سیدناشیخ عبدالقادرالگیلانی : اہم تعلیمات

حضور سید عالم حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے، کفروضلالت کو جمال جہاں آرا کی روشنی سے منور ومستنیر فرما کر فضائے عالم کو نور ایمان سے روشن فرمایا۔ آپ کی ہی ذاتِ گرامی کو نبوت کے ساتھ ساتھ بارگاہ ربوبیت سے ختم المرسلین اورخاتم النبین کے طغرائے بے مثال عطا ہوئے۔ حضرت سیدنا الشیخ الامام ابو محمد محی الدین عبدالقادر الگیلانی ابی الصالح ابن موسیٰ (جنگی دوست) بن عبداﷲ بن موسیٰ الجون بن عبداﷲ المخص بن الحسنی والحسینی کی ولادت ۴۷۰ھ ۱۰۷۸ء کو شمال فارس میں بحیرہ خزر کے جنوبی ساحل پر ’’گیلان‘‘ نامی بستی میں ہوئی۔

مورخین بیان کرتے ہیں کہ آپ کی ولادت کے وقت آپ کی والدہ ماجدہ کی عمر شریف ۷۰ سال کی ہو چکی تھی اور عرب روایات کے مطابق اس عمر میں توالد و تناسل کے امکانات تقریباًختم ہو جاتے ہیں مگر بفضل الٰہی آپ کی ولادت ہوئی۔ آپ کی والدۂ ماجدہ عارفات صالحات اور صاحبِ مکاشفات میں سے تھیں، اس لیے آپ کے شکم مادر میں آتے ہی انھیں اندازہ ہوگیا تھا کہ جیلان کی سرزمین پر قدم رنجہ فرمانے والا یہ بچہ غیر معمولی خوبیوں کا حامل ہوگا۔

بلاشبہ آپ اپنے وقت کے ایک جلیل القدر مفتی، فقیہہ، محدث، مفسر، امام المنطق والفلسفہ، ماہر علم المعانی والبیان قادر الکلام شاعر وادیب ہونے کے علاوہ آپ ماہر علم السلوک والاخلاق والتصوف اور ایک عظیم مصلح اور مجاہد بھی نظر آتے ہیں۔ البدایہ والنھایہ،المنتظم، وفیات الاعیان، طبقات الحنابلہ‘‘ نفحات الانس اور تاریخ الخلفاء کے مطابق آپ نے بغداد میں مدرسہ نظامیہ کے جن جلیل القدر اساتذہ کرام سے اکتساب علم کیا تھا وہ بھی اپنے عہد کے عظیم محدث، فقیہ، مفسر، ادیب، اور اولیاء اﷲ میں سے تھے اور اپنے اپنے فن میں یکتاوامام شمار کیے جاتے تھے ان میں سے بعض کے اسماء گرامی مندرجہ ذیل ہیں:
۱) عربی زبان و ادب کی تعلیم آپ نے ابوزکریا یحییٰ بن علی بن الخطیب التبریزی (متوفی ۵۰۲ھ) سے حاصل کی۔
۲) علم حدیث ابو محمد جعفر السراج (متوفی۵۰۰ھ) سے حاصل کی جبکہ غنیتہ الطالبین میں جابجا اپنے ایک اور استاد الشیخ المحدث ھبتہ اﷲ المبارک کا ذکر کرتے ہیں۔ ان سے آپ نے حدیث کی تعلیم حاصل کی۔
۳) فقہ واصول فقہ کی تعلیم ابو الوفاء بن العقیل متوفی (۵۱۳ھ) سے حاصل کی۔
۴) فقہ حنبلی کی تعلیم ابو السعید المبارک المخرمی متوفی ۵۱۱ھ سے حاصل کی۔
۵) تصوف وسلوک کی تعلیم ابو الخیر حماد بن الدباس متوفی ۵۳۳ھ سے حاصل کی۔

آپ ۴۸۸ھ میں تحصیل علم کے لئے گیلان سے بغداد روانہ ہوئے تھے۔ اس وقت آپ ۱۸ سال کے ہوچکے تھے۔ بقول صاحب ’’نفحات الانس‘‘ یہی وہ سال ہے جب امام غزالی مزید تلاش حق وحصول یقین کیلئے بغداد کو خیرباد کہہ رہے تھے اور یہ محض اتفاق نہیں کہ اگر ایک دوسراجلیل القدر امام سے بغداد محروم ہورہا تھا تو بغداد خالی ہو گیا بلکہ دوسراجلیل القدر مصلح اور داعی الی اﷲ کا وہاں ورود بھی ہورہاتھا اور اس وقت سے لے کر اپنی وفات تک اسی شہر کو اپنی سرگرمیوں کا جولان گاہ بنائے رہا۔

