زندہ اور مردہ میں یہی فرق ہے کہ
زندہ انسان محسوس کرتا ہے اور مردہ محسوس سے عاری ہوتا ہے ۔سائنس میں بھی
حواس خمسہ کو ایک اہم مقام دیا گیا ہے ۔ جسم کا کوئی حصہ اگر احساس نہ کرے
تو اسےمردہ حصہ کہا جاتا ۔احساس ہی زندگی کی علامت ہے اور بے حسی مردہ کی
پہچان ہے۔ایک فالج زدہ آدمی کی سانس بھی ہوتی ہے دل بھی دھڑکتا ہے دماغ بھی
کام کرتا ہے لیکن اُس کے ہاتھ پیر کام نہیں کرتے ہیں کیونکہ وہ مردہ اور بے
حس ہوچکے ہوتے ہیں ۔کسی آپریشن سے قبل بھی ڈاکٹر مریض کے آپریشن کی جگہ کو
بے حس کرتے ہیں تاکہ تکلیف کا احساس نہ ہو اور وہ اپنا کام صحیح سے کر سکیں۔
آج اگر ہم اپنی حالت کو دیکھیں اور اپنے معاشرے پہ نظر ڈالیں تو یہی اندازہ
ہوگا کہ احساس جو کہ زیست کی علامت ہے ختم ہو چکا ہے ۔باتیں لمبی لمبی
نصیحت لمبی لمبی مشورہ بڑے سے بڑا اور علم اور معلومات کا مظاہرہ اور
تبادلہ جدید ٹیکنالوجی کے زرائع کی بدولت صبح شام ہورہا ہے لیکن عمل کے
میدان میں مردہ اور بے حسی کے انتہائی درجے پہ نظر آئیگا ۔
قرآن کریم میں اللہ پاک کا ارشاد ہے ! اے لوگوں وہ بات کیوں کرتے ہو جو
کرتے ہی نہیں ہو۔ بھائی کو بھائی سے محبت نہیں کوئی ہمدردی نہیں ،دل نفرت
بغض عداوت سے بھرا ہوا ہے ۔بیٹا اپنے ماں باپ کو نہ کوئی مقام دیتا ہے نہ
اپنے پیدا کرنے والے والدین کی اسے قدر ہے نہ ہی اُن کا احساس ہے ۔والدین
اگر مال و دولت رکھتے ہیں تو دولت اور وراثت کے لالچ میں کسی حد تک تو توجہ
کے مستحق ہوتے ہیں ورنہ ایک بوجھ اور مصیبت ہوتے ہیں ۔ ہر طرف بے حسی کا
عالم ہے ۔کسی کو کسی کا احساس نہیں ۔جس وطن میں رہتے ہیں اور تمام فائدے
سمیٹ رہے ہوتے ہیں ، اس کی ہی ہے بربادی کے کام میں مصروف ہیں اور اس کو
بدنام کرنے کا کام دشمنوں سے مل کر اور اپنے ہر عمل سے کررہے ہیں ۔ کبھی ہم
نے سوچا ہے کہ میرے عمل سے میری زات سے میرے گھر کے افراد کو میرے شہر کے
رہنے والوں کو یا میرے وطن کو یا میرے دین کو کوئی فائدہ بھی پہنچ رہا ہے
یا ہم مردہ اور بےحس کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔ افسوس تو یہ ہے کہ باتوں میں
ہم سے زیا دہ کوئی احساس رکھنے والا اور درد رکھنے والا کوئی دوسرا ہو ہی
نہیں ہوسکتا ۔کیا اللہ کو ہماری باتیں چاہیے یا ہمارا عمل چاہیے۔ اگر ہمارے
دلوں میں اللہ کا خوف ہو تو ایسا ہرگز نہیں ہوگا ۔اگر ہمیں یہ احساس ہو کہ
کسی سے بھلائی کرنے سے اللہ پاک ہم سے خوش ہونگے اور برائی یا ظلم کرنے سے
اللہ کا عذاب ہم پہ نازل ہوگا ، اللہ کی رضا میں ہی ہماری کامیابی ہے اور
اللہ کی ناراضگی میں دنیا اور آخرت دونوں جگہ ذلت و رسوائی ملے گی تو ہمارا
یہ احساس کبھی مرے گا نہیں۔ایک گھر میں ایک چھت کے نیچے رہ کر اور ایک ملک
میں ایک جھنڈے تلے رہ کر ایک دوسرے کو تباہ و برباد کرنے کا کوئی کام خواہ
کتنا ہی فائدہ مل رہا ہو کبھی نہیں کریں گے ۔ آخر ہم کو ایک دن مرنا بھی ہے
اور اللہ کو جواب بھی دینا ہے۔ صبح شام ہر پل اپنے عمل پہ غور کرنا چاہیے ،
اپنا احتساب کرنا چاہیے ، قبل اِس کے کہ ہماری پکڑ شروع ہوجائے اور ہمارا
احتساب اللہ کے یہاں شروع ہوجائے۔
شکریہ |