صحافیوں کی سستی اور تربیتی ورکشاپ

صحافت سے وابستہ زیادہ تر افراد اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں یہ ایک عام مشاہدہ ہے اور کچھ ہو نہ ہو " قل قلا خانی" کی عادت تقریبا ہر صحافی میں عام ہے جسے کچھ صحافی مانتے بھی ہیں - کچھ دن قبل عدالتی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کیلئے چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کی ہدایت پر جوڈیشل اکیڈمی خیبر پختونخواہ کی انتظامیہ نے ملک میں اپنی نوعیت کاپہلاتربیتی ورکشاپ منعقد کروایا-جس میں مختلف اخبارات/ ٹی وی چینل سے وابستہ صحافیوں کو مدعو کیا گیا تھا لیکن افسوسناک بات یہ ہوئی کہ تربیتی سیشن جو کہ نو بجے شروع ہونا تھا ہمارے اپنے صحافیوں کی تساہل کی وجہ سے ساڑھے دس بجے شروع ہوا جس کی وجہ سے تربیتی ورکشاپ میں ایک دو لیکچررز کے سلسلے کو ختم کردیا گیا جس کا مجھ سمیت تربیت کیلئے آنیوالے زیادہ تر صحافیوں کو افسوس بھی ہوا -سب سے حیرت کی بات یہ دیکھنے کو ملی کہ جو صحافی اس وقت فیلڈ میں موجود ہیں وہ تربیت کیلئے نہیں آئے جبکہ جو ابھی جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں پڑھ رہے ہیں ان میں بہت سارے زیر تربیت صحافی تربیتی سیشن میں شامل ہوئے اور انہوں نے اسے ورکشاپ کو اپنے عملی زندگی کیلئے بہتر قرار دیا-

تربیتی سیشن میں جوڈیشل اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل حیات علی شاہ سمیت ڈائریکٹر فیکلٹی خورشید خان سینئر صحافیوں سہیل احمد خان اور طلعت حسین نے عدالتی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو اپنے تجربات سے آگاہ کیا اور انہیں موجودہ حالات میں اپنے آپ اور رپورٹنگ کو کو بہتر طور لانے کے گر بھی سکھائے-اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے صحافی سہیل احمد خان جن کا تعلق خیبر پختونخواہ سے ہے نے تربیتی سیشن میں زور دیا کہ معیاری کام کرنے کیلئے ضروری ہے کہ صحافی عدالتی رپورٹنگ پر توجہ دیں اور عدالتی امور کے دوران عدالتوں میں حاضر رہیں جس سے انہیں نہ صرف بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے بلکہ ان کے تعلقات بھی بن جاتے ہیں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کورٹس کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی صرف کورٹس رپورٹنگ ہی کریںان کے بقول اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی سپریم کورٹ تک محدود ہیں جب ہم نے ان سے کہا کہ ہمارے ہاں تو یہ کلچر پہلے صرف اخبار میں تھا اوراب یہ ٹرینڈ ٹی وی چینلز میں بھی آگیا ہے کہ نالہ خراب ہے سے لیکر بم دھماکے کی کوریج ایس ایچ او نے اسلحہ پکڑ لیا ہے سمیت عدالتی رپورٹنگ بھی ایک ہی صحافی سے کرائی جاتی ہیں تو ان حالات میں کیا کرنے کی ضرورت ہے اور کیسے معیاری کام کیا جاتا ہے تو اس کا جواب نہ تو ان کے پاس تھا اور نہ ہی اینکر پرسن طلعت حسین کے پاس لیکن ہاں انہوں نے کہہ دیا کہ اگر آپ نے اپنے آپ کوآگے لیکر جانا ہے تو ان تمام تر مشکلات اور محدود وسائل میں رہتے ہوئے بھی کوششیں جاری رکھنی ہے-

