آج کی دنیا نت نئے چیلنجز سے
دوچار ہے اور پاکستان کے بھی حالات ایسے ہیں کہ مضبوط اور باوقار ملک کے
لیے اچھے اور روشن مستقبل کی ضرورت ہے۔کسی قوم کا انحصار اور اعتماد نوجوان
نسل پر ہوتا ہے۔اگر نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت اچھی ہو رہی ہے تووہ قوم
کی کامیابی کی کنجی ہے‘تعلیم ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جو حقائق اور اصلیت سے
آگاہ کرتا ہے۔
تعلیم کا اصل مقصد یہ ہے کہ نوجوان نسل کو شعور دیا جائے کہ وہ اپنی
اوراپنے مذہب کی اصلیت سے واقف ہوں۔اس وقت نوجوان اس بات سے مکمل طور پر
ناواقف اور غافل ہے ،وہ صرف نوکری کا طلب گار ہے۔آج کا نوجوان ظاہری عیاشی
والی زندگی کو حسین منزل سمجھ بیٹھا ہے۔اُسے معلوم ہی نہیں کہ قدرت نے اس
کے دل ودماغ کے اندر ایسے محرکات پوشیدہ کر دیے ہیں کہ وہ سمندر کی
گہرائیوں تک پہنچ سکتا ہے‘آسمان کی وسعتوں کو تسخیر کرسکتا ہے۔اگر نوجوان
ٹھان لے کہ اس نے صرف محنت ہی کرنی ہے اور محنت کے بل پر ہی عزت ووقار
اورشان و شوکت حاصل کرنی ہے‘تو کوئی وجہ، نہیں کہ وہ کامیابی حاصل نہ کرسکے۔
یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا بچوں سے لے کر نوجوانوں تک کو وہ خاص تعلیمی
ماحول مہیا کیا جاتا ہے جس میں تحقیق و مشاہدے کے ساتھ ساتھ شعور کی بیداری
کی تعلیم دی جائے؟تو جواباً ہمارے اربابِ اختیار اپنے گریبانوں کو جھانکنے
کے بھی قابل نہیں رہتے۔کچھ مزیدسوالات جو دماغ میں پیدا ہوتے ہیں کہ :۔
1۔کیا ہمارا نظام ِتعلیم اور نصابِ تعلیم یکساں ہے؟
2۔کیا ہمارے اسا تذہ کو معاشی فکر سے آزاد رکھنے اور گاہے بگاہے اُن کی
تربیت کا کوئی خاص انتظام کیا جاتا ہے؟(یاد رہے کہ ریفریشز کورسز کے نام کو
درکنار رکھ کر سوچا جائے)
3۔کیا ہمارا تعلیمی نظام بچوں یا نوجوانوں پرذہانت و دیانت اور شعور کے
دروازے کھولتا ہے؟
4۔ ہمارے سرکاری سکولوں کو ملنے والی امداددرست جگہ کیوں خرچ نہیں کی
جارہی؟اور یہ امداد سکول کے کس حصّے پر خرچ کی جاتی ہے جو نظر نہیں آتی؟
5۔اور کیا ہمارا نظام تعلیم نوجوان کو‘مشاہدہ یا غور وفکر کی ترغیب دیتا ہے؟
نہیں !ہرگز نہیں!اور یہی درست ہے کہ جواب صرف’نہیں‘ ہے۔اسی لیے آج سے
تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل سر سید احمد خان نے نوجوان نسل کو جدید اور سائنسی
و فنی تعلیم کے حصول پر زور دیاکیوں کہ ان کی دور اندیش نگاہیں بھانپ چکی
تھیں کہ تعلیم ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جو مسلمانانِ بر ِصغیر کو آزادی
