اے مرد ناداں

اے مرد ناداں تجھ پر کلام نرم و نازک بے اثر۔ جس نے اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی نہ پایا تو پھر کیا پایا۔ مسلمان کا وجود کائنات میں توحید کی امانت ہے۔ تمہارے پاس وہ کلام ہے جو خالق کائنات کا کلام ہے، جو نصیحت ہے۔ یہ وہ کلام ہے کہ جسے سن کر مشرک کانوں میں انگلیاں ڈالتے اور چادریں کمبل اپنے اوپر لپیٹ لیتے کہ کہیں یہ کلام ہمیں اپنے بتوں سے متنفر نہ کردے۔ جنوں نے سنا تو ٹھٹھک کر کھڑے ہوگئے کہ ایسا کلام تو کبھی نہ سنا۔ دل حق شناسا ہوئے اور نور ایمان و عرفاں سے جگمگا اٹھے۔ صدیوں بعد بھی اپنی معجزہ نمائی میں ذرا تبدیل نہ ہوا۔اے مرد مسلماں اپنے اس قیمتی سرمایہ کی قدر کر۔ آج تجھے لوگ جاہل، پینڈو، دوسروں کا مقلد، نقال، محتاج، غیر ترقی یافتہ اور اب تجھے دہشت گرد ہونے کا طوق پہنادیا گیا ہے، غرضیکہ کیا کچھ کہتے ہیں ۔ اس کی اصل وجہ تیری قرآن اور صاحب قرآن رسول الثقلین ﷺ سے روگردانی ہے۔ دھیلے دھیلے کے کفار و مشرکین نے تجھے بھیڑ بکریوں کی طرح آگے لگایا ہواہے۔ تجھے ٹکوں میں خرید کر معصوم بچوں ، عورتوں اور بے گناہ افراد کا خون بہانے پر لگا دیا ہے۔ کیا یہی تیری شان ہے۔ نہیں ہرگز نہیں ۔ قرآن کو پڑھ جہاں تیرا اعزاز امت وسط لکھا ہے، جہاں تو ایک لاکھ چوبیس ہزار امتوں پر شاہد ہے۔ تیری خود کہاں گئی۔ کیا تو وہی مسلماں ہے کہ تیری آنکھوں میں شان نہ جچتی تھی جہانداروں کی۔ میں گذارش کروں گا کہ تم وہی ہو مگر تمہاری عادتیں خصلتیں بدل گئی ہیں۔ زیر آسماں اگر روشن راہیں دکھائیں تو وہ تمہارے آبا ہی تھے،انکی عادت دورنگی نہ تھی وہ یک رنگ تھے۔ حق اور باطل دونوں بالکل واضح ہیں ۔ انکی مغائرت میں کوئی اشتباہ نہیں۔ کفار کے ساتھ یگانگت یا ہم آہنگی کے راگ الاپو گے تو یہی نتائج نکلیں گے جن سے آج پوری مسلم امہ عمومی اور پاکستان خصوصی طور پر دوچار ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ نکلنے کی کوئی سبیل بظاہر نظرنہیں آتی۔

لیکن مایوسی قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے۔ہرتنگی کے ساتھ آسانی اورہر آسانی کے ساتھ تنگی ہے۔ اللہ تعالی کو اپنے حبیب پاک ﷺ کے ساتھ بے وفائی یا انکی ذات اقدس کو نظر انداز کرنا قطعا پسند نہیں۔ اور آپ ﷺ کے مخالفوں اور بے ادبوں کا بدترین انجام ہوا ۔

وطن عزیز میں قتل و غارتگری اور لاقانونیت کی بنیادی وجہ تو درج بالا سطور میں میں نے کردی۔ دوسری وجہ وطن عزیز میں وقتا فوقتا حکمرانوں کی اصول حکمرانی سے ناواقفیت ۔ ہمارے یہاں جتنے بھی حکمران برسر اقتدار آئے انہوں نے ملک اور قوم کا تشخص قائم کرنے کے بارے کوئی اقدامات نہیں کیئے۔ غیر مساویانہ پالیسیوںنے حسد و عناد کو جنم دیا جو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ پھیلتا گیا۔ معاشی ناہمواری اور وسائل پر قبضہ ہر ایک نے اپنی بساط کے مطابق کیا۔ عوام کو ایسے جانور کی حیثیت دی کہ جو مالک کی صرف خدمات سرانجام دے سکتاہے اپنے کسی حق کا مطالبہ نہیں کرسکتا ۔پولیس، عدلیہ، بیوروکریسی، افسر شاہی اور ایوانہائے اقتدار نے عوام کا استحصال کیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی ۔ بڑے سرمایہ دار، بیوروکریٹس، کارخانہ دار، جرنیل اور عدلیہ پر مغربی پاکستان والوں کا قبضہ تھا۔ آبادی کے لحاظ سے مشرقی پاکستان اکثریتی صوبہ تھا مگر اسکے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا وہ کسی اقلیتی طور سے کم نہ تھا۔ پاکستان کے وسائل کم تھے تو آبادی بھی کم تھی۔

علماءدین میں سے بھی چند ایک کے سوا سبھی کی چاندی ہوتی رہی۔ مدرسوں کے نام پر مال حاصل کرکے وہی کچھ کیا جو دوسرے سیاستدان کررہے تھے۔ کسی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ نئی نسل کو بامقصد نصاب تعلیم ہی دے دیتے۔ لیکن تعلیم میں بھی بے ایمانی کا جوہر شامل تھا جو آج بھی ہے۔ ایک ملک ہے مگر اس میں کئی طرز کا نظام تعلیم ہے۔ اس طرح نفرتیں بڑھتی گئیں۔ اللہ اور رسول کی تعلیمات سے حکومتی سطح پر اعراض واضح طور پر موجود ہے۔ ایک اور وجہ کہ ہندوﺅں اور صلیبیوں (امریکہ اور اسکے اتحادیوں) کی پالیسیوں کی پذیرائی کی گئی۔

