”اور (اے محمد ﷺ) ان کو آدم کے
دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) کے حالات (جو بالکل) سچے (ہیں) پڑھ کر سنا دو
کہ جب ان دونوں نے اللہ (کی جناب میں) کچھ نیازیں چڑھائیں تو ایک کی نیاز
تو قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی (تب قابیل ہابیل سے) کہنے لگا کہ
میں تجھے قتل کروں گا، اس نے کہا کہ اللہ پرہیزگاروں ہی کی (نیاز) قبول
فرمایا کرتا ہے۔ اور اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے مجھ پر ہاتھ چلائے گا تو
میں تجھ کو قتل کرنے کے لیے تجھ پر ہاتھ نہیں چلاؤں گا، مجھے تو اللہ رب
اللعالمین سے ڈر لگتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تو میرے گناہ میں بھی ماخوذ ہو
اور اپنے گناہ میں بھی، پھر (زمرہ) اہل دوزخ میں ہو اور ظالموں کی یہی سزا
ہے۔ مگر اس کے نفس نے اس کو بھائی کے قتل ہی کی ترغیب دی تو اس نے اسے قتل
کر دیا۔ اور خسارہ اٹھانے والوں میں ہو گیا۔ اب اللہ نے ایک کوّا بھیجا جو
زمین کریدنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیوں کر چھپائے؟
کہنے لگا اے ہے مجھ سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ اس کوے کے برابر ہوتا کہ اپنے
بھائی کی لاش چھپا دیتا پھر وہ پشیمان ہوا۔ اس قتل کی وجہ سے ہم نے بنی
اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا کہ جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی)
بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے
اُس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جو اس کی زندگانی کا موجب ہوا تو
گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا اور ان لوگوں کے پاس ہمارے پیغمبر
روشن دلیلیں لا چکے ہیں پھر اس کے بعد بھی ان سے بہت سے لوگ ملک میں حدِ
اعتدال سے نکل جاتے ہیں۔“ (سورة المائدہ: آیات 27 تا 32)
اللہ رب العزت نے سورة المائدہ میں حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا
تذکرہ تو فر مایا ہے مگر ان کے ناموں کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ قابیل اور
ہابیل کے ناموں کا ذکر مختلف اسرائیلی روایات اور تورات میں ہی ملتا ہے۔
”تاریخ سدی“ میں علامہ عمادؒ ابن کثیر سند کے ساتھ حضرت عبداللہؓ بن مسعود
اور دیگر بعض صحابہ کرامؓ سے ایک روایت بیان فرماتے ہیں کہ ”انسانی نسل میں
اضافے کے لیے حضرت آدم علیہ السلام کا ابتداءمیں طریقہ کار یہ تھا کہ حضرت
اماں حوا علیہ السلام کے پہلے حمل سے پیدا ہونے والے جڑواں لڑکے اور لڑکی
کا نکاح دوسرے حمل سے پیدا ہونے والے جڑواں لڑکے اور لڑکی سے فرما دیا کرتے
تھے۔ (اس وقت کی شریعت کے مطابق جڑواں پیدا ہونے والے لڑکے، لڑکی آپس میں
بہن بھائی متصور ہوتے تھے، اور ان کا آپس میں نکاح جائز نہیں تھا)۔ اس وقت
کی شریعت کے مطابق قابیل کی بہن کا نکاح ہابیل سے اور ہابیل کی بہن کا نکاح
قابیل سے ہونے لگا تو قابیل نے اس فیصلے پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے اس
فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ کیوں کہ قابیل کی بہن ہابیل کی بہن کے
مقابلے میں بہت حسین و جمیل اور خوب صورت تھی۔ اس پر حضرت آدم علیہ السلام
نے اس تنازع کو ختم کرنے کے لیے اس وقت رائج طریقے کے مطابق یہ فیصلہ
فرمایا کہ دونوں اپنی اپنی جانب سے اللہ رب العزت کے حضور قربانی (نذر) پیش
کریں۔ جس کی قربانی (نذر) قبول کر لی جائے، وہی اس لڑکی سے نکاح کرے گا۔