طلعت حسین نے اس موقع پر تجویز دی کہ عدالتی امور کی کوریج کرنے والے صحافیوں کیلئے سپیشلائز کورسز کروانے کی ضرورت ہے جس کیلئے اکیڈمی کو اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ ان سے فارغ التحصیل ہونیوالے صحافی ہی کورٹس کی رپورٹنگ کرسکیں-جسے ڈائریکٹر جنرل جوڈیشل اکیڈمی خیبر پختونخواہ نے سراہا اور کہا کہ آج کے ایک روزہ تربیتی ورکشاپ کیلئے انہیں بہت پاپڑ بیلنے پڑے تاہم اس شعبے سے وابستہ صحافیوں کی بہتری کیلئے تین ماہ کا کورس ڈیزائن کرسکتے ہیںاس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پہلے تربیتی ورکشاپ میں انکے توقعات کے برعکس بہت کم صحافیوں نے شرکت کی -جبکہ ڈین فیکلٹی خورشید خان نے پروگرام کے دوران کئی مرتبہ کہا کہ صحافیوں کی لیٹ آنے کی وجہ سے پروگرام بھی لیٹ شروع کیا گیا جسے سن کر ہم نے بھی سر نیچے کرلیا حالانکہ ہم تین ساتھی مقررہ وقت پر پہنچے تھے لیکن چونکہ ہمارا ہی شعبہ موضوع بحث تھا اس لئے کچھ کچھ شرم بھی آئی جوکہ اس فیلڈ میں رہتے ہوئے نہیں آنی چاہئیے لیکن بارہ سال گزارنے کے باوجود ابھی تک ہم بے شرموں کی اس فہرست میں شامل نہیں ہوئے جو اپنی غلطی پر بھی دوسروں کی گریبان پکڑتے ہیں-تربیتی ورکشاپ کے اختتامی سیشن میں قومی ترانہ سنایا گیا جسے سن کر دل بہت خوش ہوا کیونکہ کچھ عرصے سے ہمارے ہاں تو پشتو زبان میں ایک نیا ترانہ سنایا بلکہ سنانے کے بجائے بجایا جاتا ہے اور اس پر کچھ مخصوص لوگ ٹھمکے بھی لگاتے ہیں لیکن شکر ہے صوبہ خیبر پختونخواہ کی جوڈیشل اکیڈمی میں قومی ترانہ سناجس کے بعد چیف جسٹس نے تربیت مکمل کرنے والے صحافیوں میں سرٹیفیکیٹس بھی تقسیم کئے لیکن یہاں پر جوڈیشل اکیڈمی والے صحافیوں سے ہاتھ کر گئے-کچھ ایسے صحافیوں کے نام کے سرٹیفیکیٹس بھی جاری کئے گئے جنہوں نے تربیت میں حصہ بھی نہیں لیا تھا جبکہ جو لوگ تربیت میں صبح سے شام تک بیٹھے رہے ان کا نام تک نہیں لیا گیا جس کی وجہ بھی یہی تھی کہ تربیت کیلئے آنیوالے صحافیوں کی فہرست تو تیار کی گئی لیکن اسے دیکھنے کی کوشش کسی نے نہیں کی اور نہ ہی تربیتی سیشن کے دوران اس کی تصدیق کی گئی- خیرمجھ سمیت متعدد صحافی سرٹیفیکٹس کی تقسیم کے دوران حجل و خوار ہوئے-

چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جوڈیشل اکیڈمی کی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ صحافیوں کی تربیت کیلئے تین ماہ کا کورس ڈیزائن کیا جائے اور اس میں عدالت عالیہ جوڈیشل اکیڈمی کیساتھ وسائل کی حد تک تعاون کرنے کیلئے تیار ہے چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں ملکی اداروں کا تمام بوجھ عدلیہ پر ہے اور میڈیا کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے ملک کی موجودہ افسوسناک صورتحال پر کہا کہ پاکستان کی تخلیق میں سنی و شیعہ سمیت تمام مسالک کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جبکہ آج ہمیں تقسیم کیا گیا جس میں اندرونی اور بیرونی عناصر دونوں شامل ہیں چیف جسٹس پشاو ر ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ ملک کی موجودہ حالات میں میڈیا کا مثبت رویہ اور کردار ہی ملکی بقاء سلامتی اور ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں او ر صحافیوں کی تربیتی سلسلوں سے انہیں مثبت سمت لایا جاسکتا ہے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئین میں دی گئی اظہار رائے کی آزادی اور معلومات کی فراہمی کا حق ہر ایک کو حاصل ہے تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ اس وقت بھی ملک کے چند حصے صحافیوں کیلئے نو گو ایریا ہے بعد ازاں اپنی نوعیت کا ملکی سطح پر ہونیوالا کورٹ رپورٹر کیلئے کیا جانیوالا تربیتی ورکشاپ اختتام پذیر ہوا-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 426430 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More