آج سے ہزاروں سال قبل یونان کے
عظیم مفکر ارسطو نے اپنی کتاب ’’ریاست ‘‘میں تحریر کیا تھا’’ فرقہ پرستی
‘عصبیت ‘اونچ نیچ ‘چھوت چھات‘ذات پات‘خاندانی برتری جیسے انسانیت کش عناصر‘
جمہوری ملک کی موت کے اسباب ہیں۔ایک ملک تب ہی پرامن‘ پائیدار اور ترقی کی
راہوں پر گامزن رہ سکتا ہے جب ان غلاظتوں سے پاک ہوکو ئی ملک اسی وقت دنیا
میں اپنے بال و پر پھیلا سکتا ہے جب اسے اندرونی خلفشار سے محفوظ رکھا
جاسکے‘‘لیکن ہندو ستان جیسی عظیم جمہوریت کی بدقسمتی اس سے اوربھی زیادہ
کیا ہوگی کہ آج تک وہ ان تباہی خیزعناصرکی چیرہ دستیوں کی شکار ہے ۔آج بھی
جمہوریہ ہند میں ایسے عناصرپنپ رہے ہیں‘ نہ صرف پنپ رہے ہیں بلکہ دن بدن ان
کے حوصلے مضبوط ہوتے جارہے ہیں مزید بدقسمتی یہ ہے کہ ہندوستانی حکومت
‘عدلیہ اور پولیس ان پر قدغن لگانے کے بجائے مبینہ طور پر ان کا تحفظ کر تی
ہے اور انھیں ملک کا اول شہر ی کہہ کر دوسرے فرقوں پر ترجیح دیتی ہے ۔بالخصوص
مسلمان توآزادی کے بعد سے ہی ان کی دوگلی پالیسی کے شکار ہیں ۔ حالانکہ
مسلمانوں کی اس ملک کی تعمیر و ترقی اور خدمات و قربانیوں کی ایک طویل
تاریخ ہے جو مٹانے سے بھی نہیں مٹ سکتی ہے ۔
حالیہ دنوں فرقہ پرست اور فسطائی ذہنیت کے لوگ عروس البلا د ممبئی میں
ریلیاں نکا ل کر آتشزنی کی کوشش کر رہے ہیں اور بابو لین ناکہ پر واقع سو
سالہ قدیم مسجد پر نظر بد لگا کر اسے زمیں بوس کر نے کے منصوبے بنا ئے ہو
ئے ہیں ۔ پورے علاقے میں پولیس کے بل بوتے پر دہشت پھیلاتے ہوئے مسلمانوں
کے خلاف کھلے عام ا شتعال انگیزی اورزہر افشانی بھی کی جارہی ہے ۔چنانچہ
ممبئی میں واقع پی نارتھ لبرٹی گارڈن میں بجرنگ دل لیڈر شنکر گائیکر نے
دریدہ دہنی کر تے ہو ئے کہا کہ ’’اس ناجائز ڈھانچے کو فوراً توڑدینا
چاہیے۔مسلمان مسجد مدرسہ کیوں بناتے ہیں۔کیا یہاں سے امرت برستا ہے؟یا یہاں
سائنسدا ں بنتے ہیں۔ نہیں! بلکہ یہاں ناجائز ہتھیار بنا ئے جاتے ہیں اور
بچوں کو دہشت گرد بنایا جاتا ہے ۔انھیں ہندوؤں کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے ۔
جب بھی کو ئی نیا مدرسہ بنتا ہے بھارت ماتا کو خطرہ ہونے لگتا ہے ‘‘ پھر
حکومت کو ٹھینگا دکھاتے ہو ئے کہا کہ ’’ حکومت مسلمانوں کی منہ بھرا ئی
کرتی ہے ‘ہم پر دھارائیں لگانے کی بات کرتی ہے ۔ارے اسے دھارائیں لگانے سے
کیا ڈراتے ہو جو گنگا میں ڈبکی لگا چکا ہو ۔ حکومت سن لے! اگر اس نے کبھی
غلط نگاہ بھی ہندو بر ادری کی طر ف کی تو اس کا بہت برا حال ہو گا۔‘‘فرقہ
پر ست بکتا رہا اور پولیس تالیاں بجاتی رہی ‘ مہا را شٹرا حکومت خاموش رہی
۔نہ اُس زبان دراز کی گر فتاری کے وارنٹ جاری ہو ئے نہ ہی اسے زہر افشانی