حضرت سیدنا الشیخ عبدالقادر الگیلانی علیہ الرحمۃ اپنی عظمت اور علو مرتبت اور وسعتِ علم کے باوجود چھوٹے کی رعایت فرماتے، بڑے کی توقیر کرتے، سلام میں سبقت فرماتے، کمزوروں کے پاس اٹھتے بیٹھتے، غریبوں کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آتے ،آپ کسی وزیریا حاکم کے دروازے پر نہیں گئے۔ آپ مستجاب الدعوات تھے۔ ہمیشہ ذکر وفکر میں مشغول رہتے، بڑے رقیق القلب تھے۔ خندہ پیشانی، شگفتہ رو، کریم النفس، فراخ وسعت، وسیع العلم، بلند اخلاق،عبادات اور مجاہدات میں آپ کا پایہ بہت بلند تھا۔ علامہ الشیخ محمد یونس السامرائی العراقی آپ کے سلسلہ نسبی پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام حسن و حسین علیھما السلام کے علاوہ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر بن خطاب،حضرت عثمان بن عفان اورحضرت علی رضی اﷲ عنھم اجمعین تک جا پہنچتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آپ میں بیک وقت جذبہ صدیقیت،فاروقیت، عثمانیت اور علویت کا اظہار نمایاں نظرآتا ہے۔بعض تذکرہ نگاروں نے آپ کو ’’شیخ الاسلام‘‘ تاج العارفین، محی الدین، محبوب سبحانی، غوث صمدانی، غوث الاعظم دستگیر کے نام سے بھی یاد کیاہے۔آپ عام طور پر ’’شیخ الجیلانی‘‘ کے نام سے بھی مشہور تھے۔ آپ کی کنیت ابو محمد اور پدری سلسلہ نسب امام حسن بن علی (رضی اﷲ عنہ) اور مادری سلسلہ نسب امام حسین بن علی ابن ابی طالب تک جا پہنچتا ہے۔ واضح رہے کہ نسبی رشتہ اگرچہ باپ ہی کی طرف منسوب ہوتا ہے لیکن یہ فضیلت معمولی نہیں ہے کہ آپ کی ذات میں دونوں نسبتیں جمع ہوگئیں ہیں اور اسی نسبت کو امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمتہ کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
تو حسینی ، حسنی کیوں نہ محی الدین ہو
اے خضر! مجمع بحرین ہے چشم تیرا

آپ بھوکوں کو کھانا کھلانے اور ضرورت مندوں پر بے دریغ خرچ کرنے کا خاص ذوق رکھتے تھے۔ ’’علامہ ابن النجار‘‘ آپ سے نقل کرتے ہیں کہ ’’اگر ساری دنیا کی دولت میرے قبضے میں ہو تو میں ساری دولت بھوکھوں کو کھلانے میں صرف کر دوں۔ یہ بھی فرماتے تھے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری ہتھیلی میں سوراخ ہے، کوئی چیز اس میں ٹھہرتی نہیں۔ اگر ہزار دینار میرے پاس آئیں تو رات نہ گزرنے پائے، خرچ کر دیتا ہوں۔صاحب ’’قلائد الجواہر‘‘مزید لکھتے ہیں کہ ’’آپ کاحکم تھا کہ رات کو وسیع دسترخوان بچھے،خود مہمانوں کے ساتھ کھانا تناول فرماتے، کمزوروں، غریبوں کی ہم نشینی فرماتے۔ طلباء کی باتوں کو برداشت کرتے اور تحمل فرماتے۔ ہر شخص یہ سمجھتا کہ اس سے بڑھ کر کوئی ان کا مقرب اور ان کے یہاں معزز نہیں، ساتھیوں میں سے جو غیر حاضر ہوتا، اس کا حال دریافت فرماتے اور اس کی فکر رکھتے۔ تعلقات کا بڑا پاس اور لحاظ تھا۔ غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر کرتے اور اگر کوئی کسی بات پر قسم کھالیتا تو اس کو مان لیتے اور جو کچھ حقیقت حال جانتے تھے، اس کا اخفاء فرماتے‘‘۔

حضرت سیدنا الشیخ کی بعض اہم تعلیمات
حضرت سیدنا الشیخ عبدالقادرالگیلانی کی پوری زندگی مجاہدہ اور محاسبہ نفس میں گزری۔ آپ نے عمر بھررشدوہدایت اور پندوموعظت کے ذریعے بندگانِ خداکی اصلاح کا اہم فریضہ انجام دیا۔ آپ کے ملفوظات ومکتوبات میں جتنی تحریریں ہیں سب کا تعلق بندگانِ خداکی اصلاح اور فلاح ہے۔ آپ نے خوداپنے نفس کا محاسبہ کیااور بندگانِ خداکو اسی کی ترغیب دی۔ محاسبہ نفس کے بعدایک انسان کے اندر جو خوبیاں پیدا ہوتی ہیں اور وہ شخص جن اعلیٰ اقدارکا حامل ہو جاتا ہے ، اس کی طرف مختصراً اشارہ آپ نے ان لفظوں میں کیا ہے۔

