دنیا کی آبادی میں بہت تیزی سے
اضافہ ہو رہا ہے۔ وسائل کم اور آبادی زیادہ۔ یہ خلیج روز بروز بڑھتی جا رہی
ہے۔ تعلیم کی وجہ سے لوگوں میں ایک ذہنی انقلاب آیا ہے۔ اب لوگ زیادہ بچوں
کی بجائے کم مگر صحتمند بچوں کی بات کرتے ہیں جس کے نتیجے میں شرح پیدائش
میں زبردست کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ صحت کی بنیادی سہولتوں کے میسر ہونے کے
سبب اور سائنس کی ترقی کی وجہ سے شرح اموات میں بھی کمی آئی ہے لیکن ان
تمام باتوں کے باوجود روزانہ پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد تقریبا دو لاکھ
ہے۔ اعدادو و شمار کے مطابق 2011ءمیں پیدا ہونے والوں کی تعداد 135ملین اور
مرنے والوں کی تعداد 57ملین تھی۔ یوں دنیا میں رہنے والوں کی تعداد میں صرف
2011ءمیں 78ملین افراد کا اضافہ ہوا۔
1800ءمیں دنیا میں لوگوں کی تعداد فقط ایک ارب تھی ۔ سائنس ابتدائی مراحل
میں تھی۔ صحت کی بنیادی سہولتوں کا فقدان تھا۔ قحط ، بیماریاں ، سیلاب اور
قدرتی آفات بڑھتی آبادی کو فطری طور پر کنٹرول کرتے تھے۔ چنانچہ آبادی کو
دو گنا ہونے میں 127سال لگے۔ یوں 1927ءمیں دنیا کی آبادی دو ارب ہو گئی۔
سائنس کی ترقی کی بدولت انسان نے بیماریوں اور قدرتی آفات پر بڑی حد تک
قابو پالیا اور آبادی میں تیزی سے اضافہ شروع ہوا۔ فقط 33سال بعد 1960ءمیں
یہ آبادی 3ارب ہو گئی۔ اگلے چودہ سال بعد 1974ءمیں یہ چار ارب ، مزید 13سال
بعد 1987ءمیں پانچ ارب اور اس کے بارہ سال بعد 1999ءمیں چھ ارب ہو گئی۔
2012ءمیں مزید بارہ تیرہ سال گزرنے کے بعد یہ آبادی 7ارب سے زیادہ ہو چکی
ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں نے آبادی کو کنڑول کرنے کی ہر ممکن سعی کی ہے اور اس
میں بہت حد تک کامیاب ہیں۔ اُن کی آبادی میں اضافہ بہت کم نظر آتا ہے۔ مگر
ان تمام کوششوں کے باوجود ماہرین کے مطابق آج سے 12سال بعد 2025ءمیں آبادی
آٹھ ارب ، پھر مزید 18سال بعد 2043ءمیں نو ارب اور اگلے 40سال بعد 2083ءمیں
دس ارب سے زےادہ ہو جائے گی۔
پچھلے بیس برسوں میں دنیا کی آبادی میں تقریباً تیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ چین
آبادی کے لحاظ سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ چین نے آبادی کے بڑھنے پر بہت
زیادہ کنٹرول کیا ہے مگر اُس کے باوجود پچھلے بیس برسوں میں چین کی آبادی
میں 17.1فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ اس عرصے میں امریکہ میں اضافہ 22.5فیصد
،بھارت میں 40.2فیصد، بنگلہ دیش میں 41.3فیصد اور نائجیریا میں 62.4فیصد
ہے۔ پاکستان میں پچھلے بیس برسوں میں اضافہ 55.3فیصد ہے۔خاندانی منصوبہ
بندی سمیت تمام محکمے ہونے کے باوجود عملاً پاکستان میں آبادی کو کنٹرول
کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔
کسی بھی چیز کی آبادی یا تعداد اگر حد سے بڑھ جائے تو مسائل جنم لیتے ہیں۔
انسانی آبادی میں اضافہ بہت سے مسائل کا باعث ہے مگر انسان اُس کے بارے میں
متفکر ہے مگر یہ انسانی عادت ہے کہ جب تک مسائل پوری طرح انسان کو گھیر
نہیں لیتے انسان کسی بھی مسئلے کو مسئلہ نہیں سمجھتا ۔ بلکہ اُس کی طرف
دھیان بھی نہیں دیتا۔ آج انسانوں کی تعداد سے بھی زیادہ جس چیز کی تعداد
میں اضافہ ہو رہا ہے وہ سڑکوں پر نظر آنے والی رنگ برنگی کاریں ہیں۔ آج
دنیا میں روزانہ پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد تقریباً 2لاکھ ہے ۔
تقریباً75ہزار کے قریب مرنے والوں کو نکال کر ایک لاکھ 25ہزار ہے۔ انسانوں
کا اضافہ ہوتا ہے جبکہ روزانہ بننے والی کاروں کی تعداد 3لاکھ 65ہزار ہے ۔
یوں کاروں کی آبادی میں انسانوں کی نسبت اضافہ بہت زیادہ ہے۔ 2012ءمیں دنیا
میں 60ملین سے زےادہ کاریں بنائی گئیں۔ کاروں میں اضافے کا اندازہ اس بات
سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس انڈسٹری میں پاکستان کا حصہ اعشاریہ دو یا تین
فیصد کے لگ بھگ ہے۔ دنیا کی ہر چوتھی کار چین میں بنتی ہے۔ جس کا حصہ دنیا
کی مجموعی پیدوار میں 21فیصد سے زےادہ ہے۔ جاپان میں دنیا کی پیدوار کا صرف
12فےصد اور بھارت میں 5فیصد کاریں تیار ہو تی ہیں دنیا میں بننے والی
100گاڑیوںمیں 74فیصد گھریلو جبکہ 26فیصد گاڑیاں کمرشل ہوتی ہیں۔
آج سے دو دہائی پہلے پاکستان مین کار رکھنا عیش و عشرت اور مرتبے کی بات
سمجھا جاتا تھا۔ مگر بدلتے وقت کے ساتھ اب یہ انسانی ضرورت ہے۔ پہلے خاندان
میں ایک کار ہوتی تھی تو کافی سمجھا جاتا تھا۔ اب سارے خاندان کے پاس کار
ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ اب ہر فرد کی یہ انفرادی ضرورت
ہے۔ انسان نے اپنی آبادی کو کنٹرول کرنا شروع کر دیا ہے مگر ابھی کاروں کی
آبادی پر کنٹرول شروع نہیں کیا گیا۔ خصوصاً پاکستان کا مزاج عجیب ہے یہاں
حکمران ایسی باتوں کے بارے میں اُس وقت سوچ رہے ہوتے ہیں جب مسائل کی
صورتحال انتہائی بگڑ چکی ہوتی ہے۔
جاپانیوں نے بڑھتی ہوئی گاڑیوں کی تعداد کو گھٹایا تو نہیں مگر انہوں نے
بڑی گاڑیوں کی بجائے چھوٹی چھوٹی گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ یہ گاڑیاں
ایک تو جگہ کم گھیرتی ہیں اور دوسرا ان کا پیڑول کا خرچہ نسبتاً بہت کم
ہوتا ہے۔ پارکنگ کے مسائل بھی قدرے کم ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں ایلیٹ کلچر
نے لوگوں میں بڑی گاڑیوں کو زیادہ مقبول کر دیا ہے۔ لوگ بڑی بڑی گاڑیوں کو
ترجیح دیتے ہیں۔ جن کے استعمال سے ٹریفک، پارکنگ اور فیول کے زیادہ استعمال
جیسے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ پاکستان میں گاڑیاں بنانے والے بھی عوام کی
پسند کے پیش چھوٹے انجن والی گاڑیوں کے بھی حجم بڑے بڑے رکھتے ہیں۔ کیونکہ
لوگوں کو چھوٹے ڈیل ڈول والی گاڑیاں بھاتی ہی نہیں۔
گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے بڑھتے ہوئے مسائل بہت تیزی سے سامنے آرہے
ہیں۔ پارکنگ کے علاوہ شہروں میں گھنٹوں ٹریفک جام رہنا ایک معمول بنتا جا
رہا ہے۔ حکومت کو ان مسائل کے بارے میں سوچنا ہو گا کیونکہ گاڑیوں کی
روزانہ بڑھتی ہوئی تعداد سے ہماری سڑکوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ کاریں
بنانے والے اداروں کو بڑی گاڑیوں کی نسبت روڈ فرینڈلی چھوٹی گاڑیاں بنانی
ہوں گی۔ سوچنے والوں نے اگر اب بھی خیال نہ کیا تو چند سالوں میں بڑھتی
گاڑیوں سے پیدا ہونے والے مسائل عذاب کی صورت اختیار کر جائیں گے۔ |