دلواسکتی ہے اور انگریزی چالوں سے آگاہی رکھوا سکتی ہے۔وہ علیحدہ بات ہے کہ
بعد میں آنے والوں نے اس نظریے کی دھجیاں اڑا دیں لیکن اُن کی نظر میں اگر
نوجوانوں میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان اور فنی تعلیم کی رغبت پیدانہ ہوئی
تو ہمارا مستقبل روشن نہیں ہو سکتا اگر سر سیداحمد خان اس وقت حصول ِتعلیم
پر زور نہ دیتے تو ہمیں قائد ِاعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ اقبالؒ جیسے
رہنما میسر نہ آتے۔یہاں ایک بات بیان کرنا نہایت ضروری ہے کہ سر سیداحمدخان
کے’’نوجوانوں کو تعلیم حاصل‘‘کرنے کے بارے میں تو اقدامات شروع کردیے گئے
لیکن اس وقت کے مسلمان عمائدین نے ’’نصاب ِتعلیم‘‘ کے بارے میں کچھ زیادہ
غور و فکر نہ کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعد میں آنے والی اُن ہی کی
اولادوں ‘بیوروکریٹس اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد نے جان بوجھ کر نصابِ
تعلیم میں ایسے گنجل پیدا کر دیے کہ جس سے صرف نفرت ،کینہ اوراسی طرح کی
جملہ اخلاقی بیماریا ں پیدا ہوئیں اوراِس سوچی سمجھی سازش کی طرف کسی نے
بھی توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔قارئین!تعلیم کا اصل مقصد ہی صرف
شعور کی بیداری و آگاہی ہے تاکہ غورو فکر کیا جاسکے ناکہ نوکری کے حصول کے
لیے دوڑ دھوپ کی جائے۔
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا(جنھوں نے اکبر الٰہ آبادی پر ’’پی ایچ ڈی‘‘ کا
تحقیقی مقالہ لکھا)کے مطابق انگریزی تعلیم سے لوگوں کو صرف یہ فائدہ ہوا کہ:
میں کیا کہوں احباب کیا کارِ نمایاں کرگئے
بی اے کِیا نوکر ہوئے پنشن ملی اور مرگئے
اورہمارے ہاں بدقسمتی سے ایسا ہی ہو رہا ہے۔
اسی طرح بقول پروفیسر سید محمد سلیم
ــ’’لارڈمیکالے کے نظام تعلیم کو اگر تعلیم برائے ملازمت کا عنوان دیا جائے
تو غلط نہ ہوگا اور دنیا میں شایدہی کسی نے نظام تعلیم کا مقصد اتنا پست
مقرر کررکھا ہو‘‘۔
نصابِ تعلیم کیسا ہونا چاہیے؟
شعور و غور وفکر اس وقت ممکن ہے جب نصابِ تعلیم نہایت مضبوط بنیاد رکھتا ہو
اور اسکے ساتھ ساتھ جملہ اغلاط سے پاک ہو اور جس میں نفرت پھیلانے کے عناصر
موجود نہ ہوں کیوں کہ جب طالبِ علم پڑھے گا تو بچپن میں اس کے اندر جو چیز
پیوستہ کر دی جائے گی تو وہ غورو فکر سے عاری ہونے کی وجہ سے سن ِبلوغت میں
بھی ان چیزوں کو ویسا ہی دیکھے گا جیسا ا س نے پڑھا تھا ‘چاہے دوسری طرف وہ
لاکھ درست اقدام ہی کیوں نہ کر رہی ہوں۔لہٰذا ان کچے ذہنوں کی پرورش و
تربیت میں نصاب کی اہمیت اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے!