٭بندہ کو چاہئے کہ وہ دانستہ طورپر یا نادانی میں اﷲ عزوجل کی قسم نہ کھائے، اگر بندہ ایسی عادت سے بچ جاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اس کے اوپرانوار وتجلیات کے دروازے کھول دیتا ہے جس کے سبب وہ بندہ مراتب میں بلندی،ارادے میں قوت وتوانائی اور ہمسایوں میں عظمت وشرافت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگتا ہے۔
٭ اگر بندہ دروغ گوئی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے اور سچ بولنے کی عادت ڈالے تواﷲ تعالیٰ اس کا سینہ کشادہ کر دیتا ہے اور اسے علم کی روشنی سے منور کر دیتا ہے اور جھوٹ سے اس درجہ نفرت ہوجاتی ہے کہ جو جھوٹ بولتا ہے اس سے گھن کرنے لگتا ہے۔( الفتح الربانی والفیض الربانی،ص36)
٭ وعدہ خلافی سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے اگر بندے میں کسی کام کی صلاحیت نہ ہو تو اسے صاف انکار کردینا چاہئے، یہی زیادہ بہتر طریقہ ہے کیونکہ وعدہ خلافی بھی جھوٹ کی ایک قسم ہے اگر بندہ وعدہ خلافی سے بچنے لگتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کیلئے سخاوت کا دروازہ کھول دیتا ہے اور حیاء کا درجہ بلند کردیا جاتا ہے۔ ( غنیۃ الطالبین،ص647)
٭ بندہ کو چاہئے کہ بری چیزوں کی طرف نہ دیکھے اور نفسانی خواہشات کی طرف نظر بالکل نہ کرے اس مبارک عمل سے بندہ دولت ثواب سے مالا مال ہو جاتا ہے اورآخرت میں نیکیوں کا ایک زبردست ذخیرہ اس کے پاس جمع ہوجاتا ہے۔
٭ بندہ اپنا بوجھ کسی دوسرے شخص پر ڈالنے سے اجتناب کرے خواہ وہ کم ہو یا زیادہ چھوٹا ہو یا بڑا اس عمل کے سبب بندہ امر بالمعروف ونہی عن المنکرپر توانا ہوجاتا ہے۔مخلوق سے مکمل اس کو بے نیازی حاصل ہو جاتی ہے اور اخلاق ومروت کا وہ دھنی ہو جاتا ہے۔
٭ کسی شخص سے کسی قسم کا طمع اور لالچ ہر گز نہ کرے جو کچھ مانگنا ہو وہ خداسے مانگے۔ایسا کرنے سے اس کی عبادتوں میں اخلاص پیدا ہوتاہے اور اس کی عبادتیں کامل ہوتی ہیں۔
٭ تواضع ایک عمدہ شئے ہے اس کے سبب عبادت گزار کا مقام بلند ہو تا ہے اور عبادت گزار اونچا ہو جاتا ہے۔ خدا اور خلق خدا کے نزدیک اس کی عزت اور بزرگی کا مل تصور کی جاتی ہے۔
٭ حضرت الشیخ نے فتوح الغیب کے ۶۶ ویں مقالہ میں اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگنے کی تلقین کی ہے اور فرمایا ’’ تمہیں جس چیز کی خواہش اورضرورت ہے وہ اگر حرام اور فاسد نہیں تو خدا سے مانگو کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے تمہیں مانگنے کا حکم دیاہے ، مجھ سے دعا کرومیں قبول کرنے والا ہوں۔پھر فرمایا اﷲ تعالیٰ سے اس کا فضل وکرم مانگو‘‘۔( فتوح الغیب)
٭ بندے کو خداکا قرب کیسے حاصل ہو تا ہے اس سلسلے میں آپ نے اسی کتاب کے ۴۷ویں مقالہ میں اپنا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔’’ ایک بوڑھے آدمی نے سوال کیا کہ کس طریقہ سے بندہ اپنے خدا کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ اس عمل کی ابتدا زہد وورع، تقویٰ وپرہیز گاری، تسلیم ورضا اورتوکل ہے‘‘۔
