میں اپنے عزیز و عقارب سے میل
ملاپ و کچھ دیگر معاملات کے سلسلہ میں گزشتہ دو ہفتوں سے لاہور تھاوہا ں
اِن سب سے ملاقاتوں میں ایسے وقت گزرا کہ پتہ ہی نہ چلا ،یہی وجہ تھی کہ
واپسی کو دل نہ چاہ رہا تھا، اس دوران وہاں مُجھے بہت کچھ دیکھنے اور سننے
کے بعد سیکھنے کو ملا ،اِن دِنوں میری آخری ملاقات معروف صحافی و سینیئر
کالم نگار میاں حبیب اللہ صاحب سے ہوئی جو تھی تو بہت ہی قلیل وقت کی مگر
اُن کے شفیق روییہ میں پیار بھری کھری کھری باتوں نے اس چند منٹوں کی
ملاقات کو سب سے زیادہ لطف اندوز بنا دیاملاقات تو ایک اور عظیم ہستی سے
بھی ہوئی مگر نہ میں یہاں اُن کا نام لکھ سکتا ہوں اور نہ ہی میرے پاس وہ
الفاظ ہیں جن سے میں اُس ہستی کے ساتھ گزرے انتہائی خوبصورت لمحات بیان کر
سکوںجس کی وجہ اُن کے مقابلہ میں میراخود کو کُچھ بھی نہ سمجھنا ہے اور یہ
لمحات میرے لئے زندگی میںکبھی نہ بھولنے والے ہیںمیری اس ملاقات کے حوالہ
سے بہت سے قارئین بہت ہی زیادہ مجھ سے سوالات تو کریں گے مگر میں ابھی ہی
بتا دوں کہ اس ملاقات کے حوالہ سے میرے پاس کسی کے بھی سوال کاکوئی جواب نہ
ہے لہذااس سلسلہ میں کسی کو بھی زحمت کرنے کی ضرورت نہیں اس کے علاوہ ہر
بات کا جواب حاضر ہے-
وہاں بہت سے جرنلسٹوں سے بھی ملاقاتیں ہوئیںجِن میں کُچھ خود کو جوفرعون
اور علاقائی سطح سے آنے والے جرنلسٹوں کو بھیڑ بکریاںسمجھتے تھے اُن سے بھی
ملامگر حقیقت یہ ہے کہ علاقائی سطح کے جرنلسٹ ہر طرح سے اُن کی نسبت بہتر
ہیںوہ نہ کسی غیر قانونی دھندہ میں ملوث ہیںنہ سیاستدانوں یا بیوروکریسی کے
تلوے چاٹنے والے ،جان جاتی ہے تو جائے یہ حقائق لکھنے سے باز نہیں آتے یہی
وجہ ہے کہ یہ لوگ مال دار کوٹھی گاڑی اوربنگلوں کے مالک نہیں ہوتے وہ حلال
کماتے ہیں حلال کھاتے ہیں اور جب کسی بڑے بھیڑیئے کا لباس اُتارنے کی کوشش
کرتے ہیں تو اِن کے ہیڈ آفسز میں بیٹھے یہی لوگ اُس بھیڑئے سے ڈیل کرکے
گھاڑیاں بنگلے لیتے ہیںاور اگلے دن خبر نہ چھپنے کی وجہ جاننے پر جواب ملتا
ہے کہ جگہ نہیں تھی ،لیٹ بھیجی گئی ،موقف نہیں لکھا،موقف درست نہ تھا،یہ
کوئی خبر نہ تھی یا پھر آواز آتی ہے کہ موصول ہی نہیں ہوئی ؟؟؟؟؟؟؟اگر ایسا
نہیں تو پھر کوٹھیاں بنگلے اور گاڑیاں کہاں سے آئیں؟اب کہیں گے کہ حکومتی
اشتہارات سے یا کہیں گے کہ ہمارے بڑے بڑے سائیڈ بزنس ہیں اگر ایسا ہے تو یہ
سائیڈ بزنسز کیلئے اتنا پیسہ کہاں سے ملا اور اتنے اشتہا رات دینے کی حکومت
کو کیا ایسی ضرورت پیش آئی کہ جن سے اخبارات بھی پرنٹ ہو گئے اور بچت بھی
اتنی آگئی کہ گاڑیا ں بنگلے خرید لئے گئے ،مُجھے تو دس سال ہوگئے شعبہ
