از:عتیق الرحمن رضوی، نوری مشن
مالیگاؤں
مولانا احمد رضا محدث بریلوی ۱۰ شوال المکرم ۱۲۷۲ھ/۱۸۵۶ء کو بریلی میں پیدا
ہوئے اور بریلی ہی میں ۲۵صفر۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء میں وصال فرمایا …… ابتدائی تعلیم
والدِ ماجد کی نگرانی میں حاصل کی…… تیرا برس۱۰ ماہ اور ۴ دن کی عمر میں
مسندِ افتا پہ جلوہ افروز ہوئے…… اور مسئلۂ رضاعت کے ایک پیچیدہ مسئلے کو
حل کر کے افتا نویسی کا آغاز فرمایا…… اور تا حیات جہاد بالقلم سے رشتہ
استوار رکھا…… احقاقِ حق اور ابطالِ باطل فرماتے رہے…… شریعتِ مصطفوی پر
خود بھی کاربند رہے اور خوابِ غفلت میں کھوئی امت کو بھی جگاتے رہے…… وہ
درد مند دل رکھتے تھے…… وہ چاہتے تھے امت پھر ماضی کی طرف لوٹے…… وہ ماضی
جو اپنے دامن میں حسین پلوں کو سمیٹے ہوئے تھا…… جب ہماری طرف کسی کی نظر
اُٹھنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی…… وہ ماضی جس میں ہم شریعت پر عمل آوری لازم
وملزوم سمجھتے تھے نہ کہ خود کو مقید…… وہ ماضی جو اپنے دامن میں تقدس، ادب،
تعظیم و توقیر کے گل ہاے رنگا رنگ لیے ہوئے تھا…… وہ ہم سب کو نظامِ مصطفی
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر چلتا دیکھنا چاہتے تھے…… وہ ہمارے دلوں میں وہی
شمع پھر روشن کردینا چاہتے تھے جس سے کائناتِ عالم میں روشنی و سویرا ہے……
وہی عشقِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی شمع جس کے بغیر ایمان کامل نہیں…… وہ
چاہتے تو عیش وعشرت میں زندگی بسر کرتے…… مگر انہوں نے دولت و شہرت پر غربت
کو ترجیح دی…… کیسی غربت! اپنے پاس کچھ نہ ہو، مگر سائل کو اپنے دولت کدے
سے کبھی خالی نہیں لوٹایا…… خود جمع نہیں کیا مگر غریبوں کے غم خوار رہے……
یہ غربت ہمیں ۱۴۰۰ سال پہلے کے مناظر سے آشنا کراتی ہے…… ایسی غربت پر
لاکھوں تاجِ شہنشاہی قربان…… بے شک آپ کی پیروی ایمان وعقیدے کی سلامتی کی
ضامن ہے…… الفضل ما شہدت بہ الاعداء کے مصداق اپنے تو اپنے بیگانے بھی آپ
کی خدماتِ دینی وعلمی پر سرِ تسلیم خم کیے ہوئے ہیں……ملاحظہ کیجیے اس قول
کی تصدیق کرتاتاثر…… مولانا شبلی نعمانی کہتے ہیں:
’’مولانا صاحب کا علمی شجر اس قدر بلند درجے کا ہے کہ اس دور کے تمام عالمِ
دین اس مولوی احمد رضا خاں صاحب کے سامنے پرِ کاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے
اس احقر(شبلی) نے بھی آپ کی متعدد کتابیں دیکھی ہیں جس میں ’احکامِ شریعت‘
اور دیگر کتابیں بھی دیکھیں ہیں……‘‘ (رسالہ الندوہ،ص۱۷،اکتوبر ۱۹۱۴ء)
وہ فخرِ اہل سنن تھے…… جامع الکمالات تھے…… مجموعۂ خوباں تھے…… جامع
الحیثیات تھے…… ماہرِ علومِ عقلیہ و نقلیہ تھے…… تفسیر، حدیث، فقہ میں بے
مثال…… نحو، صرف، تجوید، تصوف، سلوک، لغت، شاعر ی و ادب، ہندسہ، ریاضی،حساب،
تاریخ، فلسہ و سائنس، علم ہیئت،نجوم، جفر میں یکتاے روزگار تھے…… علم
مناظرہ، منطق، جبر و مقابلہ، اقتصادیات ومعاشیات، ارضیات، طب، جغرافیہ میں
اپنی مثال آپ تھے…… یہ باتیں محض عقیدت کی بنیاد پر نہیں کہی گئیں…… حسد کی
عینک اُتاریں اور تصانیفِ رضا کا مطالعہ انصاف کی آنکھوں سے کریں اور جو دل
گواہی دے اسی پر فیصلہ کریں…… چناں چہ تفسیر کے ضمن میں بسم اللّٰہ کی ’با‘
کی تفسیر(ملاحظہ کریں :حیاتِ اعلیٰ حضرت ،ص۹۸)…… سورۃ والضحیٰ کی بعض آیات
کی تفسیر جو ۸۰ جُز میں فرمائی…… اور، انباء الحی ان کتابہ المصون تبیان
لکل شیٔ، الصمصام علی مشکک فی آیۃ علوم الارحام، المحجۃ المؤتمنۃ فی آیۃ
الممتحنۃ، النفحۃ الفائحۃ من مسک سورۃ الفاتحۃ، نائل الراح فی فرق الریح
والریا ح، حاشیہ تفسیر بیضاوی، حاشیہ تفسیر خازن، حاشیہ الدر المنثور،
حاشیہ عنایۃ القاضی، وغیرہ آپ کی تفسیری خدمات پر شاہد عادل ہیں…… احادیث
مبارکہ سے متعلق علامہ محمد حنیف خان بریلوی کی تالیف ’’جامع الاحادیث‘‘ ہی
کافی ہوگی جو ۱۰ ضخیم جلدوں میں ترتیب دی گئی…… مزید کے لیے ملاحظہ فرمائیں:
حاشیہ صحیح بخاری،حاشیہ صحیح مسلم، حاشیہ جامع ترمذی، حاشیہ سنن نسائی،
حاشیہ سنن ابن ماجہ، حاشیہ تیسیر شرح جامع صغیر علامہ سیوطی، حاشیہ مسند
امام اعظم، حاشیہ کتاب الحج،حاشیہ کتاب الآثار، حاشیہ مسند امام احمد بن
حنبل، حاشیہ شرح معانی الآثار للطحاوی، حاشیہ سنن دارمی، حاشیہ الخصائص
الکبریٰ للسیوطی، حاشیہ کنزالعمال، حاشیہ الترغیب و الترہیب،انباء الحذاق
بمسالک النفاق، تلألؤ الافلاک بجلال احادیث لولاک، سمع و طاعۃ فی احادیث
الشفاعۃ کے علاوہ اصول احادیث پر الہادالکاف فی حکم الضعاف، مدارج طبقات
الحدیث، الفضل الموہبی فی معنی اذاصح الحدیث فہومذہبی، الافادات الرضویۃ (فی
اصول الحدیث)، وغیرہ آپ کی محدثانہ شان و عظمت پر دلالت کرتی ہیں……دیوبندی
مکتبِ فکر کے مشہورعالم اور مصنف محمد انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں:
’’جب بندہ ترمذی شریف اور دیگر کتب احادیث کی شروح لکھ رہا تھا تو حسبِ
ضرورت احادیث کی جزئیات دیکھنے کی ضرورت در پیش آئی تو میں نے شیعہ حضرات و
اہلِ حدیث حضرات و دیوبندی حضرات کی کتابیں دیکھیں مگرذہن مطمئن نہیں ہوا۔
بالآخر ایک دوست سے مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی کی کتابیں دیکھیں تو
میرا دل مطمئن ہوگیا میں اب بخوبی احادیث کی شروح بلاجھجک لکھ سکتا ہوں۔ تو
واقعی بریلوی حضرات کے سرکردہ عالم مولانا احمد رضا خاں صاحب کی تحریریں
