پیار انسان کی ضرورت ہے۔

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو
ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
کہتے ہیں کہ جنگل میں ایک درخت اکیلا تھا اور اس کے آس پاس کوئی دوسرا درخت نہیں تھا۔ وہ ہم جنس کو دیکھنے اور اس سے بات کرنے کو ترستا تھا اور تنہائی کے غم سے سوکھتا جارہا تھا ۔ا سے کوئی پھل پھول نہیں لگتا تھا حالانکہ بارشیں بھی ہوتی تھیں۔ اس کی شکستگی کی وجہ یہ تھی کہ اسے کوئی ساتھی اور کوئی پیار نہیں ملا تھا۔ اسی طرح سمندر میں سے ایک آوارہ بادل اٹھا اور چلتا رہا، چلتا رہا لیکن اسے کوئی دوسرا بادل نہیں ملا سو وہ تنہائی کے غم میں ہوا میں تحلیل ہو کر رہ گیا اور کہیں بارش نہ برسا سکا۔ اسی طرح باغ میں ایک بلبل رہتا تھا۔ چونکہ وہ اکیلا رہتا تھا سو وہ پھولوں کو دُکھڑے سناتا تھا کہ اسے کوئی دوسرا ساتھی نہ ملا تھا ۔ اس طرح بجلی کا نیگیٹو )منفی( بار تار میں بہت دوڑا لیکن اس کو اس کا ساتھی پازیٹو )مثبت( بار نہیں ملا اس لیے وہ روشنی پیدا نہیں کر سکا۔
کلا بندا ہووے بھانویں کلا رکھ نی
دوواں کلیاں نوں ہوندا بڑا دکھ نی

کہتے ہیں کہ ایک باپ نےاپنے پیارے پیارے بیٹے کو جنگل میں شکار کرکے لانے کو بھیجا لیکن وہ لڑکا واپسی کا راستہ بھول گیا اور باپ کے پاس واپس جانے کی خواہش میں رونے لگا کیونکہ اسے کوئی راہبر نہیں مل سکا تھا جو اسے راستہ دکھاتا اور وہ اپنے باپ کے پاس پہنچتا۔ وہ ہر صورت میں اپنے باپ کے پاس پہنچنا چاہتا تھا لیکن اسے راستہ ہی نہیں مل رہا تھا۔ کافی دیر کے بعد اسے کچھ آدمی آتے ہوئے دکھائی دیے۔ جب وہ لوگ اس کے پا س آ گئے تو اس نے ان کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا اور ایک ایک کو کہا کہ بھائی میں نے فلاں گاوَں جانا ہے، میں راستہ بھول گیا ہوں، مجھے راستہ بتلا دو۔تو ان میں سے ایک نے کہا کہ اگر تو ہندو (Hindu)ہے تو میں تجھے راستہ بتلاتا ہوں۔ اس لڑکے نے کہا کہ نہیں، میں بس ایک انسان ہوں، تو ہندو نے کہا کہ جا، میں تیرے کوئی کام نہیں آ سکتا۔دوسرے نے کہا کہ اگر تو بدھ(Buddhist) ہے تو میں تمہاری راہبری کر سکتا ہوں۔ اس لڑکے نے کہا: نہیں، میں صرف ایک انسان ہوں۔ تیسرے نے کہا کہ اگر تو سکھ (Sikh) ہے تو میں تمہیں راستہ بتلا سکتا ہوں۔ لڑکے نے کہا: نہیں، میں صرف ایک انسان ہوں۔چوتھے نے کہا کہ اگر تو عیسائی(Christian) ہے تو میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں۔ پانچویں نے کہا کہ اگر تو یہودی(Jew) ہے تو میں تمہیں راہ دکھلا سکتا ہوں۔ چھٹے نے کہا کہ اگر تو مسلمان(Muslim) ہے تو میں تمہیں تمہارے گھر پہنچا سکتا ہوں۔ ساتویں نے کہا کہ اگر تو پارسی(Zoroastrian) ہے تو میں تجھے تیرے گھر تک لے جا سکتا ہوں اور آٹھویں نے کہا کہ اگر تو دہریہ(Atheist) ہے تو میں تیرا مسئلہ حل کر سکتا ہوں لیکن لڑکے نے سب کو ایک ہی جواب دیا کہ بھائی میں فرقے نہیں جانتا، میں تو صرف ایک انسان ہوں۔ میری مدد کرو۔ وہ سب ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ اے فلاں، یہ تیری طرح کافر ہے، تو اس کی مدد کر اور دوسراشخص اسے کہتا کہ کافر تو ہے، تیرا باپ ہے۔ اس طرح وہ سب آپس میں لڑنے لگے اور وہ لڑکا الگ کھڑا تماشہ دیکھنے لگا۔قصہِ مختصر ،کسی نے اس کی راہنمائی نہ کی اور یوں وہ لڑکا بے یارومددگار کھڑا رہا اور سب اپنا اپنا راستہ لے کر چلے گئے۔

