گزشتہ دنوں اطلاع ملی کہ وادی
کشمیر کے معروف صحافی ،ادیب اور شاعر راجہ نذر بونیاری ایک ہفتے کے لئے 11
فروری کومظفر آباد آ رہے ہیں۔ ریاستی اخبارات و جرائد کی تنظیم ’آل کشمیر
نیوز پیپرز سوسائٹی‘ کی طرف سے ان کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب کا پروگرام
بنایا گیا۔پھرمعلوم ہوا کہ وہ 18فروری کو ہی واپس جا رہے ہیں تو ہم نے راجہ
صاحب سے 17فروری کو تقریب میں شرکت کی استدعا کی۔16فروری کو میں راولپنڈی
سے مظفر آباد کے لئے روانہ ہوا۔کوہالہ پہنچا تو شام قریب تھی۔گاڑی نے
دریائے جہلم عبور کرنے کے لئے نئے پل کے بجائے پرانے پل کی طرف رخ کیا تو
اس کی وجہ جاننے کے لئے دریا کے پار نظر دوڑائی ۔ معلوم ہوا کہ پار سڑک کے
ساتھ دریا کی جانب کا ایک بڑا حصہ دراڑوں میں تبدیل ہو چکا ہے۔جہلم میں
گرنے والے نالے کی جانب دیکھا تو وہاں کافی تعداد میں سیاح موجود تھے۔ سردی
کے بعد دھوپ کا موسم بہار کی مانند تھا۔بارش کی وجہ سے دریائے جہلم کا پانی
مٹیالا نظر آ رہا تھا۔پرانے پل سے پہلے ہی لینڈ سلائیڈنگ کا ایریا شروع ہو
گیا۔لینڈ سلائیڈنگ کا یہ ایریا پندرہ بیس سال ٹریفک کے لئے مسئلہ بنا رہا
تاہم تقریبا پندرہ سال قبل یہ سلائیڈ تھم گئی تھی جو اب دوبارہ متحرک ہو
گئی ہے۔ کوہالہ کے پرانے بازار پہنچے تو تنگ جگہ ہونے کی وجہ سے ٹریفک کو
باری باری گزارا جا رہا تھا۔کوہالہ کے اس تاریخی بازار کی زبوں حالی دکھ کر
افسوس ہوا کہ کبھی یہ مصروف بازار ہو ا کرتا تھا۔
مظفر آباد پہنچا تو رات کی تاریکی چھا چکی تھی۔سیدھا اپنے ایک ساتھی ظہیر
جگوال کے دفتر پہنچا اور ہنگامی طور پر طے کی گئی راجہ نذر بونیاری صاحب کے
اعزاز میں استقبالیہ تقریب کے انتظامات میںلگ گئے۔ظہرانے کی اس تقریب کا
اہتمام ’اے کے این ایس‘ کے اپر چھتر میں قائم دفتر میں کیا گیا ۔اگلے روز
اتوار کو تقریبا ایک بجے دن راجہ نذر بونیاری مظفرآباد میں اپنے میزبان
سردار نسیم صاحب کے ساتھ ’اے کے این ایس‘ کے دفتر پہنچے۔ تعارف اور تمہید
کے بعد راجہ نذر بونیاری نے اپنے خطاب میں مختلف صحافتی و ادبی امور پر
روشنی ڈالی۔انہوں نے اداریئے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اخبار کا
چہرہ اور پالیسی اداریہ ہوتا ہے اور یہ اخبار کا لازمی حصہ ہے۔راجہ نذر
بونیاری نے کہا کہ سیز فائر لائین سے ریاست کے باشندوں کو آزادانہ آمد و
رفت کی اجازت دی جائے جو کہ کشمیریوں کا حق ہے۔منقسم کشمیری خاندانوں کے
آنے جانے کے طریقہ کار کو فوری اور آسان بنایا جائے۔ریاستی اخبارات اور
کتابوں کے تبادلے کا اہتمام بھی ضروری ہے۔آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے
تعلیمی اداروں میں دونوں طرف کے طلبہ کے داخلے کا اہتمام ہونا چاہئے۔ ریاست
کشمیر کے باشندوں کی آزادانہ آمد و رفت سے کئی مسائل خود بخود حل ہو جائیں
گے۔تقریب کے شرکاءنے کہا کہ کشمیر کو تقسیم کرنے والی سیز فائر لائین سے
آمد ورفت کشمیریوں کا حق ہے اور اقوام متحدہ کی قرار دادیں بھی کشمیریوں کے
اس حق کی بات کرتی ہیں۔متنازعہ ریاست کشمیر کے لوگوں کو سیز فائر لائین سے
غیر مشروط آمدو رفت کی اجازت دی جائے۔’آر پار‘ کے اہل قلم، صحافیوں،
ادیبوں،شعراءاور مختلف طبقات کے علاوہ ان ریاستی باشندوں کو بھی ’آنے جانے‘
کی سہولت فراہم کی جائے جن کے دونوں طرف رشتہ دار نہیں ہیں۔منقسم کشمیری
خاندانوں کو خوشی غمی میں ہنگامی طور پر ’آنے جانے ‘ کی سہولت فراہم کی
جائے۔آلو ،پیاز کی تجارت سے ضروری کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان اخبارت
وجرائد اور کتابوں کا تبادلہ ہے۔اس موقع پر اس بات سے اتفاق کیا گیا کہ
کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان اہل قلم کی کو آرڈینیشن کمیٹی قائم کی
جائے۔اس بات کا تذکرہ بھی ہوا کہ اہل قلم عوامی امنگوں اور جذبات کے بہترین
ترجمان ہوتے ہیں اور اس حوالے سے بھی کشمیر کے اہل قلم کو اپنا کردار موثر
طور پر ادا کرنے پر توجہ دینا ہو گی۔
تقریب سے مہمان خصوصی راجہ نذر بونیاری کے علاوہ حکومت آزاد کشمیر کے
سیکرٹری اطلاعات شوکت مجید ملک،پریس فاﺅنڈیشن کے وائس چیئرمین سردار
ذوالفقار،معروف قلم کار سید سلیم گردیزی ،محترمہ ساجدہ بہار،’اے کے این ایس‘
کے نائب صدر آغا سفیر حسین کاظمی ،سیکرٹری جنرل ظہیر جگوال،سید عارف
بہار،اختر حسین بخاری،شہزاد لولابی،سردار نسیم،راجہ شجاعت،راجہ خالد محمود
اورراقم نے خطاب کیا۔تقریب میں ریاست کے معروف صحافی شیام کول جی اور
1932ءکے معروف ریاستی اخبار ”اصلاح“ کے ایڈیٹر خواجہ عبدالغفار
ڈار(بارہمولہ )کے انتقال پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیا اور ان کی
صحافتی و ادبی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا۔معروف ریاستی شخصیت
راجہ نذر بونیاری کے اعزاز میں یہ تقریب محبت کے اظہار کے علاوہ ان کے
احترام،صحافتی و ادبی خیالات کے تبادلے ،مل بیٹھنے اور کشمیر کے لئے کچھ
مثبت کرنے کی سوچ کے طور پر تھی۔اس تقریب کے ذریعے متنازعہ ریاست کشمیر کے
اہل قلم نے خواہشات کی نازک تاروں سے’ سیز فائر لائین‘ کے آر پار ایسا پل
تعمیر کرنے کی کوشش کی جو فاصلوں ،صعوبتوں کو پاٹ سکے۔راجہ نذر بونیاری کو
رخصت کرتے ہوئے ان سے وادی کشمیر کی معطر ہواﺅں اور محبت بھرے لوگوں کو
سلام پہنچانے کی استدعا کی ۔اگلے روز صبح راجہ نذر بونیاری چکوٹھی کے راستے
واپس وادی کشمیر روانہ ہو گئے ۔ |