علم کے بغیر اسلامی معاشرے کا
تصور ممکن نہیں۔ رب العالمین نے رحمت اللعالمین کو سب سے پہلے جو حکم دیا
وہ بھی یہی تھا”پڑھ اپنے رب کے نام سے“۔ سردار دو جہاں حضرت محمد ﷺ نے بھی
حکم دیا ”علم حاصل کرو خواہ تمہیں اس کے لئے چین جانا پڑے“۔ علمی برتری کی
بنیاد پر ہی فرشتوں کو انسان کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا مگر پاکستان میں
استحصالی علم دشمن طاقتوں نے فروغ علم کے لئے کبھی کوئی قابل فخر تو دور کی
بات قابل ذکر کام بھی نہیں کیا۔ تاہم سندھ اسمبلی نے بچوں کی مفت تعلیم کے
حق کا قانون اتفاق رائے سے منظور کر کے قوم کی ترقی، خوشحالی اور وقار کی
سمت اہم پیش قدمی کی ہے بشرطیکہ اس قانون کو نعرے تک محدود رکھنے کی بجائے
اس کے نفاذ کے لئے سنجیدہ اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔ ماضی میں وفاق اور
صوبوں کی سطح پر فروغ تعلیم کے حوالے سے بلند بانگ دعوے،اعلانات اور فیصلے
سامنے آتے رہے ہیںمگر عملی طور پر اس شعبے میں بہتری آنے کی بجائے متعدد
حوالوں سے زوال کی علامات نمایاں ہوئی ہیں ۔جس ملک کا قیام ہی سرسید اور ان
کے ساتھیوں کی تعلیمی تحریک اور علی گڑھ یونیورسٹی اور اسلامیہ کالجوں کے
قیام کا ثمر ہے اس کے ابتدائی برسوں میں پرائمری تعلیم اگرچہ مفت کر دی گئی
تھی مگر بعد میں آنے والی قیادتوں نے تعلیم کے پھیلاﺅ کے نام پر جو کچھ کیا
وہ زیادہ تر نعروں تک محدود رہا۔ پڑھا لکھا پنجاب، دانش اسکولوں ، 5سے15سال
کی عمر کے بچوں کی اسکولوں تک رسائی یقینی بنانے کے نام پر جو کام ہوئے ان
سے غربت ،پسماندگی اور جہالت کے اندھیروں میں بسیرا کرنے والے خاندانوں کی
زندگیوں میں روشنی کی کوئی کرن نہیں پھوٹی۔ ملکی وسائل پر قابض اشرافیہ نے
عملی طور پر یہ ثابت کیا کہ وہ تعلیم کے پھیلاﺅ اور اس کے نتیجے میں پیدا
ہونے والے عوامی شعور کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی
کہ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری کو تعلیمی اداروں کی
عمارتوں پر قبضوں سے متعلق ایک کیس میں چار رکنی بینچ کے سربراہ کی حیثیت
سے 10ستمبر2012ءکو یہ کہنا پڑا کہ ”آرٹیکل 25۔اے کے تحت لازمی بنیادی مفت
تعلیم ہر بچے کا حق ہے اور اس کے نفاذ کو عدالت یقینی بنائے گی“۔1973 ءکے
آئین میں آرٹیکل25۔اے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے سال2009ءمیں بھی شامل کیا
گیا تھا جو پانچ سے 16سال کی عمر کے ہر بچے کو بلا امتیاز جنس و نسل مفت
اور لازمی تعلیم کا حق دیتا ہے۔ سندھ اسمبلی کو بلاشبہ یہ اعزاز حاصل ہے کہ
اس نے مذکورہ آئینی ضرورت کے مطابق قانون سازی میں سبقت حاصل کی۔ ”سندھ
رائٹ آف چلڈرن ٹو فری اینڈ کمپلسری ایجوکیشن ایکٹ2013ء“ میں سرکاری و نجی
اسکولوں کے انتظامی معاملات ، تعلیمی معیارات ، اساتذہ کی لیاقت سمیت متعد
امور کا احاطہ کرتے ہوئے اس بات کو ہر بچے کا بنیادی حق قرار دیا گیا ہے کہ
وہ سیکنڈری ایجوکیشن تک مفت اور لازمی تعلیم حاصل کرے ۔یہ بھی واضح کیا گیا
ہے کہ کوئی بھی بچہ کسی قسم کی فیس ،چارجز یا اخراجات ادا نہیں کرے گا جو
اس کی سیکنڈری ایجوکیشن تک تعلیم کے حصول میں رکاوٹ بن سکتے ہوں۔ سرکاری
اسکولوں کے ساتھ نجی اسکول بھی اپنے طلبا کی مجموعی تعداد کے کم از کم 10
فیصد مستحق بچوں کو مفت تعلیم دیں گے۔ 5سال سے زیادہ عمر کے جو بچے اب تک
کسی اسکول میں داخل نہیں ہو سکے انہیں ان کی عمر کی مناسبت سے کلاس میں
داخلہ دیا جائے گا ۔ 16سال کے بعد بھی بچے میٹرک تک تعلیم حاصل کر سکیں گے
۔ بل میں کہا گیا ہے کہ بچے کے والدین یا نگہداشت کرنے والوں کو مجبور کیا
جائے گا کہ وہ بچوں کو اسکولوں میں داخل کرائیں اور میٹرک تک تعلیم مکمل
کرائیں بشرطیکہ ایسا نہ کرنے کے لئے ان کے پاس کوئی معقول وجہ نہ ہو۔اس
قانون کے نفاذ میں اگرچہ نجی سکولوں کی طرف سے 10فیصد بچوں کو مفت تعلیم
دینے میں مزاحمت سمیت بعض مشکلات حائل ہیں مگر حکومت اور اپوزیشن میں شامل
جماعتوں کی اس کے نفاذ میں دلچسپی سے امید پیدا ہوئی ہے کہ اخلاص اور
سنجیدگی سے کام کر کے تمام دشواریوں پر قابو پا لیا جائے گا ۔سندھ میں اس
قانون کے نفاذ کے بعد دوسرے صوبوں کو بھی اس باب میں ٹھوس قانونی و عملی
اقدامات کرنے چاہئیں ۔ملک کے تمام بچوں کو یکساں، معیاری اور مفت ابتدائی
تعلیم کی فراہمی ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔ اس مقصد کے لئے تعلیمی
ایمرجنسی کے نفاذ سمیت تمام ضروری اقدامات کئے جانے چاہئیں ۔ جب تک اس ملک
کے ہر بچے کو آئین میں دی گئی ضمانت کے مطابق مفت تعلیم نہیں دی جائے گی
اور اعلیٰ تعلیم کے لئے بھی سب کو یکساں مواقع فراہم نہیں کئے جائیں گے ۔ |