چند روز پہلے کی بات ہے کہ کوٹلی
کا ایک حافظ قرآن پچیس سالہ نوجوان محمد علی مرتضی اپنی بہن کے گھر کھوئی
رٹہ کے علاقے سیری ،چتر روانہ ہوا۔ سیری چتر سیز فائر لائین(لائین آف
کنٹرول) سے تقریبا آدھ کلومیٹر فاصلے پہ ہے۔اس نوجوان کے ورثاءکے مطابق
محمد علی بہن کے گھر پہنچنے سے پہلے ہی لاپتہ ہو گیا اور اگلے روز اس کی
لاش مقامی انتظامیہ کے ذریعے اس کے ورثاءکے حوالے کی گئی۔اطلاعات کے مطابق
کہا گیا کہ وہ ’ریڈ زون‘ میں داخل ہوا تھا جس پر اسے گولی مار دی گئی
ہے۔تاہم گھر والوں نے دیکھا تو اس کی لاش زخموں سے بھری ہوئی تشدد زدہ
تھی۔اس کی لاش کی تصاویر شائع بھی ہوئی ہیں۔ورثاءکا یہ بھی کہنا ہے کہ اس
کا جسم زخموں سے بھرا ہوا تھا اور اس کے جسم میں کیلیں بھی ٹھونکی گئی تھیں۔
محمد علی مرتضی کے والد مولانا حاجی محمد صدیق لاہور میں ’پنجاب روڈز
ٹرانسپورٹ کارپوریشن‘ میں خطیب کی ملازمت کر رہے ہیں۔ محمد علی کے تایا
حاجی محمد شریف اور چچا محمد نزیر دونوں فوج کے ریٹائرڈ حوالدار ہیں۔محمد
علی خود کوٹلی میں ایک بیکری میں ملازم تھا۔یوں محمد علی ایک فوجی خاندان
کا ہی بچہ تھا۔میں نے اس واقعہ پر امجد چودھری (چیف ایڈیٹر روزنامہ صدائے
چنار) سے ٹیلی فون پہ بات کی۔مقتول محمد علی امجد چودھری کا چچا زاد بھائی
تھا۔مرحوم نوجوان کا خاندان اس واقعہ پر گہرے صدمے سے دوچار ہے ۔ورثاءنے
کہا کہ وہ فوج یا سسٹم کے خلا ف نہیں ہیں اور چند افراد کے غلط کام کا ذمہ
دارادارے کو نہیں ٹہراتے ۔تاہم ان کا مطالبہ ہے کہ جن افراد نے محمد علی کو
بہیمانہ تشدد کر کے ہلاک کیا ہے ،ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے ۔محمد علی
کے ورثاءکا یہ بھی کہنا ہے کہ اس قتل کے مرتکب افراد کو سزا نہ دی گئی تو
عوام کا اعتماد حساس اداروں اور فوج سے اٹھ جائے گا۔
اس معاملے کی تفصیلات سامنے آنے کے ساتھ ساتھ عوامی حلقوں کی طرف سے تشویش
کا اظہار سامنے آنے لگا۔آزاد کشمیر اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجہ فاروق
حیدر خان،امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر عبدالرشید ترابی سمیت متعدد
سیاستدانوں اور مختلف طبقہ ہائے فکر کی طرف سے کوٹلی کے نوجوان محمد علی کی
اس ظالمانہ ہلاکت کے خلاف سخت بیانات سامنے آئے۔بلاشبہ نوجوان کی ہلاکت کے
اس واقعہ سے آزاد کشمیر کے پرامن خطے کے عوام میں تشویش کی گہری لہر دوڑ
گئی ہے اور سب اس واقعہ میں انصاف کے متمنی ہیں۔حیرت انگیز طور پر آزاد
کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم کی طرف سے اس واقعہ پرکوئی ردعمل سامنے نہیں
آیا اور ان کی خاموشی کو سب نے محسوس کیا کہ وہ اس معاملے میں عوامی
احساسات و جذبات سے ہٹ کر روئیہ اپنائے ہوئے ہیں۔
اس واقعہ پرروزنامہ ” صدائے چنار“ نے اپنے ادارئیہ میں لکھا کہ ” اگر
محمدعلی گولی سے مر جاتا تو پھر بھی بات سمجھ میں آتی کہ ریڈ زون میں مشکوک
حالت میں چلتے بھرتے وہ فائرنگ کا نشانہ بن گیا۔محمد علی کے جسم پر تو گولی
کا کوئی نشان نہیں اس کا واضح مطلب ہے کہ محمد علی کوگرفتار کیا گیا اور
تفتیش کے دوران اس پر تشدد کیا گیا جس سے اس کی ہلاکت ہوئی حالانکہ ورثاءکے
مطابق اس کے پاس شناختی کارڈ موجود تھا۔محمد علی کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک
کی شاید ہی کوئی مثال تلاش کی جا سکے۔ اس لئے اس واقعہ کی غیرجانبدارانہ
تحقیقات اور بھی لازمی ہو چکی ہے“۔
ہم جب افواج پاکستان کے جوانوں کو سرحدوں پہ اپنی ڈیوٹی دیتے ہوئے دیکھتے
ہیں تو ہمارا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے اور دل میں اپنے ان فوجی جوانوں کے
لئے پیار امنڈ آتا ہے۔کشمیریوں نے یوں بھی ہمیشہ افواج پاکستان کے شانہ
بشانہ جدوجہد کی ہے۔بلاشبہ سرحدی علاقوں میں دشمن کی جاسوس سرگرمیوں پہ کڑی
نظر رکھنا اہم تقاضہ ہوتا ہے تاہم کوئی بھی قانون کسی بھی صورت غیر انسانی
جسمانی تشدد کے ذریعے ہلاک کرنے کے اس طرح کے ظالمانہ اقدام کی اجازت نہیں
دیتا ۔اگر اس کو ’ریڈ‘ قرار دے کر فائرنگ سے ہلاک کر دیا جاتا تو کوئی بھی
اس پر احتجاج نہ کرتا ۔ آزاد کشمیر کے پرامن خطے میں اس طرح کا واقعہ نہایت
سنگین ہے اور اس سے آزاد کشمیر سمیت تمام کشمیریوں میں تشویش کی لہر دوڑ
گئی ہے ۔یہ حساس اور غیر معمولی واقعہ ہے ۔ اس واقعہ سے آزاد کشمیر میں
حساس اداروں اور فوج کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے لہذا اس بات کی اشد ضرورت ہے
کہ آزاد کشمیر کے عوام کی گہری تشویش دور کرنے کے لئے واقعہ کی آزادانہ
تحقیقات کراتے ہوئے فرائض کی ادائیگی کے دوران اختیارات سے تجاوز اور غفلت
سے کام لیتے ہوئے ملک وقوم کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کرنے والے افراد
کے خلاف سخت تادیبی کاروائی کی جائے۔ اس افسوسناک واقعہ کا سخت نوٹس لیتے
ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کرنابہت ضروری ہے تا کہ ریاستی عوام کی تشویش دور
ہو سکے ۔
سوشل میڈیا’فیس بک‘ پہ چند افراد نے نوجوان کی ہلاکت کے اس واقعہ پر کہا کہ
انڈیا کی سرگرمیوں کی وجہ سے سرحدی علاقوں میں دشمن کی سرگرمیوں میں اضافہ
ہوا ہے اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آزادکشمیر میں آئے روز قتل ہوتے ہیں تو
اس قتل پر اتنا واویلا کیوں؟بلاشبہ دشمن کی سرگرمیاں جاری ہیں تاہم محمد
علی تو ان کے ہاتھوں میں تھا ،وہ اس سے متعلق سب معلومات آسانی سے لے سکتے
تھے۔ اگر زبان کھلوانے کے لئے ہمارے حساس ادارے کے اہلکار بھی کسی غیر
انسانی ٹارچر سیل کے انداز میں تفتیش کریں گے تو اس سے کیا حاصل ہو
گا؟تفتیش بھی ایسی کہ ”ایم کیو ایم“ کے ٹارچر سیلز کی یاد تازہ ہو
جائے۔بلاشبہ قتل تو روز ہوتے ہیں تو اس ہلاکت پر واویلا کیوں؟ واویلا اس
لئے کہ فوج تو ہماری سرحدوں کی نگہبان ہے ،ہماری نگہبان ہے۔اس کی عزت
،حفاظت ہماری بھی ذمہ داری ہے ۔لیکن جب اس سے متعلقہ چند افراد کی طرف سے
اختیارات سے تجاوز،غفلت کی صورتحال سے ایک مقامی نوجوان کو حساس اداروں
،فوج کے قوانین کے برعکس اس طرح ہلاک کیا جائے جو مروجہ طریقوں سے کسی طور
بھی مطابقت نہیں رکھتا تو ہمیں چند افراد کے غلط کام کی وجہ سے اپنی فوج کی
ساکھ کو متاثرہوتا نہیں دیکھنا چاہئے۔ اس معاملے میں اگر انصاف نہ ہوا تو
اس طرح کی صورتحال” کینسر“ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔لہذا ملک و عوام کے وسیع
تر مفاد میں یہی ہے کہ غلط کرنے والوں کو تحفظ کے بجائے انہیں انصاف کے لئے
پیش کیا جائے تا کہ عوام کا اعتماد قانون اور اداروں سے منتشر نہ ہو سکے۔ |