از:پروفیسر فاروق احمد صدیقی
قطب الاقطاب ،فردالاحباب، غوث اعظم، استاذ شیوخ عالم، شیخ الاسلام، حضرت
شیخ سید سلطان محی الدین ابو محمد عبد القادر الحسنی والحسینی جیلانی علیہ
الرحمہ اہلبیت نبی میں سے کامل ولی ، اور سادات حسین میں بزرگ شخصیت کے
مالک ہیں…… آپ قطبِ وقت، سلطان الوجود، امام صدیقین ، حجت عارفین ،روح
معرفت، قطب حقیقت ، زمین پر اﷲ کے خلیفہ ، وارث کتاب، نائب رسالت مآب ،جن
کا وجود نورانی ہے۔ اور سلطان طریق ہیں، اور حقیقی نور سے وجود وجسم پر
تصرف وقبضہ رکھتے تھے۔ ‘‘ یہ ہیں وہ پر شکوہ القاب وآداب اور روح پرور
فضائل واوصاف جن سے حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اپنی کتابِ
مستطاب ’’اخبار الاخیار‘‘ میں سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی غوث اعظم رضی اﷲ
المولیٰ عنہ تعالیٰ کو متصف کیا ہے، اور ان کی بارگاہ عظمت پناہ میں نذرانۂ
عقیدت ومحبت پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔(ملاحظہ ہو اخبار
الاخیار،ص:۲۹؍۳۰؍،ناشر دارالاشاعت ،مقابل مولوی مسافر خانہ بندرروڈ ، کراچی،
پاکستان)
اس طرح کے مقدس الفاظ وکلمات، حضرت غوث اعظم کے تمام تذکرہ نویسوں ، سوانح
نگاروں، جلیل القدر علمائے کرام، مشائخین عظام یہاں تک کہ اساتذۂ ذوی
الاحترام نے بھی آپ کی خداداد عظمتوں کے اعتراف میں شرح صدر کے ساتھ رقم
فرمائے ہیں۔ میں ان تمام حضرات کے اقوال وارشاد کو نقل کرکے اپنی اس تحریر
کو طول دنیا نہیں چاہتا، اور نہ آپ کی کرامتوں کا سہارا لے کر اس کا حجم
بڑھانا چاہتا ہوں کیوں کہ یہ کام بہت ہوچکا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔
میں کوشش کروں گا کہ اپنے موضوع تک ہی محدود رہوں۔ لیکن زیب داستان کے طور
پر کچھ مشہور ومعلوم وحقائق کا اعادہ ناگزیر ہے۔ مثلاً آپ مادر زاد ولی اور
مستجاب الدعوات تھے، اس میں کسی صحیح الاعتقاد شخص کو تامل نہیں اور تواور
غیر مقلدین کے فکری ومسلکی مورث اعلیٰ’’ابن تیمیہ‘‘ تک کو اعتراف ہے کہ
’’شیخ(حضرت غوث اعظم)کی کرامات حد تواتر کو پہنچ گئی ہیں۔‘‘ان میں سب سے
بڑی کرامت مردہ دلوں کی مسیحائی تھی۔ اﷲ تعالیٰ نے اپ کے قلب کی توجہ اور
زبان کی تاثیر سے لاکھوں انسان کو نئی ایمانی زندگی عطا فرمائی۔‘‘(دعوت
وعزیمت،ص: ۲۴۲؍از ابوالحسن ندوی)
جہاں تک نفس ولایت کا تعلق ہے از سلف تا خلف تمام علماومحققین کا اس امر پر
کامل اتفاق ہے کہ ظہور کرامت دلیل ولایت نہیں ہے۔ اصل چیز سنت وشریعت کا
اتباع ہے جس پر حضرت غوث پاک سختی سے کاربند ہی نہیں رہے بلکہ عمر بھر
تقریر وتحریر کے ذریعہ اس کی تبلیغ وتلقین کرتے رہے۔ آپ اپنے زمانے کے تمام
علماومشائخ میں اس جہت سے یکتا ومنفرد رہے اور آج صدیاں گزرجانے کے بعد بھی
آپ کایہ انفراد وامتیاز قائم ہے۔ آپ خود بطور تحدیث نعمت فرماتے ہیں:
اَفَلَتْ شُمُوْسُ الأَوَّلِیْنَ وَشَمْسُنَا
اَبَداً عَلیٰ اُفُقِ الْعُلیٰ لَاَتَغْرُبٖ
اس شعر کے مفہوم کو امام احمد رضانے اپنے رنگ خاص میں یوں شعری پیرہن عطا
کیا ہے:
سورج اگلوں کے چمکتے تھے چمک کر ڈوبے
افق نور پہ ہے، مہر ہمیشہ تیرا
اور حضرت رضا کا یہ شعر بھی کتنا حقیقت افروز ہے :
جو ولی قبل تھے، یا بعد ہوئے یا ہوں گے
