کوئٹہ سانحے میں شیعہ مکاتب فکر
سے تعلق رکھنے والے ہزارہ برداری کے قتل عام پر پورا پاکستان سراپا احتجاج
ہوا اور ملک کے کونے کونے میں لشکر جھنگوی کےخلاف مذمتی مظاہرے، دھرنوں میں
غم و غصے کااظہار کیا گیا ،لشکر جھنگوی کو پاکستانی عسکریت پسندوں کےساتھ
روابط سے قبل ہی پاکستان وزرات داخلہ نے پرویز حکومت میں 2001ءسے کالعدم
قرار دیا ہوا ہے ۔بنیادی طور پر لشکر جھنگوی کو فرقہ وارنہ تشدد کا ذمے دار
سمجھا جاتا ہے ، تاہم پاکستانی عسکریت پسندوں کےساتھ تعاون کی بنا ءپر کچھ
ایسے واقعات میں بھی ملوث نظر آئے جو فرقہ واریت کے تناظر سے ہٹ کر ہیں ،جیسے
کراچی میں غیر ملکی تیل کمپنی کے چار امریکی اہلکاروں کے قتل کی ذمے داری
کے علاوہ ، امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا و قتل ، شیرٹن ہوٹل کراچی کے
سامنے گیارہ فرانسیسی انجینئرز کی ہلاکت ، اسلام آباد کے سفارتی علاقے
پروٹسنٹ چرچ اور تفتیشی اداروں پر حملوں کا الزام لشکر جھنگوی پر لگا۔فرقہ
وارانہ تشدد میں لشکر جھنگوی کے کردار کو تو کافی نمایاں کیا جارہا ہے لیکن
لشکر جھنگوی کے مقابلے میں سپاہ محمد نامی تنظیم کو نظر انداز کیا جا رہا
ہے ، سپاہ محمد کا قیام 1993میں آیا تھا جبکہ کالعدم سپاہ صحابہ تنظیم کی
مسلکی حریف کے طور پر سپاہ محمد پر بھی علما ءاور مساجد حملوں میں ملوث
ہونے کے الزمات عائد کئے جا تے رہے ہیں۔غلام رضا نقوی کی قیادت میں قائم
ہونے والی اس تنظیم نے بھی شدت پسندی کو اپنایا اور اپنے مخالفین کےخلاف
مسلح کاروائیاں شروع کیں ،۔اگست 2001ءمیں پرویز مشرف نے سپاہ محمد پر بھی
پابندی عائد کردی ،قومی اسمبلی کے دواراکین مولانا اعظم طارق ، مولانا
ایثار القاسمی اور ضیا الرحمن فاروقی سمیت بیشتر رہنماﺅں کے قتل کا الزام
سپاہ محمد پر عائد کی جاتا ہے۔کراچی ،کوئٹہ کے علاوہ پاکستان کے بیشتر
قبائلی علاقے شدت پسندی سے بُری طرح متاثر ہیں ، جس میں فرقہ وارانہ شدت
پسندی کے طور پر کرم ایجنسی ایک ایسا قبائلی علاقہ ہے جو فرقہ وارنہ
دہشتگردی کی بناءپر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔قیام پاکستان کے بعد
فرقہ وارنہ فسادات مختلف شہروں ، دیہاتوں اور قصبات میں ہوتے رہے ہیں ،
تاہم ان چھڑپوں میں شدت پسندی کی آمیزش وقت کےساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی اور
نظرئےے میں تشدد کا عنصر اپنے بام عروج پر پہنچ چکا ہے۔پاکستان میں فرقہ
واریت کے حوالے سے سختی کےساتھ باہمی مذہبی ہم آہنگی کو قائم رکھنے کی کوشش
کی جاتی رہی ہے ، لیکن جیسے جیسے سیاست میں مذہبی جماعتوں کا کردار بڑھنا
شروع ہوا ، تو مذہبی جماعتوں کی ذیلی تنظیموں نے بھی اپنے حلقہ اثر میں ،
پسندیدہ مذہبی جماعتوں کو کامیاب کرانے کےلئے اہم کردار ادا کرنا شروع کیا
، جس کے بعد فرقہ وارنہ تنظیموں کا کردار ، مذہبی جماعتوں پر غالب آنے لگا
، اور اب ایسا وقت آچکا ہے کہ مذہبی جماعتوں کے مسلح ونگ کے طور پر فرقہ
وارنہ تنظیموں کو سیاسی آشیرباد حاصل ہے۔ سیاست کے پھلتے پھولتے سائے میں ،
اسٹیج ، جلسوں ، دھرنوں اور مظاہروں میں کھل کر مخالف فرقے کےخلاف اظہار نے
عوامی فکر کو متاثر کرنا شروع کردیا ، جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب
کسی فرقے کے افراد کے ہلاک ہوجانے پر دیگرمسالک کیجانب سے عوامی ردعمل کم
دیکھنے میں آتا ہے۔تاہم میڈیا کے موثر کردار کی وجہ سے مصلحت آمیزی ختیار
