تھانہ کلچر

بے گناہ افراد کو پابند سلاسل رکھنا ، تشدد کرنا ، چھوٹے مقدمات میں ملوث کرنا اور مدعی سے مال لیکر برآمدگی ڈالنا ، بغیر گرفتاری کے حوالات میں بند کرنا ،نجی جیل تھانہ کلچر کا حصہ ہے ۔ اگر پولیس ان اختیارات کا استعمال نہ کرے تو رشوت پر کوئی آمادہ نہ ہو ۔ ضلع بھر کے تھانوں میں ایس ایچ او اور تفتیشی افسران کے ذریعے یہ فارمولے آزماتے ہیں ۔ گناہ گار تو تھانہ میں داخل ہونے سے قبل ہی مک مکا کر لیتے ہیں کیونکہ ان کو اپنے گناہ گار ہونے کا یقین ہوتا ہے ۔ بے گناہ بندہ چھتر بھی کھاتا ہے اور رسہ پر بھی لٹکتا ہے ۔ تب جا کر اپنی بے گناہی ثابت کرتا ہے اور رہائی کے عوض نذرانہ تو اولین فرض ہوتا ہے ۔ اگرکوئی ایس ایچ ا و دعویٰ کرے کہ وہ رشوت نہیں لیتا لیکن ماتحت عملہ لے تو غلط فہمی سے یہ نہ سمجھ لیں کہ وہ ایماندار ہے بلکہ وہ ماتحت سے ففٹی ففٹی کے مارمولے پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ تھانہ کے اندر کیا ہورہا ہے کون کیا کر رہا ہے یہ سب اسکے علم میں ہوتا ہے مطلب یہ کہ اسکی مرضی کے بغیر پتہ تک نہیں ہل سکتا ۔لیکن متاثر شخص کو یہ ضرور باور کرائے گا کہ تمام کام اسے بالا بالا ہو رہا ہے اور تسلی کے لیے سامنے ہر وہ عمل کرےگا جو اپکو مطمئن کر ے ۔ افسران کو صورتحال سے بھی باخبر رکھے گا تاکہ وہ مطمئن رہیںاور انہیں صورتحال کا ترجمہ بھی اپنی پوزیشن کو مدنظر رکھ کر بتائے گا ۔ پولیس عام آدمی پر ظلم وزیادتی کر کے ٹاﺅٹوں ، چوہدریوں اور عوامی نمائندوں کی سفارش پر چھوڑ کر انہیں معاشرے میں باعزت مقام سے نوازتی ہے ۔ اپنے ذاتی مفاد اور انہیں لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ذلیل وخوار کرکے مقام عبرت بھی بنا دیتی ہے اور لوگوں کی آزادی سلب کرکے گناہ کبیرہ کی بھی مرتکب ہوتی ہے ۔ تھانہ کلچر کو پروموٹ کرنے کا سبب بھی پولیس کے افسران ہیںجو درخواست مارک کرکے اپنے فرض فرائض تو انجام دیتے ہیں ۔ سائل کی بات بھی توجہ سے سنتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ درخواست بالا خر اسی تھانہ میں جائے گی ۔ پلٹ کی خبر تک نہیں لیتے کہ سائل کو انصاف ملایا نہیں ۔ یا وہ درخواست دینے کی پاداش میں حصول انصاف کے لیے مزید ذلیل وخوار ہوگیا ۔ اگر کبھی خوش قسمتی سے درخواست کسی آفیسر کے پاس آجائے تو سائل پھر بھی خوار کیونکہ تھانے میں اہلکاروں کو سو بہانے خود پیش نہیں ہوتے ۔ چند افسران اچھے بھی ہیں جو فون کرکے اہلکاروں کو طلب کر لیتے ہیں ورنہ ڈنگ ٹپاﺅ کی پالیسی چل رہی ہے ۔ انصاف کے حصول میں در بدر پھر نا تو عام ہے تھانہ ہو یا عدالتیں ، اسی لیے تو لوگ ان سے پناہ مانگتے ہیں ۔ اپوزیشن میں رہنے والے ہمیشہ تھانہ کلچر کی تبدیلی کا نعرہ اقتدار میں آتے ہی بھول جاتے ہیں ۔ پولیس میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیںجو محکمہ پولیس کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔ محکمہ پولیس میں ایسے ایسے فرشتہ صفت افسران اور اہلکار بھی موجود ہیں جن کی درازی عمر کے لیے لوگ دعائیں کرتے ہیں ۔ اکثر سائلین بھی اپنے مقدمات کی تفتیش اپنے فرشتہ صفت لوگوں سے کروانے کی جدوجہد میں رہتے ہیں ۔ تاکہ حصول انصاف ممکن ہوسکے ۔ یہی افسران بات کی تہہ تک پہنچتے ہیں ۔ پولیس میں براہ راست اے ایس پی بھرتی ہونے والوں کی اکثریت خدمت خلق اور کسی دباﺅ کے بغیر انصاف کی فراہمی کے لیے جدوجہد میں مصروف ہوتے ہیں ۔ شروع میں ناتجربہ کاری کی وجہ سے اکثر ماتحت عملہ پر اعتماد کرتے ہوئے ٹریپ ہوجاتے ہیں ۔ پولیس کے خلاف عوامی نفرت بھی حد سے زیادہ ہے ۔ جسکی وجہ سے اکثر ان سے دوستی کے پروگرام بھی ترتیب دیئے جاتے ہیں ۔ بڑا معروف مقولہ ہے کہ پولیس کی دوستی اچھی نہ دشمنی اسکی وضاحت کرنا ضروری نہیں کہ اسکے اثرات معاشرے میں محسوس کیے جاسکتے ہیں ۔ پولیس کے کسی بھی عہدے کا اہلکار ہو یونیفارم اترتے ہی اس کے رویہ میں تبدیلی آجاتی ہے ۔ خصوصاً معطلی یا پھر برخاستگی کے بعد اسے یونیفارم کے حصول کے لیے میلاد کی محفلوں اور یاد خدا کثرت سے آتے ہیں ۔ لیکن یونیفارم ملتے ہی پھر وہی رات دن پولیس والوں کے لیے چارمنگ پوسٹوں پر جانے کے لیے بھی بڑ ی سفارشوں اور رشوتوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جبکہ بعض پولیس افسران کی خدمات اور طریقہ کار ایسا ہوتا ہے کہ ان کی ہر جگہ ضرورت محسوس ہوتی ہے یہ افسرا عوام کی بھی خواہشات ہوتے ہیں ۔ جن کی تقرری پر وہ خوش اور تبدیلی پر پریشان ہوجا تے ہیں ۔ صرف دفتر کے دروازے کھولنے اور درخواستوں کو مارک کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے جب تک ان کے حل اور حصول انصاف کو ممکن نہیں بنایا جاتا ۔ جرائم کے کنٹرول پر توجہ نہیں دی جاتی عوام کو احسا س تحفظ فراہم کرنا بنیادی ذمہ داری ہے ۔ پولیس افسران کو خوشامدی لوگ بڑے اچھے لگتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو امدادی پولیس کا خطاب دیا جاتا ہے ۔ البتہ پولیس پر تنقید کرنے والے انٹی پولیس لابی میں شمار ہوتے ہیں ۔ حالانکہ تنقید برائے اصلاح اچھی ہوتی ہے ۔ مگر یہاں تنقید سننے کا حوصلہ بھی نہیں ۔ تھانہ کلچر میں تبدیلی کے لیے گوجرانوالہ میں تعینات پولیس کے ایک اعلی افسر اسے مشن سمجھ کر شروع کیا تھا افسران کے بعد انہوں نے تھانوں میں اہلکاروں سے باقاعدہ حلف لیے اور اصلاحی پروگرام کا آغاز کیا ۔ یہ سلسلہ جاری تھا اور تبدیلی بھی محسوس ہونے لگی ۔ انہوں نے اغواءبرائے تاوان ، چوری ، ڈکیتی ، غنڈہ گردی ، منشیات ، جواءاوردیگر جرائم پر قابو پاکر عام آدمی کو تحفظ کا احساس دیا جس کو آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں ۔ تمام امور کو ایک سسٹم کے تحت چلایا اور سول سوسائٹی میں بھی نام ہی نہیں عزت بھی پائی ۔ محکمہ پولیس لاءاینڈ آرڈر فورس ہے ۔ جس کے لیے تمام قوانین طے شدہ ہیں ۔ لیکن ہر نئے آنے والے افسران نہ جانے نئے نئے ویژن کہاں سے لے آتے ہیں ۔ تمام قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے ویژن کے مطابق نئے تجربے سے روشناس کرواتے ہیں ۔ ”ون مین شو “کا رجحان بھی عام ہے جسکی وجہ سے بعض افسران اختیارات ہونے کے باوجود بے بسی محسوس کرتے ہیں ۔ انکی کار کردگی ،کام میں محنت کرنے کا جذبہ متاثر ہوتا ہے ۔ اپنی سیٹ پر کھل کر کام کرنے کی خواہش اور مشن بھی ادھورا رہتا ہے ۔ موجودہ دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی دباﺅ ، سفارشی پوسٹنگ ٹرانسفر اور پسند ناپسند سے بالا تر ہو کر کسی سیاسی ، سماجی مداخلت کے بغیر صرف ”میرٹ“ کو مدنظر رکھ کر محکمہ پولیس کو قانون کے دائرے میں رکھتے ہوئے ایماندار ی اور ذمہ داری سے فرائض کی ادائیگی کا موقعہ دیا جائے تو یہ معاشرہ مثالی بن جائے ۔ اور پولیس کو عوام دوستی کی مہم بھی چلانی پڑے ۔ عوام کا اعتماد بھی بحال ہو ۔ پروفیشنل پولیس افسروں کے تجربات سے استفادہ کیا جائے ۔ تفتیش کے جدید طریقوں پر عمل درآمد کیا جائے ۔ پولیس کا مورال بلند کرنے کے لیے انہیں جدید دور کی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔ کرپشن مافیا غیر قانونی اور ماورائے قانون کام کرنے پر سخت سزا دی جائے اور پاک فوج کی طرز پر ان کی تربیت سینارٹی ہو ۔
Sultan Gujar
About the Author: Sultan Gujar Read More Articles by Sultan Gujar: 2 Articles with 998 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.