دوسری طرف باپ بیٹے کے واپس نہ آنے کی وجہ سے کافی پریشان ہوا اور اس کو ڈھونڈنے کیلئے جنگل کی طرف روانہ ہوا ۔ بڑی تگ و دو کے بعداس نے جنگل میں پھنسے ہوئے بیٹے کو ڈھونڈ نکالا۔ دونوں پہلے تو ایک دوسرے کو دیکھتے رہے ، پھر گلے لگ کر خوشیاں منانے لگے۔ باپ نے پوچھا کہ تو گھر جلدی واپس کیوں نہ آیا تو بیٹے نے کہا کہ میں راستہ بھٹک گیا تھا۔ کچھ لوگ مجھے ملے تھے لیکن وہ راستہ بتانے کے بجائے مجھے اپنے اپنے فرقےپر لانا چاہتے تھے لیکن میں نہ مانا اس لیے وہ چلے گئے۔ بلکہ آپس میں ایک دوسرے کو کافر کہہ کر لڑتے رہے اور پھر چلے گئے۔

دیکھو، خدا شروع سے اکیلا تھا، اس نے کائنات بنائی۔ پھر دوسری مخلوقات بنائیں اور پھر اپنے نور میں سے ایک نورجدا کر کے انسان بنایا اور اسے دنیا جنگل میں بھیج دیا۔ اب انسان دنیا میں رہ کر باپ کو بھول چکا ہے اور اسے واپسی کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ سب انسان ایک دوسرے کو جنت اور حوروں کے لالچ میں آ کر اور دوزخ کے ڈر سے کافر کہہ رہے ہیں اور خدا )باپ( کو بھولے ہوئے ہیں۔ انہیں سب کافر نظر آتے ہیں۔ کون انہیں حقیقت سمجھائے، وہ کس کی بات مانیں گے؟ کون بچا ہے؟ البتہ میں تو سب کو بھائی ہی کہتا ہوں اور پیار کرتا ہوں اور میں کسی سے لڑائی نہیں کرتا۔

دیکھو، کوئی مانے یا نہ مانے، انسان پیار کا بھوکا ہے۔ اس کی روح اپنے خالق سے بچھڑ کر اسے تلاش کر رہی ہے۔ اور جہاں سے بھی اسے پیار ملتا ہے تو یہ اس پر قربان ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی اس سے پیار نہ کرے تو یہ اس اکیلے درخت کی مانند سوکھ جائے۔ اکیلے بادل کی طرح آوارہ پھر پھر کر ہوا میں تحلیل ہو جائے اور بارش نہ برسا سکے۔ اکیلے بلبل کی طرح گھٹ گھٹ کر مر جائے۔ اور بجلی کے اکیلے نیگیٹو )منفی( بار کی طرح روشنی پیدا نہ کر سکے۔ اور اکیلے لڑکے کی طرح باپ )خدا( سے نہ مل سکے تاوقتیکہ باپ اس کو خود نہ ڈھونڈ لے۔ اگر میاں بیوی کو، والدین اور اولاد کو ,بھائی بہنوں کو ، دوستوں کو، انسانوں کو ایک دوسرے سے محبت نہ ہو تو اس زندگی کا کیا فائدہ۔ زندگی چلتی ہی باہم احترام سے ہے۔

لوگو، انسانوں پر رحم کرو۔ نفرتیں اور دشمنیاں چھوڑ دو اور ایک دوسرے سے انسان ہونے کے ناطے بے لوث محبت کرو کہ یہ ہماری ضرورت ہے۔ اسی میں ہماری بھلائی ہے، اسی میں امن و سکون ہے, اسی میں ہماری نجات ہے۔۔
Talib Hussain Bhatti
About the Author: Talib Hussain Bhatti Read More Articles by Talib Hussain Bhatti: 33 Articles with 52004 views Talib Hussain Bhatti is a muslim scholar and writer based at Mailsi (Vehari), Punjab, Pakistan. For more details, please visit the facebook page:
htt
.. View More