سے رو کا گیا۔ یہ صرف ایک ممبئی کا ہی المیہ نہیں ہے بلکہ کل ہند وستان کی
یہی صورت حال ہے ۔کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک ۔راجستھا ن سے لے کر پنجاب
تک ۔آسام سے لے کر دہلی تک ۔ ہندوستانی مسلمان دوغلی پالیسی کے جہنم میں جل
ر ہے ہیں ۔وہ آہ بھی کرتے ہیں تو بد نام ہوجاتے ہیں اور دوسروں کو ان کے
قتل پر تمغے دیے جاتے ہیں ۔انھیں ملک کا بہی خواہ تصور کیا جاتا ہے۔حیرت تو
اس بات پر ہے کہ ریاستی حکومت اور مرکزی حکومتیں ایک ایک سچائی کوجانتی ہیں
۔فرقہ پرستوں کے ذہنوں میں پروردہ گندے خیالات بھی ان کے علم میں ہیں ۔ملک
کو بھگوا رنگ میں رنگنے کے منصوبوں کی انھیں عام آدمی سے زیادہ خبر ہے مگر
ان پر قدغن لگانے کی ہمت نہیں ۔ظالموں کا ہاتھ توڑنے کی جسارت نہیں
ہےپھرایسی حکومت کس کام کی ۔ ایسی حکومت کو ملک پر حکمرانی کا کیا حق حاصل
ہے جو اپنے شہریوں میں بھیدبھا ؤ کو فروغ دے ناانصافی کرے اور ظالموں سے
انھیں بچا نہ سکے ‘ایسی حکومت کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دینے کے قابل ہے ۔
بابو لین ناکہ مسجد منیجنگ کمیٹی کے ارکان کا بیان ہے کہ ممبئی پولیس نے
انھیں تھانے میں بلا کر تلقین کی کہ بجرنگ دل کے لوگ ریلی نکالنے والے ہیں
‘آپ لوگوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ صبرو ضبط سے کام لیں اور انھیں کامیاب
ریلی نکالنے دیں۔ پولیس سے تعاون کر یں ۔ہم نے ریلی نکالنے والوں کو بھی
بلایا ہے لیکن وہ نہیں آئے ۔‘‘ ہم کیا کہتے‘ صرف افسوس کر کے وہاں سے آگئے
۔دوسرے دن دیکھا کہ وہی پولیس والے فرقہ پرستوں کی حفاظت کر رہے ہیں اور وہ
مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں ۔ یہ کتنے بھید بھا ؤ کی بات ہے ۔یہ
کتنا دوہرا رویہ ہے جو مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے ۔یہ کیسی
نانصافی ہے ۔مسلمانوں کو کتنا بے بس ذہنی طور پر بیمار بنایا جارہا ہے ۔کیا
ایسے حالات میں ہندوستان تر قی کر سکتا ہے ؟ملک کو مرنے سے بچایا جاسکتا ہے
؟ کیا ملک ایسے عناصر کی موجو دگی میں زندہ رہ سکتا ہے ۔ کبھی نہیں ۔کسی
صورت میں نہیں۔
ایسی حکومت کس کام کی جس کی کو ئی کل ٹھیک نہیں ۔اس کا کو ئی دن ایسا گذرتا
جس دن اس کا کو ئی وزیر بدعنوانی کے الزام میں گر فتار نہ ہوتا ہو ۔کو ئی
دن ایسا نہیں جاتا جب اپوزیشن اس کی کالی کرتوتوں کے سبب اسے پارلیمنٹ میں
نہ گھیرتی ہو۔کبھی یہ گھوٹالہ کبھی وہ گھوٹالہ ۰انتہا ہی نہیں روز روز نئے
نئے اسکینڈل سامنے آتے ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق یوپی اے IIکے عرصے میں
جتنی بار پارلیمنٹ تعطل اور افراتفری کی شکار رہی ہے ایسی کبھی نہیں رہی ۔