سیاستدان، حکمران اور سرمایہ دار طبقہ پیٹ درد کی گولی لینے برطانیہ یا امریکہ جاتے ہیں۔ عوام یہ دیکھ کر سوچتے ہیں کہ پاکستان بھی کوئی ملک ہے جہاں صحت اور تعلیم کی کوئی سہولت موجود نہیں اگر ہوتی توبڑے لوگ باہر کیوں جاتے۔ اندر کی کہانیاں اس دور میں پوشیدہ نہیں رہتیں۔ کس حکمران نے قومی خزانے کو کتنا لوٹااور ملکی وسائل پر کتنا قبضہ کیا۔ دوسری طرف عوام کو روٹی دال کے چکر میں ڈالا۔ سی این جی سٹیشن لگوائے پھر گیس بند کی پھر لائینیں لگوائیں۔ اگرآٹا ہے تو آگ نہیں ۔ سات روپے کی روٹی لے کر مزدور کس طرح اپنے اہل خانہ کا پیٹ بھرے ۔ کتنے لوگوں نے محض غربت کی وجہ سے اپنے خاندانوں کو قتل کر ڈالا۔ جب ملک ایسی بے بسی سے دوچار ہوا تو اسلام دشمن قوتوں نے موقع کو غنیمت جان کر ایسے بد بخت تلاش کرلیئے کہ جنہوں نے انتہائی ناعاقبت اندیشی کا ثبوت دیا اور عوام کا قتل عام شروع کردیا۔ اگر انہوں نے قرآن اور حدیث کی تعلیم حاصل کی ہوتی تو چند رپوﺅں کی خاطر جہنم نہ خریدتے۔ کیونکہ قرآن کریم میںاللہ کا فرمان ہے کہ جو کوئی جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کرے گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ سرور عالمین ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ پھر فرمایا کہ جس نے ہم پر ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ غرضیکہ کہ اسلام کی تعلیمات میں کوئی ابہام نہیں ۔ مسلمان ایک جسم کی مانند قرار دیئے گئے۔ اب موجودہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں۔ کراچی میں محض دہشت پھیلانے کے لیئے کسی بھی انسان کو پکڑ کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برسراقتدار لوگوں کا کیا فرض ہے؟ اگر وہ مخلص مسلمان ہوتے تو سمجھتے کہ کسی مسلمان کا قتل ہونا پوری امہ کا قتل ہے۔ لاقانونیت کا مقابلہ کرنے کے لیئے اور امن و امان قائم کرنے کے لیئے ادارے موجود ہیں ۔آج تک انکی کیا کارکردگی ہے۔ کہنے کو حکومت نے ہزاروں قوم دشمن عناصر کو گرفتار کیا ہے۔لیکن وہ کہاں ہیں؟ اگر انہیں اپنے کیئے کی سزا ملتی تو اس طوفان قتل و غارتگری میں کمی آتی۔ حکمران پوری طرح اس میں ملوث ہیں اور وقت آئے گا جب ان لوگوں سے بے قصور لوگوں کے خون کا قصاص طلب کیا جائےگا۔ اربوں روپے جو لوگ تنخواہوں کی صورت میں وصول کرتے ہیں وہ بتائیں کہ انہوں نے اس ملک کے عوام کے قاتلوں کے خلاف کیا کیا ہے؟ کوئٹہ ہو یا پشاوریا کراچی یا کوئی اور جگہ مسلمان تو مسلمان غیر مسلم کا بھی اس طرح خون بہانا اسلام میں جرم ہے ۔بعض مقامات پر ایک مکتبہ فکر کے لوگوں کو ظالمانہ کاروائیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ حکومت نے وہاں اپنی بے بسی یا بے ایمانی کو چھپایا۔ اگر وہ علاقے فوج کے حوالے کردیئے جائیں تو انسانی جانوں کو تحفظ مل سکتا ہے۔ ہندو دوستی اچھی نہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف ہندوﺅں نے سرحدی خلاف ورزیاںکرتے ہوئے ہمارے فوجی شہید کیئے حد یہ کہ ایک جوان غلطی سے سرحد پار گیا تو اسے بھی شہید کردیا گیا۔ہندو کی مسلم دشمن کے یہ بین ثبوت ہیںلیکن دوسری طرف آئے دن ہندووزیر اور افسران پاکستان کو اپنا گھر سمجھتے ہوئے روز پاکستان میں آرہے ہیں۔ دوسری طرف امریکی ایجنٹوں کی کاروائیاں جاری ہیں ۔ جب تک ہندو اور امریکہ کا عمل دخل ہمارے ہاں ختم نہیں کیا جاتا مسلمانوں کی جانوں کو تحفظ نہیں مل سکتا۔ مسلمانوں کے مسلمہ فرقوں کو کوئی صفحہ ہستی سے مٹا نہیں سکتا۔ مسلمان سبھی ایک ہی منزل کے راہی ہیں راستے مختلف ہوسکتے ہیں لیکن اللہ ایک ، رسول ایک، کعبہ ایک قرآن ایک یہی تو اتحاد کی علامتیں ہیں ۔آخری بات کہ حل کیا ہے؟ قانون اور عدالتیں اپنا بھرپور کردار اداکریں۔ قتل و غارتگری کے مرتکب افراد کو چوکوں میں سزائے موت دی جائے، بھارتی اور امریکی ایجنٹو ں اور اہلکاروں کو ملک سے نکالا جائے۔ معاشی ناہمواری دور کی جائے۔ نظریاتی نظام تعلیم نافذ کیا جائے۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 140744 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More