تحریر: شاہین اختر
سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ اور ہزارہ برادری کے قتل عام کے بارے میں ازخود
نوٹس کی سماعت کے دوران صدر ، وزیر اعظم اور گورنر بلوچستان سے جواب طلب
کیا ہے کہ ہزارہ برادری کے جان و مال کے تحفظ کے لئے کیا اقدامات کیے گئے
ہیں۔ ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ عدالت اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے
صوبے میں فوج طلب کرنے کا حکم نہیں دیگی۔ دوسری طرف پولیس کے آئی جی
بلوچستان اور آئی بی کے سربراہ کو بھی تبدیل کردیا گیا ہے جبکہ ایف سی کے
ٹارگٹڈ آپریشن میں چار دہشت گردوں کے ہلاک اور سانحہ ہزارہ کے ماسٹر مائنڈ
سمیت متعدد افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ کوئٹہ میں ہزارہ قبرستان میں
میتوں کی تدفین کے موقع پر کچھ لوگوں کی طرف سے فائرنگ کی گئی جس پر مشتعل
مظاہرین نے جوابی کارروائی بھی کی لگتا ہے کہ پاکستان کی آزاد خود مختار
چین ایران پالیسی پاکستان دشمن ممالک کو ہضم نہیں ہو رہی۔ روس کے صدر ولادی
میر پوٹن نے بھی کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے
ہوئے اسے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کارروائی قرار دیا اور
کہا کہ ان کا ملک دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف پاکستان کی جانب سے کی
جانیوالی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا۔
لیکن یہ بات بھی لمحہ فکریہ ہے کہ ہزارہ برادری کے قتل عام میں ملوث اور ہر
واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم لشکر جھنگوی جس کی باقاعدہ عمران
خان نے نام لے کر کھل کر مذمت کی ہے ان کے محفوظ ٹھکانے تو پنجاب میں ہیں
حتیٰ کہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ پر ایسے لوگوں سے تعلقات ، قربت
، مفاہمت اور معاملات کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں شیعہ سنی
فسادات کرانے کی ”را، موساد اور سی آئی اے“ کی سازش پاکستانی عوام کی
اجتماعی دانش ناکام بنا دی ہے اور مظلوم ہزارہ برادری کے ساتھ ساری قوم
کھڑی ہے لیکن اس نازک موقع پر پاکستان کی قابل فخر دفاعی لائن آئی ایس آئی
اور افواج پاکستان کےخلاف طے شدہ ایجنڈے کے تحت پراپیگنڈہ مہم بھی جاری ہے
حالانکہ مظلوم ہزارہ برادری بار بار اپنی اُمیدوں کا محور و مرکز پاک فوج
کو قرار دیکر کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
پاکستان دشمنوں کو پاکستان کےخلاف مزید زہر اگلنے کا موقع مل گیا لیکن ایک
بار پھر سوشل میڈیا حرکت میں آیا اور فیس بُک پر مظلوم ہزارہ برادری کے
پُرامن احتجاج کی حمایت میں فیس بُک پر میتوں کے ساتھ احتجاجی شرکاءکی
تصاویر شیئر در شیئر ہوتی گئیں۔ پھر کیا تھا پاکستانی قوم اور سیاسی
جماعتیں بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ مظلومین ہزارہ برادری کی حمایت میں
کھل کر سامنے آ گئیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس سانحے نے ایک بار پھر قوم کو متحدہ
کردیا اور وہ یک جان ہو کر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
گزشتہ سال بھی پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے بلوچستان میں بڑھتی بدامنی پر
ازخود نوٹس لیا اور اس سلسلے میں حکومت کو کارکردگی بہتر بنانے کی ہدایت
کی۔ بلوچستان بدامنی کیس کے سلسلے میں فیصلہ صادر کرتے ہوئے کہا گیا کہ
بلوچستان کی حکومت اپنی ناکامیوں اور ناقص ترین کارکردگی کی بناء پر
بلوچستان میں حکومت کرنے کے اخلاقی حق اور جواز سے محروم ہو چکی ہے۔ عدالتی
فیصلے کے بعد ملک کے ایک وسیع طبقے کی سوچ اور رائے یہی تھی کہ اس فیصلے کے
آنے کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان کو خود ہی اپنی حکومت سے دست بردار ہوجانا
چاہئے لیکن حکومتی طرز عمل نے تو یہ بتایا کہ ملکی وسائل کا مزا لوٹنے
والوں کو عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں اور عوامی سانحوں پر بھی ان کی
روایتی بے حسی کا عالم برقرار رہا۔ |