حیدرآباد فرخندہ ہال ایک بار پھر
دلدوز دھماکوں سے لرز اٹھا‘ایک بار پھر وہ امن و آشتی اور آپسی اخوت و محبت
کا نشان لہو لہو ہو گیا ‘ایک بار پھر شرپسندو ں میں وہاں حیوانی حرکات کر
ڈالی اورانسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ایک بار پھر ان لوگوں نے بتادیا
کہ انھیں پر امن ماحول ‘فضا اور حالات بالکل نہیں بھاتے ‘بلکہ انھیں تو خون
کی ہولی کھیلنے میں ہی راحت محسوس ہوتی ہے۔ یہ سب ہوا اور ریاستی حکومت
سمیت مرکزی حکومت تک ہاتھ پہ ہاتھ دھر ے رہ گئی ‘کھوکھلا افسوس کر کے رہ
گئیں ‘حسب سابق متاثرین و مہلوکین کے ورثا کو معاوضوں کا اعلان کر کے یہ
سمجھنے لگیں کہ ہم نے ان زخموں کو بھر دیا جو روح تک کو مجروح کر
گئے۔حالانکہ یہ موقع بڑے بڑے اعلانا ت کر نے کا نہیں بلکہ اس شرپسندی کا سر
کچلنے کا ہے جس نے ملک کا امن ‘چین اور آشتی غارت کر رکھی ہے ‘مگر کسی کو
اس کی پر واہ نہیں ہے ۔
حیدرآباد کے حالیہ سانحے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے مگر اس سے بھی زیادہ
قابل مذمت سشیل کمار شندے کا دوغلا پن ہے ‘دوہری پالیسی ہے ۔کچھ دنوں پہلے
تک وہ کہہ رہے تھے کہ ہندومہاسبھااور اس کی ذیلی تنظیمیں ہندوستان میں دہشت
گر دی کے خفیہ اڈے چلا رہی ہیں ۔ملک میں آگ لگانے کے لیے حیوانوں کو تربیت
دے رہی ہیں ۔ان اڈوں میں ملک بھر میں شرپسندی پھیلانے کے لیے پیکر تراشے
جاتے ہیں۔ وغیرہ لیکن اپنے بیان پر زیادہ دیر بھی نہیں رکے اورچند روز
بعدان کی صفائی میں بیان آتا ہے ‘’’نہیں !نہیں !میں غلطی پر تھااو اگر میرے
بیان سے کسی کو ٹھیس پہنچی ہوتو مجھے افسوس ہے‘میرے بیان کا یہ مطلب نہیں
‘وہ نہیں یہ تھا وہ تھا ۔‘‘سشیل کمار شندے کی اِس سنگھ نوازی کو کیا نام
دیا جائے ؟وہ کس کے اشارے پر کام کر رہے ہیں ؟کیا وہ اپنے عہدے سے انصاف کر
رہے ہیں ؟کیا وہ اپنے منصب کے اہل ہیں ؟یہ اور اس جیسے وہ سوال ہیں جنھیں
آج ہر وہ حساس شخص پوچھ رہا ہے جسے ملک اور وطن سے پیار ہے اور وہ شرپسند
عناصر کے ساتھ ساتھ فسادفی الارض کو بالکل برداشت نہیں کرتا۔مگر ان سوالوں
کا جواب وہ لوگ کیا دیں گے جو گر دن گر دن بد عنوانی میں غرق ہیں اور ملک
میں انارکی و تشدد پھیلانے والوں کی پشت پناہی کر تے ہیں۔
یہ سچی حقیقت لکھتے ہو ئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں کہ ’حیدرآباد‘ پھر ظالموں
کا نشانہ بن گیا۔ ابھی مکہ مسجد ‘لمبنی پارک‘رنگ روڈاور دیگر دھماکوں کے
زخم بھر نے بھی نہیں پائے کہ حیدرآباد پھر لہو لہو ہو گیا اور اس مر تبہ
پہلے سے زیادہ تباہی دنیا نے دیکھی۔سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 14 بے قصور
افر اد ہلاک اور 85زخمی ہو گئے ۔تین طاقت ور بم دھماکوں نے خون کی بارش
کردی اور عینی شاہدین کے مطابق لاشیں سڑکوں پر بکھری نظر آئیں ۔انسانیت کے
دشمنوں اور تخریب کار فسطائیوں نے ہمیشہ کی طرح بھیڑ بھاڑ والے مقامات کو
نشانہ بنایا اور اپنی خونی ذہنیت کو تسکین پہنچا ئی ۔انھیں ذرا بھی اس بات
کا احساس نہیں ہوا کہ ان کا شرپسندانہ عمل کتنا افسوس ناک ہے ۔گھروں میں