کرتے ہوئے صرف رسمی بیانات پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔پاکستانی سیاست میں
مسلکی اورفرقہ وارانہ آزادی نے عوامی رائے کو شدید متاثر کیا ہے ، مسلمانوں
کے دوبڑے گروہ ، سنی اور شیعہ کے درمیان مسالک کا اختلاف سینکڑوں سالوں سے
ہے ، جس پر علمی مباحث و مناظروں کےساتھ تاریخ میں ہمیں ایسے حکمرانوں کا
کردار بھی نظر آتا ہے جنھوں نے فرقہ واریت کی ترویج میں اسلام کو ناقابل
تلافی نقصان پہنچایا اور امت واحدہ میں جو نفرت کا بیج بویا ، اس کا درخت
اب اتنا تناور ہوچکا ہے کہ پاکستان جیسے غریب ، مفلوک الحال ، پسماندہ
مملکت کے بس کی بات ہی نہیں ہے کہ وہ فرقہ واریت کےخلاف کوئی موثر قدم اٹھا
سکے ، حکومت میں قوت فیصلہ کی کمی کے باعث جہاں فرقہ واریت اپنے عروج پر ہے
تو وحدت کے زہرقاتل ،لسانیت اور صوبائیت پرستی نے رہی سہی کسر پوری کردی
ہے۔اگر برصغیر میں شیعہ ، سنی تعلقات پر طاہرانہ نظر دالی جائے تو کبھی بھی
ان مسالک کے تعلقات ایک جیسے نہیں ملیں گے ۔قیام پاکستان کے بعد خیبر
پختونخوا کے علاوہ ہر جگہ بریلوی مکتبہ فکر کی تعداد زیادہ تھی ،حالیہ شدت
پسندی کی لہر میں بریلوی مکتبہ فکر ست تعلق رکھنے والے متعدد مزارات کو
دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ، لیکن دیوبند اور بریلوی مسلک کے درمیان ،
پر تشدد ردعمل کی وہ کیفیت پیدا نہیں ہوئی جس کاردعمل ، عسکریت پسند چاہ
رہے تھے ، اسلئے عسکریت پسندوں کیجانب سے مسلمانوں کے دو اہم گروہوں کو
فوکس بنا کر دونوں جانب کے علما ء،مشائخ اور ذاکرین کو دہشت گردی کا نشانہ
بنانا شروع کیا گیا جس میں بتدریج اضافہ ہوتے ہوئے معصوم انسانوں کی جانوں
سے بھی کھیلنے کا سلسلہ شروع ہوگیا اور عوامی مقامات پر بم دہماکوں اور
خودکش حملوں سے سینکڑوں معصوم انسانوں کو قیمتی جان سے ہاتھ دھونا پڑے ،۔فرقہ
واریت کو ختم کرنا ، پاکستانی اداروں کےلئے ناممکن ہے اسلئے ہمیں اس بات کی
توقع نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستانی حکومت ایسا کوئی اقدام کرنے میں جرات
مندی کا مظاہرہ کرسکتی ہے کہ فرقہ واریت کے خاتمے میں موثر کردار ادا کرسکے
پائدار امن کےلئے بتدریج کچھ اقدامات ضرور کئے جاسکتے ہیں کہ فرقہ وارنہ ہم
آہنگی برقرار رکھنے کےلئے ، کالعدم تنظیموں پر رسمی پابندی کے بجائے ، عملی
پابندی بھی عائد ہو ، اور ایسی جماعتوں کے رہنماﺅں کے ملکی سیاست میں حصہ
لینے پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے، مذہبی تہواروں میں تمام
مسالک کو مذہبی بنیادوں پر یکساں پرکوٹول دیا جائے ، جلسوں ، ریلیوں اور
سرکاری تعطیلات کرنے میں تفریق کو ختم کردیا جائے اور یکساں طرز عمل تمام
مسالک کےساتھ اختیار کیا جائے۔مذہبی مقامات کا یکساں تحفظ اور تقاریر کےلئے
مخصوص مقامات تمام مکاتب فکر کےلئے مساوی رکھے جائیں ، توہین رسالت ﷺ کے
علاوہ توہین صحابہ رضوان اللہ اجمعین کا قانون بھی باہمی مذہبی مشاورت سے
بنا کر اشتعال انگیزی اور مذہبی منافرت کو کم کیا جاسکتا ہے ۔اسلامی
نظریاتی کونسل کی سفارشات پر مبنی قوانین سے بھی مذہبی افراتفرای کم کرنے
میں مدد ملے گی ۔فرقہ واریت پر مبنی بیانات اور کوریج کو میڈیا میں دکھانے
سے گریز اختیار کرنے سے بھی ماحول میں مثبت روئے اورفرقہ واریت کےخلاف ٹھوس
اقدامات سے ہی امن قائم ہوسکتا ہے۔ |