چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے
والے
مرا دل بھی چمکا دے چمکانے والے
چمکانے والے نے چمکایا …… ایسا چمکایا کہ چار دانگ عالم میں اس کے علم و
فضل کے ڈنکے بجنے لگے …… اس کی عظمتوں کے چرچے ہونے لگے …… دانش گاہوں کے
اساتذہ ، علما ،ادبا ، شعرا ، وکلا، قانون داں ، سیاست داں ، سائنس داں ،
سخن کے نکتہ داں غر ضیکہ سبھی اس کی جناب میں رطب اللسان دکھائی دینے لگے
…… لب و اہوگئے ……حرمین مقدس جومسلمانوں کی عقیدتوں اور الفتوں کا مرکز ہے
، وہاں کے علماے ذی شان نے بڑے پیارے پیارے القاب سے یا د فرمایا …… علامہ
شیخ ابوالخیر احمد میرداد مکی نے ’’ معرفت کا آفتاب ‘‘ کہا ، علامہ سید
اسمٰعیل خلیل مکی نے ’’یکتا ے زمانہ ‘‘ ، ’’ اپنے وقت کا یگانہ ‘‘ کہا ،
علامہ شیخ عبدالرحمن دھلان مکی نے ’’ علامۂ زماں ‘‘ کہا، علامہ شیخ احمد
الجزائری مدنی نے ’’یکتاے روز گار‘‘ کہا۔
بارگاہ سید عالم صلی اﷲ علیہ وسلم سے اسے جو نور علم ملا اور جو روشنی عطا
ہوئی اس سے اس نے فکروں کو روشن کیا…… اذہان وقلوب کو روشن کیا …… زمانے کو
روشن کیا …… اسے زمانہ مجدد اعظم امام اہل سنت امام احمد رضا محدث بریلوی
(۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء) کے نام سے جانتا ہے …… محدث بریلوی کے خلفا و تلامذہ ،
متوسلین و مسترشدین اور اولاد و امجا د سبھی چند آفتاب چند ماہتا ب تھے ……
ان میں کوئی صدرالشریعہ ہوا ، کوئی ملک العلما اور حجۃ الاسلام ……کوئی محدث
اعظم ہوا، کوئی مفسرا عظم …… کوئی مبلغ اعظم ہوا، کوئی فقیہ اعظم اور مفتی
اعظم …… مفتی اعظم علامہ شاہ محمد مصطفےٰ رضا نوری بریلوی (۱۴۰۲ھ/ ۱۹۸۱ء)
امام احمد رضا محدث بریلوی کے جانشین او ر فرزند اصغر تھے …… عالم اسلام کی
نگاہوں کا محور تھے …… افتا نویسی میں مہارت تامہ رکھتے تھے …… تقویٰ و
طہارت اور بلندیِ کردار سے متصف تھے …… مرجع فتاویٰ تھے …… ملت اسلامیہ کے
قائد اور مدبر تھے …… اپنے پیرو مرشد حضرت سید شاہ ابوالحسین احمد نوری
مارہروی (۱۳۲۴ھ/ ۱۹۰۶ء) کی نگاہوں کا سرور تھے …… نوریؔ نسبت نے آپ کو
’’نوری ؔ‘‘ بنادیا
فقط نسبت کا جیسا ہوں حقیقی نوریؔ ہو جاؤں
مجھے جو دیکھے کہہ اٹھے میاں! نوری میاں تم ہو
داخلی وخار جی طورپر رونما ہونے والے فتنوں نے ناموس رسالت کو ہی خصوصیت سے
نشانہ بنایا ہے بایں ہمہ مسلمانوں کی اجتماعیت کو پارہ پارہ ، قوت و عظمت
اور شوکت کو سرنگوں کیا جاسکتا تھا ۔ داخلی سطح پر وارد ہونے والے فتنوں کے
پس پشت جو قوتیں متحرک رہی ہیں ان میں سب سے زیادہ سرگرم یہود و نصاریٰ ہیں
۔ ہر دور میں علماے حق نے باطل کے حملوں ، سازشوں اورریشہ دوانیوں کے مقابل
ناقابل تسخیر حصار قائم فرما کر ان کے ہر حربوں اور سازشوں کو ناکام و
نامراد بنادیا۔
انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز کا عرصہ ناموس و عظمت رسالت
کے حوالے سے جس قدر لرزہ خیز تھا وہ اصحاب بصیرت اورتاریخ سے واقفیت رکھنے
والے افراد سے پوشید ہ نہیں ۔ خارجی طور پر علوم و فنون سے لیس ہو کر
مستشرقین اور مغربی مصنفین محاذ سنبھال چکے تھے ۔ ان کے حملوں کی جہات میں
سب سے فائق پہلو دوہی تھے ، رسول کو نین صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات گرامی اور
قرآن مقدس ۔
ملت اسلامیہ میں سرگرم فتنے اسلامی لبادے زیب تن کر رکھے تھے اور تصنیف و
تالیف کے ذریعہ اپنے مذموم نظریات ورجحانات کی تشہیر کررہے تھے ، اپنی
کتابوں میں حضور سید عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین وبے ادبی کا ارتکاب
کرکے عقائد کی تباہی و بربادی کا سامان تیار کرچکے تھے ۔ قرآن مقدس کے ایسے
ترجمے بھی منظر عام پر لائے گئے جن میں عظمت خدا ورسول ( عزوجل وصلی اﷲ
علیہ وسلم ) اور عصمت انبیا علیہم السلام پر حرف آتا تھا ، اس دور میں امام
احمد رضا محدث بریلوی نے اسلامی عقائد کا تحفظ فرمایا اور عظمت خدا ورسول (
عزوجل و صلی اﷲ علیہ وسلم ) کو مسلمانوں کے دلوں میں بٹھادیا، ادب و احترام
کی بنیادوں پر قرآن مقدس کا ترجمہ فرمایا جو ’’کنزالایمان ‘‘ کے نام سے
مشہور و معروف اور مقبول ہے۔
ماضی قریب میں عالمی سطح پر دنیا کے حالات بتدریج تبدیل ہوتے گئے ۔ خطۂ عرب
میں سلطنت عثمانیہ کا چراغ ٹمٹما رہا تھا اور اس کی بساط تیزی سے سمٹتی
جارہی تھی ، حجاز مقدس پر برطانوی سازشوں کے نتیجہ میں نجدی قابض ہوگئے تھے
، ادھر ہندوستان میں بھی انگریزی اقتدار قریب المرگ تھا لیکن جن فتنوں کی
تخم ریزی انگریزوں نے کی تھی وہ تنا ور ہوچکے تھے ۔ اور ہنود بھی خاصے
سرگرم تھے نیز در پردہ انہیں انگریزوں کی حمایت حاصل تھی۔ ۱۹۲۱ء میں امام
احمد رضا محدث بریلوی وصال فرما گئے ، محدث بریلوی کے بعد حضور مفتی اعظم
قدس سرہ نے باحسن طریق مسلمانوں کی قیادت کا فریضہ انجام دیا۔ اس دور میں
ہندوؤں سے اتحاد کے نام پر ان کے مذہبی شعار کو اپنا یا جارہا تھا ۔ دوسری
سمت مسلمانوں کو مرتد بنانے کے لئے ’’ شدھی سنگھٹن ‘‘ کا آغاز بھی کیا
جاچکا تھا ۔ اس محاذ پر مسلمانوں کے ایمان و عقیدے کی حفاظت و صیانت کے لئے
حضور مفتی اعظم قدس سرہ نے مساعی فرمائی اور ہندوؤں کے دام فریب میں آکر
مرتد ہوجانے والے لاکھوں افراد کو داخل اسلام کیا اس کے لئے ’’ جماعت رضائے
مصطفےٰ ‘‘ کی تشکیل فرمائی ۔ اس پلیٹ فارم سے محدث بریلوی کے تلامذہ ، خلفا
اورمریدین نے مجاہد انہ سرگرمیاں انجام دیں۔
حضور مفتی اعظم قدس سرہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ۔ جب بھی کوئی افتاد
پڑتی یا کہیں کوئی فتنہ نمودار ہوتا مسلمانوں کی نگاہ حضور مفتی اعظم قدس
سرہ کی طرف اٹھ جاتی اور آپ اس کا سدباب فرماتے ۔ بساط سیاست سے رونما ہونے