بچے انتظارکر رہے ہوں گے کہ ہمارے پاپا‘آئیں گے‘اب شام ہو گئی ‘آنے والے
ہیں مگر ان کی لاش دیکھ کر ان پر کیا گذر ی ہو گئی۔انھیں ذرا بھی خیال نہیں
آیا کتنے لوگ اپنے گھرو ں کے چراغ ہیں ‘ان کے دم پر خاندان جی رہا ہے ‘وہ
چراغ بجھ گیا ‘وہ لوگ کس قیامت سے دوچار ہو رہے ہیں گے اور سب سے بڑی بات
شرپسندوں نے یہ خیال نہیں کیا ان کی شرپسندی حید رآباد کی ہی نہیں بلکہ
ملکی سا لمیت کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے ۔انھیں کچھ نہیں سوجھا بس زمین کو
خون خون کر کے چلے گئے۔
سب سے بڑے دیکھ کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب ہوا اور مرنے والے مر گئے مگر اس
سے پہلے کہ ان مذموم حرکات کی تفتیش ہو ‘اندھا دھنداس کا الزام مسلمانوں پر
ڈالتے ہو ئے اسے افضل گرو کے واقعے سے جوڑنے کی سازش رچ ڈالی ۔ وہ لوگ جو
حقیقت میں اس تباہی کے ذمے دار ہیں‘ اپنا جرم چھپانے کے لیے بڑے پیمانے پر
واویلا مچا رہے ہیں اور ثبوت کے نام پر ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔مسلمان ایک
بار پھر انٹلیجنس اور خفیہ ایجنسیوں کے نشانوں پر آگئے اور ایک بار پھر ملک
کی تئیں ان کی وفاداریاں مجروح ہوگئیں ‘حالانکہ ان دھماکو میں قریب 5مسلمان
بھی مارے گئے ہیں لیکن اُس غلط ذہنیت ‘یا سازشی فکر کے لیے کیا کیا جائے جو
پہلے دن سے ان طاقتوں کے دماغ سے چمٹ کر رگئیں ہیں اورایسا لگتا ہے وہ کبھی
نہیں مٹ سکتی چا ہے ان کے سامنے مسلمانوں کی لاشوں کے کشتے کے پشتے لگا دیے
جائیں ۔
ایک صرف حیدرآباد کے واقعے پر ہی منحصر نہیں ہے بلکہ یوپی اے II کے پہلے دن
سے ہی ایسے ناتھمنے والے واقعوں کا سلسلہ جاری ہے ۔بلکہ کچھ وقعات تو حکومت
کی ناک تلے انجام دیے گئے اور وہ مبینہ ظالموں کی شناخت کے باوجود کچھ نہ
کر سکی۔وہ اپنی غلط کاریوں پر انگلی اٹھانے والے کسی مسلمان کا’ ہاتھ‘
توڑنے کو تو تیار ہے مگر اس کے ملک کو جہنم میں تبدیل کر نے والو ں کے خلاف
کارروائی کر نے اسے ڈر لگتا ہے اور شرپسندوں کو شرپسند کہنے تک سے ہول آتا
ہے ‘اگر غلطی کو ئی کہہ بھی دے توبہت جلد بیان بدل دیا جاتا ہے۔
احساس
حیدرآباد پھر لہو لہو ہو گیا اور اس مر تبہ پہلے سے زیادہ تباہی دنیا نے
دیکھی۔سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 14 بے قصور افر اد ہلاک اور 85زخمی ہو
گئے ۔تین طاقت ور بم دھماکوں نے خون کی بارش کردی اور عینی شاہدین کے مطابق
لاشیں سڑکوں پر بکھری نظر آئیں ۔انسانیت کے دشمنوں اور تخریب کار فسطائیوں
نے ہمیشہ کی طرح بھیڑ بھاڑ والے مقامات کو نشانہ بنایا اور اپنی خونی ذہنیت
کو تسکین پہنچا ئی ۔انھیں ذرا بھی اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ ان کا
شرپسندانہ عمل کتنا افسوس ناک ہے ۔گھروں میں بچے انتظارکر رہے ہوں گے کہ
ہمارے پاپا‘آئیں گے‘اب شام ہو گئی ‘آنے والے ہیں مگر ان کی لاش دیکھ کر ان
پر کیا گذر ی ہو گئی۔انھیں ذرا بھی خیال نہیں آیا کتنے لوگ اپنے گھرو ں کے
چراغ ہیں ‘ان کے دم پر خاندان جی رہا ہے ‘وہ چراغ بجھ گیا ‘وہ لوگ کس قیامت
سے دوچار ہو رہے ہیں گے |