سب ادب رکھتے ہیں ، دل میں میرے آقا تیرا
اور کیوں نہ رکھیں گے، خدائے بزرگ وبرتر نے حضرت غوث الاعظم کا احترام ان
کے دلوں میں ڈال دیاہے۔ارشاد خداوندی ہے۔ ان الذین آمنوا وعملوا الصلحت
سیجعل لہم الرحمن ودا (سورۂ مریم آیت ۹۶) بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور
اچھے کام کیے عنقریب ان کے لیے رحمٰن محبت کردے گا (ترجمہ رضویہ) یعنی اپنا
محبوب ومقرب بنالے گا اور بندوں کے دلوں میں ان کی عقیدت ومحبت ڈال دے گا۔
حدیث پاک میں آیا ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ کسی نیک اور صالح بندے کو اپنا محبوب
بنا لیتاہے تو سب سے پہلے حضرت جبرئیل سے کہتا ہے کہ میں فلاں بندے سے محبت
کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر،تو جبرئیل بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں،
پھر جناب جبرئیل آسمانوں اور عالم بالا کے مکینوں میں ندا کرتے ہیں کہ اﷲ
تعالیٰ فلاں کو محبوب رکھتا ہے، تو تمام آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے
لگتے ہیں، پھر زمین میں اس کی مقبولیت اور پذیرائی عام کردی جاتی ہے۔(
بحوالہ صحیح بخاری، کتاب الادب، باب مقت من اﷲ تعالیٰ)
اس حدیث پاک کا اطلاق وانطباق تو ان تمام بزرگان دین اور مشائخ کرام پر
ہوتاہے جن کے مزارات آج بھی مرجع خلائق ہیں ، خواہ ان کا تعلق کسی بھی دیار
وامصار سے ہو، لیکن سلطان الاولیا ، سالار اصفیا ، قطب الاقطاب، محبوب
سبحانی شیخ عبد القادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ذات والا صفات پر یہ
حدیث جس طرح چسپاں ہوتی ہے اس کی بات ہی کچھ اور ہے، اور کیوں نہ ہو:
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے تیرا،ذکر ہے اونچا تیرا
تذکروں میں ملتا ہے کہ کسی بزرگ نے حضرت خضر علیہ السلام سے حضرت غوث پاک
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مقام ومرتبہ کے بارے میں دریافت فرمایا، تو آپ نے
ارشاد فرمایا: ’’ کہ اﷲ تعالیٰ نے کسی ولی کو وہ مقام عطا نہیں کیا جو مقام
بلند حضرت غوث اعظم کو عنایت فرمایا۔ یہ کسی عام شخص یا غالی عقیدت مند کی
رائے نہیں جس پر ’’پیراں نمی پرند ومریداں می پرانند‘‘ کا فقرہ چست کیاجائے
بلکہ اﷲ کا ایک برگزیدہ بندہ حضرت خضر علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے جن کی
صحبت بابرکت سے حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر نبی اور پیغمبر فیض
یاب ہوئے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہاہے:
کشتیٔ مسکین وجان پاک ودیوار یتیم
علم موسیٰ بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش
دلچسپ بات یہ ہے کہ خود حضرت غوث اعظم کو بھی اس امر کا قوی احساس اور علم
فراواں تھاکہ فضل خداوندی سے وہ تمام اولیاء اﷲ کے سر خلیل وپیشواء ہیں
جبھی تو نہایت فخر ومسرت کے ساتھ اپنے قصیدۂ لامیہ میں یوں زمزمہ سرا ہیں:
وَوَلَّانِیْ عَلٰی الَاَقْطَابِ جَمْعاً
فَحُکْمِیْ نَافِذٌ فِیْ کُلِّ حَالٖ
(سارے اقطاب جہاں پر میری حکمرانی ہے اور میرا حکم ہر حال میں نافذ العمل
ہے)
اور اس کے بعد آپ نے اپنے روحانی کمالات وتصرفات کا بڑی تفصیل سے تذکرہ
کیاہے ، جس کے مطابق سمندر ، پہاڑ، آگ اور مردہ اشخاص سب آپ کے زیر تصرف
