ا ختلاف کوئی نئی چیز
نہیں۔ابتدائے آفرینش سے چلا آرہا ہے۔اشیاء کا باہم مختلف ہونا امتیاز اور
شناخت کا ذریعہ ہے۔اختلاف رات کو دن سے،کھوٹے کوکھرے سے،سچ کو جھوٹ سے
نمایاں کرتا ہے۔یہ اصطلاع علم کی دنیا میں ابھی اتنی بدنام نہیں ہوئی جتنی
کہ عمومی سطح پر۔سنجیدہ علمی حلقوں میں جب اختلاف کا لفظ بولا جاتا ہے تو
اس سے آراء کے فرق کا ایسا مفہوم مراد ہوتا ہے جس میں ادب،برداشت اور مزید
مکالمے کی گنجائش ملحوظ ہوتے ہیں۔عام بول چال میں یہ لفظ انتہائی منفی
مفاہیم اختیار کر چکا ہے۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اختلاف بہت بری
چیز ہے۔عرصہ ہوا ایک ٹی وی ٹاک شو کے اینکر اپنے پروگرام میں دو مختلف
اندازِ فکر کے مہمانوں کا ’’ٹاکرا‘‘کرا رہے تھے اور جب وہ ایک دوسرے کے
خیالات کی تردید کرتے تو اینکر صاحب ملتجیانہ انداز میں کہنے لگتے کہ’’
اختلاف نہیں ہونا چاہیئے‘‘۔اس وقت اندازہ ہوا کہ اچھے خاصے دانش ور سمجھے
جانے والے لوگ بھی عمومی پروپیگنڈے سے متاثر ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اختلاف سے علم کے سوتے پھوٹتے ہیں۔فکر کو جلا ملتی ہے
اورآگہی کہ نت نئی راہیں کھلتیں ہیں۔یہ ایک دوسرے کی آراء کا احترام اور
برداشت سکھاتا ہے۔لیکن یہ اس وقت تک ہوتا ہے جب تک علمی اختلاف سڑکوں ،چوکوں
اور چوراہوں پر نہیں آتا بلکہ وہ دانش گاہوں میں رہتا ہے۔جب علمی اختلاف
یعنی آراء کا اختلاف جذباتی نعروں میں ڈھل جاتا ہے تو پھر اس میں احترام ،برداشت
کی بجائے عناد اور نفرت کے عناصر در آتے ہیں۔عام لوگ ہر اس شخص کو قابلِ
گردن زنی سمجھنے لگتے ہیں جو ان کے اندازِ فکر سے ہٹ کر سوچتا ہو۔جس کا
مسلک ان کے مسلک کے علاوہ ہو۔چنانچہ پھر عوام کے ان جذبات کو مختلف نظریوں
کے ناپختہ دانش ور اور پختہ بیوپاری کیش کرنے لگتے ہیں۔وہ مارنے مرنے کے
نعروں کی تجارت شروع کر دیتے ہیں ۔وہ اپنے ہم خیال عوام کو جنّت کے ٹکٹ
الاٹ کرتے ہیں اور مخالفوں کے لیے جہنم کے نچلے درجات کی پیشن گوئیاں کرتے
ہیں۔اس منافع بخش کاروبار میں مذہبی دھڑوں کے ساتھ ساتھ مذہب بیزار جتھے
بھی سر گرم رہتے ہیں۔ان سب تاجرانِ شر کے ہاں قدرِ مشترک یہ ہے کہ یہ سب
ہمہ وقت انقلاب لانے پر تُلے ہوتے ہیں۔کوئی سرخ تو کوئی سیاہ پھریرے
لہراتاپھرتا ہے۔عوام کو عوام شاید اِسی لیے کہا گیا ہے کہ وہ ان جغادڑیوں
کی ایک آواز پر کشاں کشاں کھنچے چلے آتے ہیں۔ان کے سرکسوں کو زینت بخشتے
ہیں اوراس طرح لوگوں کے برانگیختہ جذبات کی نکاسی اور ان جغادڑیوں کی تجارت
کا سامان ہوتا رہتا ہے۔
اگر کوئی شخص ان پھڈے فروشوں کے خلاف زبان کھول دے تو اسلام کا فراخ دامن
اس کے لیے تنگ ہوجاتا ہے۔وہ ان مسّلم پارساؤں کا گستاخ قرار پاتا ہے۔ پھر
کوئی سر پھرنمک خوار اس رزقِ خاک بنا کر دم لیتا ہے۔یہ صورت حال اس وقت
پیدا ہوتی ہے جب کسی بھی نظریے کی تشریح اس کے لیے موزوں صلاحیت نہ رکھنے
والے افرادکرنے لگتے ہیں۔یہ ناتجربہ کار لوگ حادثاتی طور پر ایسی مسند پر
پہنچ جاتے ہیں جس کے تقاضے ان کے ذہنی ،معیار سے بلند ہوتے ہیں۔یہ لوگ اپنے