تورات کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں قربانی (نذر) کی قبولیت
کا یہ الہامی طریقہ تھا کہ قربانی یا نذر کی چیز بلند مقام پر رکھ دی جاتی
تھی۔ جہاں آسمان سے ایک آگ نمودار ہو کر اس کو جلا دیتی تھی۔ حضرت آدم علیہ
السلام کے اس فیصلے کے بعد ہابیل نے اپنے ریوڑ میں سے ایک بہترین قسم کا
دنبہ اللہ کے حضور نذر کے لیے پیش کیا جب کہ قابیل نے اپنی کھیتی کے غلے
میں سے انتہائی ردی یا خراب قسم کا غلہ قربانی کے لیے پیش کیا۔ (قربانی کے
لیے پیش کی جانے والی چیزوں کو دیکھ کر ہی دونوں کی اچھی یا بری نیتوں کا
اندازہ لگایا جا سکتا ہے)۔ اس وقت کے قانون کے مطابق آسمانی آگ نے ہابیل کی
پیش کی گئی نذر کو جلا دیا اور اس طرح اللہ رب العزت کی طرف سے ہابیل کی
نذر کو شرف قبولیت کا درجہ حاصل ہو گیا۔
قابیل نے جب دیکھا کہ اس کی نذر رد کر دی گئی ہے تو اسے یہ اپنی توہین
محسوس ہوئی اور وہ اسے بر داشت نہ کر سکا۔ اس نے غصے میں جا کر ہابیل سے
کہا کہ میں تجھے قتل کر کے ہی دم لوں گا اور ہرگز تیرے دل کی مراد پوری
نہیں ہونے دوں گا۔ ہابیل چوں کہ ایک متحمل مزاج صابر نوجوان تھا۔ اس نے
قابیل کو ناصحانہ انداز میں سمجھاتے ہوئے کہا کہ تیرے دل میں جو کچھ بھی ہے
وہ تو کر گزر۔ مگر میں اللہ رب العزت سے ڈرتا ہوں اور کسی بھی صورت تجھ پر
ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا تو اگر چاہتا ہے کہ تیرا ہی نامہ اعمال خراب ہو اور
میرا بوجھ بھی تجھ پر ہی لاد دیا جائے تو تیری مرضی۔ یاد رکھ ! اللہ کے
حضور تو صرف وہی نذر قبول ہوتی ہے جو خالص نیک نیتی کے ساتھ پیش کی جائے۔
وہ بے نیاز ہے۔ اس کے حضور کسی بد نیت کی نہ تو کوئی دھمکی کام آ سکتی ہے
اور نہ ہی بلاوجہ کسی بھی قسم کا غم و غصہ نافع ہو سکتا ہے۔
حضرت عبداللہؓ بن عمرو فرماتے ہیں : ”اللہ کی قسم ! مقتول (ہابیل) قابیل سے
زیادہ طاقت ور تھا لیکن اس کو حیا و شرم مانع رہی (یعنی روکے رکھا) کہ اپنے
بھائی کی طرف قتل کے لیے ہاتھ بڑھائے۔“ اور حضرت ابو جعفرؒ ذکر فرماتے ہیں:
حضرت آدم علیہ السلام دونوں کی قربانی (قبول ہونے یا نہ ہونے) کے بارے میں
فکر مند تھے۔ اسی وجہ سے قابیل نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا: آپ نے
ہابیل کے لیے دعا کی تھی، تب ہی اس کی قربانی قبول ہوئی ہے اور میرے لیے آپ
نے دعا نہیں فرمائی اور پھر قابیل نے ہابیل کو دھمکی دی۔ پھر جب کسی رات
ہابیل کو کھیت میں دیر ہو گئی تو حضرت آدم علیہ السلام نے قابیل کو بھیجا
کہ دیکھو کیوں دیر ہو گئی ہے؟ تو قابیل چلا گیا اور ہابیل کو پا لیا، تو
قابیل نے ہابیل سے کہا: تیری قربانی قبول ہو گئی، میری (کیوں) نہ ہوئی؟ تو
ہابیل نے کہا: اللہ عزوجل پرہیزگاروں کی قربانی قبول فرمایا کرتے ہیں۔ تو
یہ سن کر قابیل غصے میں بھڑک اٹھا اور اس کے پاس لوہا تھا اور اس سے ہابیل
کو مارا اور قتل کر دیا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ قابیل نے پتھر کی ایک چٹان
ہابیل کے سر پر مار کر اسے ہلاک کیا جب کہ ہابیل سویا ہوا تھا اور اس طرح
قابیل نے بھائی کا سر کچل دیا۔ ایک اور قول کے مطابق قابیل نے ہابیل کا گلا
گھونٹا تھا اور اس طرح اس کو کاٹا جیسے درندے کرتے ہیں، جس سے وہ مر گیا۔
واللہ اعلم۔( قصص الانبیائ: صفحہ، 67)
چوں کہ قابیل پہلے ہی اپنی نذر یا قربانی کے رد کیے جانے پر غیظ و غضب کے
عالم میں تھا۔ ہابیل نے جب اسے سمجھانا چاہا تو بجائے یہ کہ وہ اپنے بھائی
کی اس نصیحت کو سنتا اور اس پر عمل کرتا۔ اس نے عالم غیظ وغضب میں مشتعل ہو
کر اپنے ہی بھائی ہابیل کو قتل کر ڈالا۔ اب اس نے ہابیل کو قتل تو کر دیا
تھا لیکن اس کی نعش کو دیکھ کر بہت پریشان و پشیمان ہوا اور اس فکر میں
مبتلا ہو گیا کہ اس نعش کا کیا کروں؟ اسے کیوں کر اور کہاں پر چھپاؤں؟ اس
وقت تک چوں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے کسی کو موت سے ہم کنار
نہیں ہونا پڑا تھا، اس لیے اللہ رب العزت کی جانب سے بھی مردے کے بارے میں
کوئی احکامات نہیں سنائے گئے تھے۔ قابیل ہابیل کو قتل کرنے کے بعد حیران
کھڑا تھا کہ یکا یک اس نے دیکھا کہ ایک کوا زمین کو کرید کرید کر گڑھا کھود
رہا ہے تو اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ مجھے بھی اپنے بھائی کی نعش کو
چھپانے کے لیے اسی طرح گڑھا کھودنا چاہیے۔ اس کے بعد وہ اپنی حالت پر افسوس
کرتے ہوئے کہنے لگا کہ ہائے میں اس حیوان سے بھی گیا گزرا ہو گیا کہ میں
اپنے جرم کو چھپانے کی بھی صلاحیت سے محروم ہوں۔ اس کے بعد اس نے (بالکل
اسی طرح کہ جس طرح ایک کوے کو دوسرے مردہ کوے کو زمین کے اندر چھپاتے دیکھا
تھا) ہابیل کی نعش کو گڑھا کھود کر سپرد خاک کر دیا۔ (البدایة والنہایة:
جلد 1، صفحہ 93۔ قصص القرآن: جلد 1، صفحہ 41)
بعض مفسرین نے ذکر کیا ہے کہ جب قابیل اپنے بھائی کو قتل کر چکا تو ایک سال
تک پشت پر اس کو لادے پھرتا رہا اور دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ سو سال تک
اٹھائے پھرتا رہا اور برابر اسی طرح رہا، یہاں تک کہ اللہ نے دو کووں کو
بھیج دیا۔ مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ قابیل کو اس کے کیے کی سزا جلد ہی مل گئی
تھی، اس طرح سے کہ اس کی پنڈلی اس کی ران سے چمٹ گئی، اور سورج جہاں پھرتا
اس کا چہرہ بھی از خود ادھر ہی گھوم جاتا، یہ اپنے بھائی کے ساتھ حسد،
سرکشی اور گناہ کی وجہ سے اس کو رسوائی و عذاب ملا اور حدیث میں رسول اکرم
ﷺ کا فرمان ہے کہ کوئی گناہ ایسا نہیں ہے کہ اللہ عزوجل اس کی سزا دنیا میں
جلد دے دیں اور آخرت میں بھی صاحب گناہ کے لیے عذاب کا ذخیرہ تیار رکھیں
مگر سرکشی (اور ظلم) اور قطع رحمی (یعنی رشتے داری توڑنا)۔ ( قصص الانبیائ:
صفحہ، 69-70)
حضرت عبداللہؓ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول معظم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”دنیا
میں جب بھی کوئی ظلم سے قتل ہوتا ہے تو اس کا گناہ حضرت آدم علیہ السلام کے
پہلے بیٹے (قابیل) کی گردن پر ضرور ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہ پہلا شخص ہے، جس
نے ظالمانہ قتل کی ابتداءکی اور یہ ناپاک طریقہ جاری کیا۔“ (مسند احمدؒ)
مقام ”مقتل ہابیل“ کے حوالے سے علامہ ابن عساکرؒ نے اپنی کتاب میں علامہ
احمدؒ بن کثیر کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا ایک خواب نقل کیا ہے۔ جس میں مذکور
ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی خواب میں زیارت کی اور آپ ﷺ کے ساتھ ہابیل کو
بھی دیکھا۔ ہابیل نے قسم کھا کر کہا کہ میرا مقتل (دمشق کے شمال میں جبل
قاسیون پر ایک زیارت گاہ جو ”مقتل ہابیل“ کے نام سے مشہور ہے) یہی ہے اور
آپ ﷺ نے ان کی تصدیق فرمائی۔“ واللہ اعلم بالصواب (بہ حوالہ: قصص القرآن:
جلد 1، صفحہ 42 از مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ) |