شستہ اور مضبوط ہیں جسے دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مولوی احمد رضا
خاں صاحب ایک زبردست عالم دین اور فقیہ ہیں۔‘‘ (رسالہ دیوبند ،ص۲۱جمادی
الاول ۱۳۳۰ھ )
فقہ میں،حاشیۃ الاسعاف فی احکام الاوقاف، حاشیہ اتحاف الابصار، حاشیہ
الاعلام بقواطع الاسلام، ح
اشیہ الاصلاح شرح الایضاح، حاشیہ بدائع الصنائع،حاشیہ البحرالرائق، حاشیہ
فتاویٰ بزازیہ اور فقہ حنفی کا انسائیکلو پیڈیا ’العطایا النبویۃ فی
الفتاوی الرضویۃ‘ جس کے مطالعہ کے بعد مشہور صحافی ادیب اور جماعتِ اسلامی
کے سابق سربراہ مولانا کوثر نیازی نے آپ کو اس دور کا امامِ ابو حنیفہ کہا،
کہتے ہیں:
’’فقہ حنفیہ میں ہندوستان میں دو کتابیں مستند ترین ہیں…… ان میں سے ایک
فتاویٰ عالمگیریہ ہے…… جو در اصل چالیس علما کی مشترکہ خدمت ہے۔ جنہوں نے
فقہ حنفیہ کا ایک جامع مجموعہ ترتیب دیا…… دوسرا فتاویٰ رضویہ ہے…… جس کی
انفرادیت یہ ہے کہ جو کام ۴۰؍ علما نے مل کر انجام دیا وہ اس مردِ مجاہد نے
تنہا کر کے دکھایا اور یہ مجموعہ فتاویٰ رضویہ، عالمگیریہ سے زیادہ جامع ہے
اور میں نے جو آپ کو امام ابوحنیفہ ثانی کہا ہے وہ صرف محبت یا عقیدت میں
نہیں کہا بلکہ فتاویٰ رضویہ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات کہہ رہا ہوں کہ
آپ اس دور کے ابو حنیفہ ہیں۔‘‘ (مقالہ امام العلما: امام ابو حنیفہ ثانی،
ص۵۰، مجلہ امام احمد رضا کانفرنس۱۹۹۴ء) اصولِ فقہ میں’’ التاج المکلل فی
انارۃ مدلول کان یفعل، تبویب الاشباہ و النظائر، حاشیۃ الحموی علی الاشباہ
و النظائر، حاشیۃ فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت، السیوف المخیفۃ علیٰ عائب
ابی حنیفۃ‘‘ آپ کی فقہی بصیرت و عظمت پر دال ہیں…… اسی طرح نحو و صرف
میں’’تبلیغ الاحکام الیٰ درجۃ الکمال فی تحقیق رسالۃالمصدر و الا فعال، شرح
ہدایۃ النحو‘‘،’’ حاشیہ علم الصیغہ‘‘……تجوید میں’’الجام الصاد عن سنن الضاد
، نِعم الزاد لروم الضاد ، یسرالزادلمن ام الضاد، حاشیہ المنح الفکریۃ‘‘……
تصوف میں ’’حاشیہ الیواقیت و الجواہر، حاشیہ احیاء علوم الدین للغزالی،
حاشیہ الابریز، بوارق تلوح من حقیقۃ الروح، التلطف بجواب مسائل التصوف‘‘……
سلوک میں’’الیاقوتۃ الواسطۃ فی قلب عقدالرابطۃ، نقاء السلافۃ فی البیعۃ و
الخلافۃ‘‘…… علمِ لغت میں’’حاشیہ صراح، فتح المعطی بتحقیق الخاطی و المخطی‘‘……
علم شعر و ادب میں’’اکسیر اعظم، حدائق بخشش، آمال الابرار و آلام الاشرار،
چراغ اُنس، حضور جان نور، جاہ القصیدۃ البغدادیۃ معروف بہ الزمزمۃ القمریۃ
فی الذب عن الخمریۃ، شرح مقامہ مذاقیہ‘‘ …… علمِ ہندسہ میں’’اشکال الاقلیدس