نظریے کی اساسیات سے نابلد ہونے کی وجہ سے بے محل اور بے جاکہے جاتے
ہیں۔مخاطب سمجھتے ہیں’’ مستند ہے ان کا فرمایا ہواــ‘‘۔نااہلوں کی تشریحات
کے ڈھیر تلے اس نظریے کی حقیقی تصویر دب کر رہ جاتی ہے۔یہ کسی بھی نظریے کے
بگاڑ کی انتہائی صورت ہوتی ہے۔اس موقع پر ایک ایسی چھلنی کی ضرورت ہوتی ہے
جو مدّتوں کی آلائشوں سے اس حقیقی فکر سے چھان کر افراد کے سامنے پیش
کرے۔یہ ضرورت ہر بگاڑ کے عہد میں محسوس کی جاتی رہی ہے۔
آزادی اظہار رائے کے نعرے تو بہت لگائے جاتے ہیں۔لیکن عملی طور پراسے
جھٹلایا جاتا ہے۔ہمارے یہاں یہ ریت عام ہے کہ جب آپ کسی بھی مذہبی یا سیاسی
جماعت کے لیڈر کے موقف سے ہٹ کر رائے دیں،آسان لفظوں میں یوں سمجھئیے کہ اس
سے اختلاف کریں تو اس کے مدّاح آپ کی جان کے درپے ہو جائیں گے۔پہلے تو صرف
چوکوں چوراہوں پر آپ کے نسب نامے پر مفصّل راشنی ڈالی جاتی تھی اب توڈیجیٹل
عہد ہے۔سوشل میڈیا پر آپ کا’’ سب کچھ ‘‘برابر کر دیا جاتا ہے۔اس جہادکو
باعثِ رضائے قائدجان کر اس میں اُس راہ نما کا ہر عقیدت کیش سرگرمی سے شریک
ہوتا ہے اور اختلاف کرنے والے کی بولتی بند کر کہ دم لیتا ہے۔نتیجتاًہمارے
ہاں برداشت کا کلچر سکڑ رہا ہے۔کھوکھلی جذباتیت ہمیں سوچنے سمجھنے کا موقع
نہیں دیتی۔یہی وجہ ہے ہماری سوچ وقتی محسوسات کا احاطہ کرتی ہے اور دور آگے
جھانک لینے کی خواہش ہمارے دل میں پیدا تک نہیں ہوتی۔سوچ کا افلاس اسی کو
کہا جاتا ہے۔
ہمارے عوام ٹرک کی بتّی کے پیچھے سر پٹ بھاگنے کے عادی ہیں ۔اس کی بنیادی
وجہ شعور کا بیدار نہ ہونا ہے۔اور شعور تعلیم ہی سے حاصل ہوتا ہے۔اگر ہم
علم کے فروغ اور اس کے حقیقی مدّعا کو سمجھتے ہوئے اسکے لیے تگ ودو کریں تو
بہت ممکن ہے کہ ہماری سوسائٹی صحت مند سرگرمیوں کیطرف مائل ہو جائے۔اور یہی
راستہ عوام کو سیاست اور مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں کے مکر وفریب سے
بچانے کا ہے۔
’’ اختلاف ‘‘زیرِ بحث ہے ۔اختلاف کی حقیقت کا ادراک کم ہونے کی وجہ سے بے
شمار مسائل جنم لے رہے ہیں۔ہمیں ڈائیلاگ سیکھنا ہو گا۔اختلاف کی حقیقت کو
سمجھنے کے بعد اپنی رائے سے اختلاف کرنے والوں سے مکالمہ کر کہ کسی متفقہ
نقطے تک پہنچنے کی سعی کرنا ہوگی۔اگر مکالمے کا کوئی متوقع نتیجہ نہ بھی
نکلے تو کم ازکم برداشت کا گراف سوسائٹی میں بڑھے گا۔ اختلاف سے اوچھے
اسٹائل میں کسی کی ذات یا خیالات کو مسترد کر دینے کے مفہوم کی حوصلہ شکنی
ہو گی۔مثبت روّیے فروغ پائیں گے۔ایک دوسرے کا احترام عام ہوگا۔ڈائیلاگ کلچر
پروان چڑھے گا۔معاشرے کی بہی خواہوں کو اس اہم مقصد کے لیے سر جوڑ کر
بیٹھنے اور مناسب لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ابلاغی اداروں بالخصوص
الیکٹرونک میڈیا کو ایسے پروگرا م تیار کرنے ہوں گے جن سے عوام کی تربیت
ہو۔جن کی بدولت معاشرے میں صبر،برداشت،اور احترام کے جذبات فروغ پائیں۔ اسی
طرح ہر وہ شخص جو کسی نہ کسی طور عوام کی کم یا زیادہ تعداد سے منسلک ہے اس
کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ |