بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس دنیا
میں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ۔لیکن انہیں معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ
یہاں کس لئے آئے ہیں ؟اﷲ تعالی نے انہیں کیوں دنیا میں بھیجا ہے ؟بلکہ اس
سوال کا جواب تلاش کرنے میں کچھ بھی محنت نہیں کرتے ۔
لیکن ان کا مقصد مال سمیٹنا اور کھانے پینے اور اپنی دوسری ـضروریات کو
مامون بنانا ہوتا ہے ۔وہ دوسروں کی طرح شادی کرتے ہیں اور بچے پیدا کرتے
ہیں تاکہ دنیا میں ان کے مستقبل کی ضمانت کی خاطر اس کی تگ و دومیں اضافہ
ہو جائے ۔دھیرے دھیرے ان کی عمر گزرتی رہتی ہے ۔وہ سمجھتے ہیں کہ اس نے
زندگی میں اپنا رول ادا کردیا یہاں تک کہ اﷲ انہیں موت کی آغوش میں سلادیتا
ہے تاکہ وہ یک بیک حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ۔اﷲ تعالی کا ارشاد ہے
’’یقیناً تو اس سے غفلت میں تھا لیکن ہم نے تیرے سامنے سے پردہ ہٹا دیا
ہے۔پس آج تیری نگاہ بہت تیز ہے ‘‘(سورہ ق :۲۲)جبکہ ہم انسانوں کا وجود اس
دنیا میں محض کھانے پینے شادی کرنے اور اولاد پیدا کرنے کیلئے نہیں ہوا ہے
بلکہ اس عظیم ذمہ داری کیلئے ہوا ہے ،جس کے حامل آسمان و زمین بھی نہ ہو
سکے ۔بلکہ اس کو اٹھانے سے انکار کر دیا ۔قرآن میں اﷲ تبارک تعالی فرماتا
ہے ’’ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر ،زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب
نے اس کو اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے ،مگر انسان نے اسے اٹھا
لیا ،وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے (سورہ الاحزاب :۷۲)دراصل خدا تعالی کی عبادت
کا امتحان ہے اور یہ اﷲ کی مشیت ہے کہ اس نے زمین کو اس امتحان کیلئے بطور
امتحان گاہ منتخب فرمایا ۔اﷲ تعالی ہمیں آزما رہا ہے کہ کون ہے جو نیک
اعمال والا ہے ۔
چنانچہ وہ بعض لوگوں کو مال،صحت ،منصب وغیرہ جیسی چیزیں عطا کرتا ہے اور
بعض کو ان چیزوں سے محروم کر دیتا ہے ۔اس کی نوازش کا مقصد شکر ہوتا ہے اور
اس کے محروم کرنے کا مطلب صبر کا امتحان ہوتا ہے ۔تو جس کو ان نعمتوں سے
محروم کر دیا گیا ہو اور اس نے صبر سے کام لیا تو وہ امتحان میں کامیاب ہو
گیا ،چنانچہ ایک صالح اور نیک بندہ ہر قسم کی نوازش کا خیر مقدم کرتا ہے
اور اس کا شکر ادا کرتا ہے ۔قرآن میں ہے کہ ’’بلکہ یہ آزمائش ہے لیکن ان
میں سے اکشر لوگ بے علم ہیں (الزمر :۴۹)لیکن انسان آج اپنے آپ کو مالک
کہلوانا پسند کرتا ہے اور اپنے ماتحت کا مالی استحصال کرتا ہے دینی تعلیم
یافتہ مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ مزدور کی مزدوری پسینہ سوکھنے سے قبل نہیں
دیتا ہے بلکہ وہ اﷲ کے بندوں کے صبر کا امتحان لیتا ہے اور اگر کسی نے
تقاضہ کر دیا تو بس وہ ناکارہ فلک قرار دیا جاتا ہے ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ
وہ غفلت میں ہے ۔وہ زبان حال سے خدائی کی نافرمانی کرتا ہے کیونکہ وہ جہالت
میں مبتلا ہے ۔
جبکہ کہ اﷲ تعالی ہم کو یاد دہانی کراتا ہے کہ کوئی بھی دنیا کی کسی چیز کا
مالک نہیں ہے ۔ہر نوازش واپس لے لی جائے گی،اور عنقریب ہم یہاں سے نکل
جائیں گے ،جس طرح ہم یہاں آئے تھے ۔پھر اﷲ تعالی ہی اس زمین اور اس زمین پر
موجود سونے چاندی اور تمام قسم کی دولت کا وارث ہوگا ۔تب تو ہم کو صرف یہی
قول دہراتے رہنا چاہئے کہ ’’بے شک ہم اﷲ ہی کیلئے ہیں اور اسی کی طرف پلٹ
کا جانا ہے ۔ |