اور تابع فرمان ہیں۔ آپ حکم فرمادیں تو سمندر کا پانی خشک ہو جائے، پہاڑ
ریزہ ریزہ ہوجائے، آتش فروزاں اپنی حدت کو بھول کر خاموش اور ٹھنڈی ہو جائے
اور بوسیدہ ہڈیاں تازہ و تواناں ہوکر دوڑتی ہوئی حاضر بارگاہ ہوجائیں، یہی
نہیں ، دن،مہینے اور سال اپنی زندگی کا سفر شروع کرنے سے پہلے آپ کو تسلیم
بجالاتے ہیں اور عزم پانے کے بعد ہی طلوع ہوتے ہیں تو یہ ہے عظمت وجلالت کا
عالم۔
اب میں آپ کی توجہ اپنے اصل موضوع کی طرف مبذول کراتے ہوئے یہ عرض کرنا
چاہوں گا کہ حضرت غوث اعظم کی قطبیت کا منصب بلند نہ تو ان کے مثالی تقویٰ
وطہارت ،زہد ورع، عبادت وریاضت، غیر معمولی مجاہدہ ومراقبہ اور شب بیداری
وآہ سحر گاہی کا رہین منت ہے اور نہ تو ان کے کسی مرشد ومربی یا شیخ کامل
کی توجۂ خاص کا نتیجہ ہے ، جیسا کہ عام طور پر بزرگان دین کی روحانی
بالیدگی اورترقی میں یہ چیزیں کلیدی رول ادا کرتی ہیں ۔ اس انکشاف سے آپ کے
آنکھوں کے سامنے حیرت واستعجاب کا عالم پھر جائے گاکہ حضرت غوث اعظم کی
قطبیت صرف اور صرف علم کی بدولت ہے، جیسا کہ وہ خود ہی بے پنا مسرت وطمانیت
کے ساتھ اعلان فرماتے ہیں :
دَرَسْتُ الْعِلْمَ حَتّٰی سِرْتُ قُطْباً
وَنِلْتُ السَعْدَ مِنْ مَّوالِی الْمَوَالِیْ
میں نے تحصیل علم کیا یہاں تک کہ قطبیت کے مقام پر فائض ہوگیا
اﷲ تعالیٰ کا یہ بڑا کرم ہے کہ اس نے مجھ کو یہ سعادت بخشی۔
حضرت غوث اعظم نے کتنے علوم حاصل کیے اور ان میں کتنی فنی مہارت حاصل کی اس
کا اندازہ واحاطہ کون کرسکتاہے ! بس لینے والا جانے اور دینے والا جانے۔ان
کے سوانح اور ابتدائی حالات سے ہمیں فقط اتنا معلوم ہے کہ ہر علم وفن کو
انہوں نے اپنے زمانے کے بافیض وباکمال اساتذہ سے حاصل کیا۔اور ان میں
زبردست مہارت وصلاحیت پیدا کی ۔ان کے اساتذۂ کرام میں حضرت ابو الوفا ابن
عقیل۔ حضرت علامہ محمد بن حسن باقلانی اور حضرت زکریا تبریزی جیسے ائمہ فقہ
وحدیث اور اساطین علم وادب کے نام ملتے ہیں۔ گویا ان حضرات کے فیضان نظراور
مکتب کی کرامت نے حضرت غوث الاعظم کو اپنے تمام ہم عصروں اور ہم سفروں میں
یگانہ ٔروزگار بنادیا۔ اور آپ کی روحانی تعلیم وتربیت حضرت شیخ ابو الخیر
حماد بن مسلم الدباس اور حضرت قاضی ابو سعید مخرمی جیسے قدسی نفوس کی صحبت
بابرکت میں ہوئی اور سب سے بڑی بات یہ کہ ’’ قدرت خود بخود کرتی ہے، لالہ
کی حنا بندی‘‘ کے مصداق اﷲ تعالیٰ نے آپ کی ظاہری وباطنی تعلیم وتربیت خود
اپنے ذمہ کرم پر لے رکھی تھی ورنہ عام طورپر صرف درسی علوم تحصیل کرکے کوئی
شخص قطب الاقطاب، اور غوث زمان نہیں ہواکرتا ۔ ہاں کسی پر فضل خداوندی
ہوجائے اس کی بات ہی اور ہے۔ جیسے سیدنا آدم علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے
علم ہی کی بدولت ملائکہ سے افضل قراردیا۔
دَرَسْتُ الْعِلْمَ حَتَّیٰ سِرْتُ قُطْباًسے حضرت غوث اعظم کی اصل مراد
کیا ہے ؟اس کا صحیح ادراک واحاطہ ہماری بساط سے باہر کی چیز ہے ہم نے ظاہری
ترجمہ پر یقین کرکے حضرت غوث الاعظم کی قطبیت کا راز علم میں مضمر قرار
دیا۔ واﷲ اعلم باالصواب۔
ہم کو تو بس تمیز یہی بھیک بھر کی ہے۔
غوث اعظم بمن بے سروساماں مددے
قبلۂ دیں مددے کعبۂ ایماں مددے |