نصابِ تعلیم کی زبان کا مسئلہ:
یہ بھی ایک المیہ ہے کہ پاکستان کو ان چند اسلامی ممالک میں شامل کیا
جاسکتا ہے جن میں نصاب ِتعلیم ایک متنازعہ،متفرق اور حل طلب مسئلہ رہا
ہے۔جب کہ ایک اہم مسئلہ میڈیم(نصاب کی زبان) کا بنا رہا ہے۔ایلیٹ کلاس کی
رائے میں نصاب انگلش میڈیم ہونا چاہیے جب کہ معاشرے میں دوسری کلاسز کی
رائے میں نصاب اردو میڈیم ہو نا چاہیے ۔اس لیے یہ اَشد ضرورت ہے کہ ہمارے
ہاں یکساں نظامِ تعلیم و یکساں نصاب ہو۔
یہ بات انتہائی قابلِ غور ہے کہ دنیا کے اکثر ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو
اُن کی ہی علاقائی یا مادری زبان میں تعلیم مہیا کی جاتی ہے،جیسا کہ
چین،فرانس،جرمنی وغیرہ میں طلبا کو اُس زبان میں تعلیم دی جاتی ہے جو وہ
روزمرہ سمجھ سکتے ہیں اور اُن کی حاصل کی ہوئی تعلیم اورڈگری دنیا میں ہر
جگہ تسلیم کی جاتی ہے،جب کہ ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔
میری رائے میں درج ذیل مقاصد کی تکمیل کا نام نصاب ہے جو:
……طالب ِعلم تیار کرسکے‘بچوں اور بچیوں کو اس کردار میں ڈھال سکے جو سیکھنے
او ر سکھانے کے کے لیے اپنے اندر ایک طالب محسوس کر سکے‘اُن کے اندر ایک
ایسی تعلیم اور ادب کے حصول کی تڑپ اور لگن ہو کہ اس نے اپنے تعلیمی درجے
سے کیا حاصل کرنا ہے۔
……جو استاد تیار کرسکے۔ایک روزگارکے متلاشی مرد یا خاتون کا نام استاد یا
استانی نہیں ہوتابَل کہ میری نظر میں یہ استاد کا ایک محروم اور پریشان کن
کردار ہے۔استاد وہ ہے جودرس و تدریس میں وقار اور تمانت محسوس کرے اور
تعلیم کو مشن اور مقصد سمجھے۔(جو خود پریشان اور مفلوک الحال ہے وہ قوم کو
ایک تابناک مستقبل نہیں دے سکتا۔)
……ایسا نصاب ہو جو طالب ِعلم کو درسِ زندگی اور طرز بھی دے اور طریقہ بھی
دے۔اسے انسان بنائے‘ایمان اور جدت پسندی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کردار تیار
کرے۔
……اسے قومی و ملی زندگی دے‘انسانیت سکھائے ناکہ تنگ نظری۔معاشرے میں مثبت
اخلاقی رویوں پر مبنی مقابلے کی فضا پیدا کرے اوردرست سمت آگے بڑھنے کو
تقویت دے۔
……نصابِ تعلیم ایسا ہوجوشعور دے سکے، سوچنے اور فکرکرنے کی صلاحیت پیدا
ہوسکے،طالبِ علم کو دنیا،کائنات اور اس کے عوامل پر غور و خوض کرنے کے قابل
بنائے اوراُس کے اندر سمجھنے،سمجھانے اور تسخیر کرنے کے جذبے پیدا کرے۔
……اسے حقیقت اور افسانے کا فرق سمجھائے۔اُس کے اندر موازنہ و مشاہدہ کا
جذبہ پیدا کرے اور اِس کے ساتھ ساتھ با مقصد زندگی گزارنے کا لائحہ عمل بھی
دے سکے۔
یہ جاننا از حد ضروری ہے کہ یہ سب اتنا آسان نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں
کیوں کہ ایک ہی جست میں ایسا کرنا تصادم کی فضا قائم کردے گا ۔اس کے لیے
ضروری ہے کہ پاکستان میں رہنے والے باشعور اور تجربہ کار‘فرسودہ رسموں سے
پاک افراد کو یہ کام سونپا جائے جوفرض شناسی کے ساتھ نصاب کی تبدیلی اور
درج بالا عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے غورو خوض کریں اور مستقبل کے چیلنجز کا
سامنا کرنے والے قوم کے معماروں کے لیے حتیٰ الامکان بہتر سے بہتر نصاب