صحافت سے وابستہ ہوئے میرے پاس اتنے اشتہارات کیوں نہ آئے یہاں یہ بھی میں
وضاحت کر دوں کہ حکومتیں یہ اشتہارات بطور رشوت دیتی ہیںاپنی کالی کرتوتیں
چھپانے کیلئے ،جومُجھے اس لئے نہ ملے کہ نہ مجھے حقائق چھپانے کی عادت ہے
نہ سودے بازی کی زمین کا سینہ چیر کے روزی کماتا ہوں اور الحمد اللہ حلال
کھاتا ہوں نیند کی گولی کھا کے سونے کی کبھی ضرورت پیش نہیں آئی اور مجھے
اس بات پہ بھی فخر ہے کہ میں بلیک میلر یا کسی بلیک بزنس کرنے والے کا بیٹا
نہیں مزدور کی اولاد اور خود بھی مزدور ہوںجتنی تعلیم حاصل کی ایمانداری سے
کی اس لئے پر سکون ہوں کہ میری کوئی ڈگری جعلی نہیں میں نے کسی دوسرے کو
امتحان میں بٹھا کرڈگریاں نہیں لیںمُجھے غیر ملکی زبانوں کا بھی کوئی شوق
نہیں شوق ہے تو اپنی قومی زبان کا جو میں بولتا ہوں خیر ایک اور بات تھی جو
میں اپنے قارئین کی نظر کرنا چاہوں گا وہ یہ کہ وہاں میں نے اپنے ایک دوست
کو ایک خبر سنائی اور کہا کہ کیسی ہے اُس نے جواب دیا کہ بھائی یہ خبر تو
بہت ہی زیادہ تہلکا مچا دینے والی ہے مگرشائع کوئی نہیںکرے گا میں نے وجہ
پوچھی تو جواب ملا کہ صوبائی حکومت اشتہارات بند کردے گی اور اُس خبر کا
یہاں بھی میں اسی لئے ذکر نہیں کر رہا کہ کالم کی اشاعت ہی نہ کہیںرُک جائے
-
انتہائی اذیت دے وہاں کی ٹریفک اور راستے تھے جو حال ہی میں ہونے والی بارش
کے سبب مذید اذیت دے ہو چُکے تھے وہاں دس کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا چالیس
کے برابر لگ رہا تھاہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ اور پانی ہی پانی تھاجس کے سبب
لوگوں میںڈینگی و دیگر طرح طرح کی بیماریوں کے پھر سے سر اُٹھا لینے کے
شدید ترین خدشات پائے جا رہے تھے لوگ سخت مشکلات کے ساتھ ساتھ خوف ہراس سے
بھی دوچار تھے ایک اور بات جو اِس دفعہ میں نے بڑی نوٹ کی کہ ہر چھوٹا بڑا
ٹرانسپورٹر ہر سیدھے سادھے اجنبی کوانتہائی بے رحمی سے لوٹنے میں مصروف تھا
کہیں دھوکہ دہی کے ذریعے تو کہیں اوور لوڈنگ کرکے،یوں لگ رہا تھا کہ
انتظامیہ کو آرام پرستی اور حکومت کو سڑکوں کی اُکھاڑ پچھاڑ کے ذریعے اپنے
اور اپنی اولاد کے بڑے بڑے بورڈزاور فلیکسزلگا کر سیاسی دکانداری چمکانے کے
علاوہ کوئی اورکام ہی نہ ہے-
اتنے دنوں سے کالم نہ لکھ سکنے کی وجہ صرف اور صرف مصروفیات کا کچھ زیادہ
ہی بڑھ جانا تھا اس کے علاوہ کچھ نہیں اور واپس اپنے آبائی شہر بھی میں کچھ
دنوں کے لئے ہی آیا ہوں مستقل طور پر نہیںآئندہ جہاں بھی رہا اپنے معزز
قارئین کو تمام تر حالات و واقعات سے آگاہ کرتا رہوں گا فی الحال اتنا ہی
اپنا خیال رکھئے گااور اپنی آرا سے ضرور نوازیئے گا۔ |