ایسا لگتا ہے سب نے طے کرلیا ہے
کہ کسی بھی اصول، ضابطے اور قانون کو خاطر میں لانا ہی نہیں ہے۔ معاشرے
اِسی صورت پھلتے پھولتے ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ سہولت بہم
پہنچائیں، آسانیاں فراہم کریں۔ معاشرے کا ہر فرد دوسروں کو پریشان کرنے ہی
کو زندگی کا بنیادی مقصد سمجھے تو کسی بہتری کی کیا توقع رکھی جاسکتی ہے؟
کراچی میں ہر طرف ایسے نظارے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو
زیادہ سے زیادہ تکلیف پہنچانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اور شاید یہ تصور کرلیا
گیا ہے کہ دوسروں کو تکلیف دینے سے قاصر رہنے میں ذلت اور توہین کا کوئی
پہلو ہے!
|
|
کہنے کو کراچی بین الاقوامی شہر ہے مگر اطوار سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں
کے ذہنوں میں دیہی کلچر بھی ڈھنگ سے کار فرما نہیں۔ چھوٹے دیہات میں بھی
لوگ ایسی لا پروائی کی زندگی بسر نہیں کرتے جیسی کراچی جیسے میگا سٹی میں
گزاری جارہی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ خود کو تعلیم یافتہ کہنے اور
کہلوانے والے بھی جہالت کے مظاہرے کرتے پھرتے ہیں۔ ایسے میں عام آدمی کی تو
بات ہی کیا کی جائے؟ شعور کی پست سطح کے حامل عام شہری مزدوری کے ذریعے گزر
بسر کرتے ہیں۔ ان سے کسی بہتر معاشرتی کردار کی توقع رکھنا عبث ہے۔ مہذب
معاشرے میں زندہ رہنے اور دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ کار آمد ثابت ہونے
کا تصور عنقا ہے۔ ہر شخص صرف اپنی سہولت دیکھتا ہے اور اپنا آرام یقینی
بنانا چاہتا ہے۔ اس کا نتیجہ دوسروں کے لیے پریشانی کی صورت ہی میں برآمد
ہوتا ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ پھل فروش اپنی گدھا گاڑی صدر جیسے
پُرہجوم علاقے میں سڑک کے بیچ میں کھمبے سے باندھ کر چلا گیا ہے۔ اس عمل سے
ٹریفک میں کس حد تک خلل واقع ہوسکتا ہے، اِس کا اندازہ لگانا کچھ دشوار
نہیں۔ یہ کوئی انوکھا منظر نہیں۔ شہر میں آپ کو جا بجا گدھے کسی نہ کسی شکل
میں دوسروں کے لیے مشکلات پیدا کرتے دکھائی دیں گے۔ اس تصویر میں جو گدھا
آپ کو دکھائی دے رہا ہے وہ بے قصور ہے۔ اصل گدھا پن تو یہ ہے کہ اُسے گاڑی
سمیت یوں باندھ کر دوسروں کو الجھن سے دوچار کیا جائے!
زندگی زیادہ سہل اِسی صورت ہوسکتی ہے کہ ہم ایک دوسرے سے تعاون کریں۔
اشتراکِ عمل کا فلسفہ یہ ہے کہ ہمیں دوسروں کے کام آنا چاہیے، اُن کے لیے
زیادہ آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں تاکہ وہ اپنا کام عمدگی سے انجام تک
پہنچائیں اور بہتر نتائج برآمد ہونے پر ہمیں اچھے الفاظ میں یاد کریں۔ اگر
ہم اپنی اپنی گدھا گاڑیاں سڑک کے بیچ میں کھڑی کرکے دوسروں کے لیے دشواریاں
پیدا کرتے رہیں گے تو زندگی کی گاڑی کیسے چلے گی؟ اور اِس سے بھی بڑھ کر یہ
کہ کراچی جیسے شہر کو آگے بڑھنے کا موقع کیسے ملے گا؟ جب تک ہم اپنے اور
دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا نہیں سیکھیں گے اور جب تک ہمارے قول و فعل
سے گدھا پن دور نہیں ہوگا تب تک گدھا گاڑیاں کسی نہ کسی صورت رکاوٹ بن کر
ہماری راہوں میں کھڑی ہوتی رہیں گی اور ہم اپنا سفر سُبک رفتاری سے جاری
نہیں رکھ سکیں گے۔ |