے لیے اتنا جمع کریں جتنی یہاں ضرورت ہے، آخرت کے لیے اتنا جمع
کریں جتنا وہاں رہنا ہے۔
٭ ایسے دوست تلاش کریںجن کی دوستی سے روحانی،اخلاقی اور علمی نفع حاصل ہو
ورنہ تنہائی بہتر ہے۔
٭ سنّت سے پیار رکھیں اورسنت ہی کو اپنائیں، اس میں عظمت بھی ہے،قوت بھی
ہے،شوکت بھی ہے۔
٭ دولت کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔
٭ دنیوی دولت میں سبقت لے جانے سے بہتر ہے اُخروی دولت میں سبقت حاصل کی
جائے۔
٭ ہم عظمتوں کو تن کے باہر تلاش کرتے ہیں،عظمتیںتو تن کے اندر ہیں۔
٭ اسلام زندگی ہے،جو اسلام سے بیزار ہے وہ زندگی سے بیزار ہے۔
٭ ہم اتحاد سے ڈرتے ہیں،جیسے کوئی سیلاب سے ڈرتا ہے،جیسے کوئی طوفان سے
ڈرتا ہے،کیسی عجیب بات ہے!
٭ ہم اللہ سے نہیں شرماتے،ہم رسول(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) سے نہیں
شرماتے،ہم مخلوق سے شرماتے ہیں،حیرت ہے!
٭ دانا کو دانے کی فکر نہیں ہوتی۔
٭ عیش طلب ہمیشہ دوسروں کا محتاج رہتا ہے۔
٭ بندگی میں زندگی ہے۔
٭ دنیا کی محبت پیروں کو زیب نہیں دیتی۔
٭ کام توفیقِ الٰہی سے ہوتے ہیں،علم و دانش سے نہیں۔
٭ گستاخ وبے ادب کسی رعایت کا مستحق نہیں۔
٭ بزرگوں کی عیب چینی بڑی بدبختی ہے۔
٭ سیاست اور قرض کی لت چھوٹتی نہیں۔
٭ چغلی کی عادت فسادکو جنم دیتی ہے۔
٭ آرزوؤں کوڈھیل دی جائے تو سرپٹ دوڑتی ہیں۔ |