٭ فتوح الغیب کے ۳۷ویں مقالہ میں آپ نے بندوں کو حسد نہ کرنے کی تعلیم دی ہے اور لکھا ہے۔ اے مومن تمہیں پڑوسیوں کے کھانے پینے ، نکاح، مکان، لباس اور خدا کی عطا فرمودہ، ثروت اور غنا پر حسد نہیں کر ناچاہئے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حسد کرنا ایمان کے ضعیف ہونے کی علامت ہے۔ حدیث قدسی ہے۔ حاسدمیری نعمتوں کے دشمن ہیں کیا تم نے حضور ﷺ کا فرمان نہیں سنا جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے اسی طرح حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے ‘ ‘۔
٭ کوئی چیز حکم خداوندی کے بغیرمحض نفس کی خواہش پر حاصل کرنا گمراہی اور خالق ومالک کی مخالفت ہے اور حکم الٰہی پر خواہشات نفسانی کے بغیرکسی کو لینا خدائے تعالیٰ کی موافقت ہے اور ایسی چیزکو چھوڑ دینا ریا اور نفا ق ہے۔
٭ تاجر پیشہ لوگوں کے تعلق سے ایک جگہ’غنیۃ الطالبین‘میں فرماتے ہیں، اگر تاجر میں تین باتیں نہ ہوں گی تو وہ دین اور دنیا دونوں میں محتاج رہے گا۔ اول یہ کہ زبان کو تین چیزوں سے بچائے جھوٹ سے، بیہودہ گفتگو کرنے سے اور جھوٹی قسم کھانے سے۔ دوم یہ کہ اپنے ہمسایوں اوردوستوں کے سلسلے میں اپنے دل کو دھوکے اور حسدسے پاک کرے۔سوم یہ کہ اپنے آپ کو تین باتوں کا عادی بنائے۔ نمازِ جمعہ اور جماعت کا، رات اور دن کے کسی حصہ میں علم حاصل کرنے اور ہر شئے پر اﷲ کی رضا کو ترجیح دینے اور کسب حرام سے بچنے کا۔(غنیۃ الطالبین،ص ۹۲)
٭ ۲۱ ذی قعدہ ۵۴۵ ھ بروز جمعہ صبح کے وقت مدرسہ میں باشندگان شہر بغدادکو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں، اے اس شہر کے رہنے والو! تم میں نفاق زیادہ اخلاص کم ہے۔ باتیں زیادہ اور عمل ناپید ہے، بے عمل بات کوڑی کے کام کی نہیں۔وہ حجت ہے نہ وجہ حجت۔بے عمل قول خالی اور ویران گھرکی طرح ہے۔ خزانہ ہے جس میں سے خرچ نہیں کیا جاتا، وہ صرف دعوی ہے بلا شہادت۔صورت ہے بے روح۔بت ہے بے دست وپا اور بے حسن۔ تمہارے اکثر اعمال جسم بے روح کی طرح ہیں۔روح کیا ہے اخلاص توحید اور قرآن وحدیث پر قائم رہنا۔غفلت نہ کرو۔ امر کی اطاعت کرو ، نہی سے باز آؤ، نجات پاؤگے۔(الفتح الربانی والفیض الربانی،ص۵۱)
٭ اپنے ملفوظ میں ’الفتح الربانی ‘کی ۱۴ ویں مجلس میں نفاق کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں،وہ شخص جو خدائے عزوجل اور اس کے بندوں پر اچھا گمان نہیں رکھتا اور ان کے آگے متواضع نہیں ہوتا وہ نجات نہیں پائے گا۔ صابر فقیروں کی عزت کرواور ان سے ان کی دیداراورصحبت سے حاصل کرو۔متقین علماء کی صحبت میں رہو ان کی صحبت تمہارے لئے برکت ہے اور ان علماء کے پاس نہ بیٹھو جو اپنے علم پر عمل نہیں کرتے بلاشبہ ان کی صحبت تم پروبال ہوگی۔ (الفتح الربانی ،ص ۳۶)
٭ بندہ کو چاہئے کہ اپنی عبادت کو خلوص وتقویٰ اور پرہیز گاری سے آراستہ کرے، نیت میں سچائی رکھے۔ ارادہ کی نگرانی کرے اور اس کا محاسبہ کر تا رہے، اس کا عزم صدق نیت پر مبنی ہو۔اپنے تمام اقوال ،ا عمال اور اصول میں خلوص کا عزم رکھتا ہو، عبادت میں مشغول ہو اور معصیت کو ترک کرے۔ اس کے ساتھ اس کا بھی لحاظ رکھے کہ کہیں شیطان مردود اس کو اپنی مکاریوں سے فریب میں نہ مبتلا کردے۔ (غنیۃ الطالبین،ص ۶۴۷)
Molana Muhammad Nasir Khan Chishti
About the Author: Molana Muhammad Nasir Khan Chishti Read More Articles by Molana Muhammad Nasir Khan Chishti: 58 Articles with 195494 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.