لنکس اِشکال الاقلیدس، اعالی العطا یا فی الاضلاع والزوایا، المعنی المجلی
للمغنی و الظلی‘‘…… علم حساب میں’’الجمل الدائرۃ فی خطوط الدائرۃ، الکلام
الفہیم فی سلاسل الجمع و التقسیم، ، مسؤلیات السہام، حاشیہ خزانۃ العلم‘‘……
علمِ ریاضی پر ’’جد اول الریاضی،زاویۃ اختلاف المنظر،عزم البازی فی
جوالریاضی، کشور اعشاریہ، معدن علومی درسنین ہجری عیسوی ورومی‘‘…… علمِ
لوگارثم پر’’ رسالہ درعلم لوگارثم، ستین ولوگارثم‘‘…… علمِ تاریخ میں’’اول
من صلی الصلوات الخمس ، اَعلام الصحابۃ الموافقین للا میر معاویۃوام
المومنین، ، جمع القرآن و بم عزوہ لعثمان، کشف حقائق و اسرار د قائق، مقال
عرفا با عزاز شرع و علما‘‘…… علم فلسفہ و سائنس میں’’نزول آیات فرقان بسکون
زمین و آسمان، فوزمبین دررد حرکت زمین ، الکلمۃ الملہمہ فی الحکمۃ المحکمۃ،
معین مبین بہر دور شمس و سکون زمین، حاشیہ اصول طبعی، مقامع الحدید علیٰ
خدالمنطق الجدید‘‘…… علمِ ہیئت پر’’مبحث المعادلۃ فات الدرجۃ الثانیۃ،
قانون رویت اَہِلّۃ، طلوع و غروب کو ا کب و قمر، الصُراح الموجزفی تعدیل
المرکز، اقمار الانشراح لحقیقۃ الاصباح‘‘…… علم نجوم میں’’زاکی البہافی قوۃ
الکواکب وضعفہا، استخراج
تقویمات کو اکب ، استخراج وصول قمر بر راس‘‘……علم جفر پر’’الجداول الرضویۃ
للمسائل الجفریۃ، الثواقب الرضویۃ علی الکواکب الدریۃ، الاجوبۃ الرضویۃ
للمسائل الجفریۃ، اسہل الکتب فی جمیع المنازل‘‘…… علمِ توقیت پر’’درأ القبح
عن درک الصبح، ، الانجب الانیق فی طرق التعلیق، تاج توقیت، زیج الاوقات
للصوم و الصلوٰۃ‘‘…… علم منطق پر ’’رسالہ منطق ، حاشیہ میر زاہد، حاشیہ
ملّا جلال‘‘…… علم مناظرہ میں’’مراسلات سنت و ندوہ، ابحاث اخیرہ ، اطائب
الصیب علیٰ ارض الطیب ، الطاری الداری لہفوات عبدالباری‘‘…… علم جبر و
مقابلہ پر’’حل المعادلات لقوی المکعبات ، رسالہ جبر و مقابلہ، حاشیہ
القواعد الجلیلۃ فی الاعمال الجبریۃ‘‘…… معاشیات پر’’ تدبیر فلاح و نجات و
اصلاح، کفل الفقیہ‘‘…… وغیرہاکتابیں آپ کی علمی وجاہت و شوکت پر نازاں ہیں……کون
سا علم تھا جس پر انہیں دست رس نہ تھی…… کہنے والے نے خوب کہا کہ ع
اے کہ تو مجموعۂ خوبی بچہ نامت خوانم
یہ ایک برجستہ تحریر ہے اگر تصانیفِ رضا کی روشنی میں علومِ رضا پر کچھ
خامہ فرسائی کی جائے تو دفتر کا دفتر تیار ہوتا جائے…… اﷲ تبارک وتعالیٰ
ہمیں علم کے اس بحرِ بے کراں سے چند قطرے نصیب فرمائے…… ہمیں بھی امام احمد
رضا کے دستر خوانِ علم و فن کے خوشہ چینوں سے کچھ لقمے عطا فرمائے…… آمین……آج
ضرورت امام موصوف کی علمی وجاہت سے قوم کو مستفیض کرنے کی ہے۔ |