اس کی پالیسیاں عوام دشمن۔اس کے منصوبے ہلاکت خیز۔ اس کا بجٹ عام شہریوں پر
ناقابل برداشت بوجھ ۔کچھ بھی درست نہیں ہے۔ اس موقع پر میں آبروئے صحافت
جناب کلدیپ نیر صاحب کے اس زریں خیال سے اتفاق کروں گا کہ’’از سر نو
انتخابات ہی موجود حالات سے نجات پانے کا واحد حل ہیں۔‘‘ آ پ لکھتے ہیں :
’’مرکز میں کانگریس کے زیر قیادت اتحاد کے تحت ہر چیز افراتفری کی شکار ہے
۔ایک بدعنوانی کی وبا ابھی ختم نہیں ہو پاتی کہ کو ئی دوسری بدعنوانی سر
ابھاکر ماحول کو مکدر کر دیتی ہے ۔ ملک کی آزادی سے لے کر اب تک کو ئی
حکومت ایسی ابتری اور بد نظمی کی شکار نہیں ہو ئی ہو گی جتنی منموہن سنگھ
کی حکومت ہو ئی ہے ۔(ایسی حکومت کے لیے میں بس یہی پیغام دینا چا ہوں گا
کہ)منموہن سنگھ کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ راشٹرپتی بھون جاکر اپنی حکومت کا
ا ستعفیٰ پیش کر دیں تاکہ انتخابات کی راہ ہموار ہو سکے ۔ (خاص مضمون :روزنامہ
انقلاب ‘ دہلی:27فروری 2013 بروز بدھ)
جناب کلدیپ نیر صاحب کے یہ خیالات وقت کی آواز اور ضرورت ہیں جن پر عمل کر
نا ملک کی رہی سہی ساکھ‘باقی بچی کچھ زندگی اور سانسوں کے لیے نہایت ضروری
ہے ۔اگر حکومت نے اس سنہری تجویز کو نظر انداز کر دیا تو وہ دیش کے کوچو ں
سے بڑی بے آبرو ہو کر نکلے گی اور شاید پھر کبھی اسے دہلی کے اقتدار پر
قابض ہونے کا موقع نہ ملے۔اب یہ حکومت کا اختیار ہے کہ وہ ملک کو زندگی
دینا چاہتی ہے یا اپنے ساتھ اسے بھی موت کے غار میں دھکیلنا چاہتی ہے۔
احساس
یہ صرف ایک ممبئی کا ہی المیہ نہیں ہے بلکہ کل ہند وستان کی یہی صورت حال
ہے ۔کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک ۔راجستھا ن سے لے کر پنجاب تک ۔آسام سے
لے کر دہلی تک ۔ ہندوستانی مسلمان دوغلی پالیسی کے جہنم میں جل رہے ہیں ۔وہ
آہ بھی کرتے ہیں تو بد نام ہوجاتے ہیں اور دوسروں کو ان کے قتل پر تمغے دیے
جاتے ہیں ۔انھیں ملک کا بہی خواہ تصور کیا جاتا ہے اور مسلمانو ں کو غدار
‘دہشت گر د اور نہ جانے کیاکیا۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ ریاستی حکومت اور
مرکزی حکومتیں ایک ایک سچائی کوجانتی ہیں ۔فرقہ پرستوں کے ذہنوں میں پروردہ
گندے خیالات بھی ان کے علم میں ہیں ۔ملک کو بھگوا رنگ میں رنگنے کے منصوبوں
کی انھیں عام آدمی سے زیادہ خبر ہے مگر ان پر قدغن لگانے کی ہمت نہیں ۔ظالموں
کا ہاتھ توڑنے کی جسارت نہیں ہے پھرایسی حکومت کس کام کی ۔ ایسی حکومت کو
ملک پر حکمرانی کا کیا حق حاصل ہے جو اپنے شہریوں میں بھیدبھا ؤ کو فروغ دے
‘نانصافی کرے اور ظالموں سے انھیں بچا نہ سکے ایسی حکومت کوڑے کے ڈھیر میں
پھینک دینے کے قابل ہے ۔ |