از:حضرت حافظ وقاری
مولانامحمدشاکرنوری صاحب(امیر سنّی دعوت اسلامی)
زوال پذیر انسانیت کو عروج وترقی کی شاہراہ پر لے جانے اور مقامِ انسانیت
کو آشکار کرنے کے لیے معلمِ کائنات رسولِ گرامی وقار صلی اﷲ علیہ وسلم نے
تین چیزوں کو انسانوں کے لیے ضروری قراردیا اول علم دوسرے تزکیہ اورتیسرے
اخلاق۔ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تعلیم کے سلسلے میں لوگوں کے
انہیں جذبات کومہمیزدیااور اس کی اہمیت وفضیلت پراس قدرزوردیاکہ انسان یہ
محسوس کرنے لگا کہ اس سے قیمتی خزانہ موجود نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ۲۳ سالہ
قلیل مدت میں داعیِ اعظم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس انقلابی ا قدام نے عرب کے
بدوؤں کو ،جو بکریاں چراتے تھے انسانیت کا ہادی اور رہنما بنا دیا۔ رسول اﷲ
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک طرف ان کی علمی صلاحیتوں کو بہتر بنا تے دوسری
طرف اپنی صحبت بابرکت اور حکیمانہ کلام سے ان کے اندر اخلاقی قدروں کو بھی
اُجاگر فرماتے تھے اور خود اس رسولِ برحق کے اخلاقِ کریمانہ کا صحابہ کرام
مشاہدہ فرماتے اور اپنے آقا کی اداؤں کو اپنی زندگی کے شب وروز میں بسانے
کی مکمل کوشش کرتے تھے۔ یہ سلسلہ صحابۂ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین
سے چل کرتابعین اور تبع تابعین سے ہوتاہوا سیدنا غوثِ اعظم تک پہنچاآپ نے
بھی اپنی دعوت وتبلیغ کومؤثربنانے کے لیے تعلیم وتزکیہ اور اخلاقِ حسنہ
کواپنایا۔غرض جتنے بھی داعیانِ دین تشریف لائے سب نے دعوت وتبلیغ سے پہلے
مذکورہ تین چیزوں کو اپنی زندگی کے شب وروزمیں جگہ دی اور کامیاب ہوئے۔
آپ دیکھیں کہ کم سنی میں حضور سیدنا غوثِ پاک رضی اﷲ عنہ نے اپنی والدہ
ماجدہ سے حصولِ علم کے لیے بغداد جانے کی اجازت چاہی تو آپ کی مقدس ماں نے
کتنی گراں قدر نصیحت فرمائی کہ بیٹا! سچ کا دامن کبھی مت چھوڑنا۔ آپ نے سنا
اور پڑھا ہوگا کہ سیدنا غوثِ پاک کے سچ بولنے کی برکت سے ڈاکوؤں کو توبہ کی
توفیق نصیب ہوئی۔ آپ کی والدہ نے یہ نصیحت کیوں فرمائی؟ وجہ یہ تھی کہ داعیِ
اعظم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم الصادق الامین تھے حضورِپاک صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم کی پوری سیرتِ طیبہ سچائی کے واقعات سے بھری ہوئی ہے آپ کاسخت سے
سخت دشمن بھی آپ کی امانت وصداقت کادل سے قائل تھا۔ان کی والدۂ ماجدہ اپنے
فرزند کو مستقبل کا عظیم داعی بنتا دیکھنا چاہتی تھیں ان کی خو اہش تھی کہ
میرافرزندنبی پاک کی سیرت کواپناے اوران کادین پھیلائے اس لیے آپ نے اس صفت
سے متصف کرنے کی کوشش فرمائی جس کااثریہ ہواکہ دیکھتے ہی دیکھتے سیدنا غوثِ
پاک رضی اﷲ عنہ اولیاے کرام کی صحبتوں سے استفادہ اور علم کی لازوال نعمت
کے حصول کے بعد اتنے عظیم داعی بنے اور ولایت کے ایسے اونچے مقام پر فائز
ہوئے کہ اولیاے کرام کی گردنیں ان کے سامنے جھکی نظر آتی ہیں۔انہوں نے اپنی
دعوت وتبلیغ سے ہزاروں لوگوں کے دل کی دنیابدل دی۔آپ نے اپنی قطبیت
کارازافشاکرتے ہوئے فرمایا:دَرَسْتُ الْعِلْمَ حَتّٰی صِرْتُ قُطُبًا‘‘یعنی
میں نے علم حاصل کیایہاں تک کہ مقامِ قطبیت پرفائزہوگیا۔آپ نے حصولِ علم کی
راہوں میں بے شمار مصائب برداشت کیے جس کی تفصیل آپ کی سیرت پر لکھی جانے
والی کتابوں میں موجودہے ۔دعوت کے راستے میں علم ،عمل،حلم اور اخلاقِ حسنہ
کو اپنانابے انتہا ضروری ہے کیوں کہ اگرایک طرف علم کا سمندر موجزن ہو اور
دوسری جانب صحبت میں بیٹھے والا اپنے دل کے زنگ کو دور کررہا ہو اور تیسری
طرف ہمارے اچھے اخلاق ہماری دعوت کی سچائی کااظہار کررہے ہوں توکامیابی
وکامرانی ملنایقینی ہوجاتاہے۔ مختصریہ کہ اگر ہم مذکورہ تین اوصاف کو اپنی
داعیانہ زندگی میں اپنا لیں تو یقینا ہماری ذات دوسروں کے لیے نفع بخش ہوگی
اور خود ہم اﷲ عزوجل کی نعمتوں اور رحمتوں کے حق دار ہوں گے۔اﷲ رب العزت ہم
سب کوعلم،عمل اور اخلاق حسنہ کی دولت سے مالامال فرمائے اوربزرگوں کے نقوش
قدم پرچل کرخدمت دین کی توفیق بخشے۔آمین |