والے طوفانوں کا بھی مقابلہ جرأت وبے باکی سے فرمایا ۔ جب قلم بک چکے تھے ،
ضمیر کے سودے کئے جاچکے تھے ،گورنمنٹ کی جانب سے برتھ کنٹرول کے لیے ’’نس
بندی ‘‘کے قانون کا اطلاق کیا جارہا تھا ان حالات میں بھی حضور مفتی اعظم
قدس سرہ بناکسی لو مۃ لائم شریعت اسلامی کی پاسداری کے لئے کمر بستہ ہوگئے
اور نس بندی کے حرام ہونے کا فتویٰ صادر فرمایا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حالات کا
رخ بدل گیا ، شریعت سے کھلواڑ کرنے والے سرنگوں ہوگئے اور پھر سر نہ اٹھا
سکے ۔
موجودہ دور میں جب کہ عظمت رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم میں اہانت و گستاخی
کا ایک محاذ سرگرم ہے ۔ میڈیا پر انگریزوں اوریہودیوں کی اجارہ داری ہے ۔
اس کا نشانہ صرف اسلام ہے ۔ میڈیا اسلام کی جیسی تصویر چاہتا ہے وضع کردیتا
ہے ۔ ڈنمارک میں حضور سید عالم صلی اﷲ علیہ وسلم سے منسوب اہانت آمیز خاکوں
کی اشاعت ہوئی اورپھر پورا مغربی میڈیا اسی سمت چل پڑا۔ پریس کی آزادی کے
نام پر گستاخیوں کا طوفان امڈا اور صیہونی عزائم آشکار ہوگئے ۔
’’ الفرقان الحق‘‘ کے نام سے ایک کتاب اختراع کی گئی اسے اکیسویں صدی کا
قرآن قراردے دیا گیا ۔ قرآن مقدس کی حفاظت کا ذمہ توحق تعالیٰ نے لے رکھا
ہے :
اِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَوَاِنَّالَہ لَحٰفِظُوْنَ
’’بیشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بیشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں‘‘( الحجر
: ۹ / کنزالایمان)
اسلام کے خلاف متذکرہ سرگرمیوں کا اگر ہم جائزہ لیں تو محسوس ہوگا کہ اعداے
اسلام کے ان عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے آج شدید ضرورت ہوگئی ہے کہ حضور
مفتی اعظم قدس سر ہ کی تعلیمات اور آپ کے مشن پر عمل کیا جائے اور آپ کے
کار ہاے علمیہ کو منظر عام پر لاکر ایمان و ایقان کی کھیتی کوسر سبز و
شاداب کردیاجائے ۔
حضور مفتی اعظم قدس سرہ نے اپنے زر نگار قلم سے درجنوں کتابیں تصنیف کیں
اور ہزارہا فتاویٰ تحریر فرمائے ۔ دین پرثابت قدم رہنے کا درس دیا ،
کرامتوں کے ذریعہ شوریدہ دلوں میں ایمان کا نور بھر دیا،گناہوں اور برائیوں
کے خوگرنیکیوں کے پیکر بن گئے، عصیاں شعار نیکیوں کی راہ کے مسافر اور پھر
رہبر بن گئے ۔ آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ دین متین کے مقابل باطل کے
اٹھنے والے بگولوں کے سدباب کے لئے حضور مفتی اعظم قدس سرہ کے وضع کردہ
خطوط پرگامزن ہوکر ادیان باطل کے مکرو فریب کا دنداں شکن جواب دیا جانا
چاہئے ۔
نوٹ:یہ مضمون یادگاررضا (سال نامہ رضا اکیڈمی ممبئی)کے لئے الحاج محمد سعید
نوری صاحب کی فرمائش پرلکھاگیا۔جسے ہفت روزہ انوار کے صفحات پر پیش کیا
گیا۔ |