تجویز کرے جس میں ان کو تخلیق وتحقیق کا آزاد اختیار بھی ہو اور اسکے بعد
پاکستان کی سپریم باڈی اس نصاب کی جزیات کو دیکھتے ہو ئے اساتذہ کرام سے
جزوی عمل کروائے۔
یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ’’ طالب ِعلم فیل ہوگیا‘‘ بَل کہ اگر غور کیا جائے
تو جب کوئی طالبِ علم فیل ہوتا ہے تو دراصل اس وقت ہمارا نظام تعلیم فلاپ
ہوتا ہے کیوں کہ پاس ہونے والوں میں اکثریت وہ ہوتی ہے جو ’’رٹّا‘‘ لگاتے
ہیں اور جب ایسے افراد ’’اعلیٰ کرسیوں‘‘پربراجمان ہوجاتے ہیں اوراُنھیں کسی
بھی سیاسی پارٹی سے ٹکٹ مل جاتا ہے تو یہ حضرات الیکشن کمشنر کے سامنے جا
کر پوچھے گئے سوالات کا مضحکہ خیز جواب دیتے ہیں‘جس سے اِن کے ’’اعلیٰ
معیارِتعلیم ‘‘ کااندازہوتا ہے۔
اگر آج سے 30سال قبل ہی ہمارا مقتدر طبقہ تعلیم ، روزگار اور انصاف کی طرف
توجہ دیتا تو ملکی حالات کبھی دگرگوں نہ ہوتے ۔ کیوں کہ جب یہ تین چیزیں
معاشرے میں عنقا ہونا شروع ہوجائیں تو معاشرہ ترقی کی بجائے زوال
پذیرہوتاہے اور یہی تین چیزوں کی عدم دستیابی نے خود کش حملہ آوروں کے نیٹ
ورک کو طاقت بخشی اور آلہ کار بنے۔ ہمارے نصابِ تعلیم میں کافی حد تک ایسی
چیزیں ہیں جو ہمارے طالب علم معاشرے میں ڈھونڈ تے ہیں لیکن اُنھیں نظر نہیں
آتیں۔جیسا کہ صفائی کا ذکر ہے ۔ صفائی کتابوں میں ہے ،گلیوں،بازاروں میں
حتیٰ کہ گھروں میں صفائی کا مناسب انتظام نہیں۔دور نہ جائیں اسی طالب علم
کے والدین ہی صفائی سے کوسوں دور ہیں ۔
وجہ’’ شعور‘‘ کی عدم دستیابی،کیوں کہ ہمارا نظام تعلیم اور نصاب‘ ڈگریاں
اور گولڈ میڈل تو دے دیتا ہے لیکن شعور دینے سے عاری ہے۔ میں مزید ایک مثال
آپ کے سامنے پیش کرتاہوں، کچھ عرصے قبل ایک خبر اخبارات میں شایع ہوئی کہ
ایک تقریب کے دوران امریکی صدر اوباما سے نو سالہ بچے نے چند سوال پوچھے۔جب
کہ یہاں غور فرمائیں کہ ہمارا نظام تعلیم نو سالہ بچے میں سوال کرنے کی ہمت
، سبب اور غور و خوص کی دنیا سے واقفیت نہیں دیتا ۔یہاں پرائمری کلاس کے
بچے اور یورپ کے بچے میں زمین آسمان کا فرق ہے یہاں کا بچہ چائنہ یا امریکہ
کے کھلونوں کی باتیں کرتا ہے جب کہ وہاں کا بچہ نظریاتی تحقیقی اور سیاسی
باتیں کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے ۔ یہ بات بچے کی نہیں بَل کہ ہمارے
نظام کی ہے۔ ہم نے اصولِ ارشمیدس، فیثاغورث ، ڈارون کا نظریہ ارتقاء ،
نیوٹن کا نظریہ قوت، بوہر کا ایٹمی ماڈل، ایٹم کی ذرات ، آرہیننیس کا نظریہ
تیزاب واساس اور آئن سٹائن کو تو پڑھا ہے لیکن یہ یاد نہیں کہ کیا کیا پڑھا
ہے کیوں کہ یہ پڑھنا امتحان پاس کرنے کے لیے ضروری تھا ۔اس لیے کبھی سو چا
ہی نہیں کہ کیا یاد رکھنا ہے اور کیا بھولنا ہے اور یہی المیہ ہے ‘میری نظر
میں بھول اور یادداشت کے فرق کانام نصاب ہے۔
قارئین!جس روز ہم یہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ بھولنے کی بجائے یاد
رکھنا کس طرح ممکن ہے تو وہ دن پاکستان کی تاریخ میں انقلاب کی طرف درست
قدم ہوگا۔لیکن یہ کس طرح ممکن ہے!اِسکے لیے ہمیں غوروفکرکرناہوگااورعملی
اقدامات کرنے ہوں گے۔ |