گجر قوم اور کچھ حقائق

اللہ تعالٰی نے انسان کو پیدا فرمایا تو اس کو تعارف بھی بخشا۔ اربوں کی تعداد میں انسان موجود ہیں اور اولادِ آدم نے اپنی اپنی پہچان کے لئیے خود کو قبائل میں تقسیم کر لیا ہے جو کہ ایک درست فعل ہے۔ خود خالق ِارض و سماوات نے قرآن حکیم میں اس بات کی تائید فرمائی ہے کہ قبیلہ یا ذات تمہارے تعارف اور پہچان کے لئیے ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی ایک مخصوص قبیلے کو کسی دوسرے پر برتری حاصل ہے بلکہ اس آیت میں یہ بھی واضح فرما دیا کہ اللہ تعالٰی کے ہاں عزت و عظمت اسی کی ہے جو متؔقی و پرہیزگار ہے۔

کچھ دنوں سے گجروں کے بارے میں ایک مضمون گردش کر رہا ہے جو کہ تمسخر اور فضول گوئی کے زمرے میں آتا ہے۔ میں نے اس کو نظر انداز اس لئیے کر دیا تھا کہ لکھنے والے کی تحریر سے صاف واضح ہو رہا تھا کہ تحریر و تقریر میں اس کا کوئی استاد ہے نا سند۔ اور اس طرح کے مضامین پر ردِؔ عمل لکھنا اپنا وقت اور الفاظ ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ قبلہ عشرت اقبال وارثی صاحب نے اس کو آڑھے ہاتھوں لیا اور علمی بنیادوں پر اس کامحاسبہ فرمایا۔ اب میرے لئیے خاموش بیٹھنا مشکل ہو گیا لہٰذا میں نے ارادہ کیا کہ تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ علمی و تحقیقی بنیادوں پر کچھ لکھوں جس سے قارئین کو حقائق سے آگاہی ہو۔ کسی مخصوص قبیلہ کی تشہیر یا مدح سرائی مقصود نہیں بلکہ تمسخر اور مذاق کا جواب دینا مقصد ہے۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو احسن تقویم پر تخلیق فرمایا ہے، اب یہ اس کا اپنا اختیار یا قسمت ہے کہ وہ خود سے کیا کام لیتا ہے۔

گجر قبیلہ دنیا کے مختلف ممالک میں موجود ہے اور اس کے ذیلی قبائل کو مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے۔ مثلاً پاکستان ہندوستان میں گجر قبیلہ کے ذیلی قبائل کو چوہان، چیچی، ٹھیکری، پڈانہ، کھٹانہ وغیرہ۔ گجر قبائل اپنے ناموں کے ساتھ سردار، چوہدری، ملک ، میاں اور نواب وغیرہ کی اضافتیں اور خطابات بھی استعمال کرتے ہیں۔

گجروں کے بارے میں ویکیپیڈیا کہتا ہے؛
”گجر،گرجر یاگوجر دنیاکی ایک اہم ذات ہے۔ اس قبیلے کے لوگ بھارت، پاکستان کشمیر، صومالیہ، برما،چیچنیا ، کرغزستان ، ایران ،چین اورافغانستان میں بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ برصغیر کی قدیم ترین آبادی ہے۔ اور اس علاقہ کے آباد کرنے والی یہی قوم ہے۔ اسی وجہ سے کہ برصغیر کے بہت سے اضلاع و علاقے ان کے نام سے موسوم ہیں۔ مثلا پاکستان میں گوجرانوالہ، گجرات ،گوجرخان،گجر گڑھی، پنڈ گجراں،جنھڈاچیچیاں اوربھارت میں صوبہ گجرات اور اس طرح کے بے شمار گاؤں پاکستان بھارت میں موجود ہیں جو گجر قوم کے نام سے موسوم ہیں ۔ ہزارہ گزیٹیئر میں ہزارہ کو آباد کرنے والی قوم گجر ہے۔ جو صدیوں سے آبادچلی آرہی ہے۔ اور ہزارہ کے قدیم باشندے یہی لوگ ہیں "۔

افغانستان کے 45 ٪ قبائل گجر یا گجروں کے ذیلی قبائل سے تعلق رکھتے ہیں، پاکستان اور بھارت دونوں اطراف کے کشمیر میں گجر سب سے بڑا قبیلہ ہیں۔ ہندکو، شینا، بلتی اور گلگتی علاقوں میں گجر بکثرت موجود ہیں۔ گجر واحد قوم ہیں جن کی اپنی "گوجری" زبان ہے جو پاکستان، کشمیر اور ہندوستان کی جامعات میں ایک مکمل مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے۔ ہند و پاک کے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں باقاعدہ گوجری زبان میں خبروں کی نشر و اشاعت ہوتی ہے۔ جہاں تک دودھ کے کاروبار کو گجروں سے منسوب کیا جاتا ہے تو اس کی حقیقت سے اکثریت نابلد ہے۔ بھینسوں کا پالنا اور دودھ فروشی کے وجہ سے پہچان رکھنا ، یہ امتیاز صرف اور صرف پنجاب با لخصوص ضلع لاہور کے گردو نواح میں ہے اور اس کی وجہ مندرجہ ذیل روایت ہے۔

کہا جاتا ہے کہ سیدنا علی ہجویری المعروف حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے مرشد کریم کے حکم سے جب لاہور تشریف لائے تو اس وقت کفر و شرک اپنے عروج پر تھا۔ مشرک سادھو اور پنڈت لوگوں کے اعمال و افعال، مال و متاع پر مضبوط گرفت رکھتے تھے۔ دریائے راوی کے کنارے گجر قبائل نے ڈھیرے جما رکھے تھے اور دودھ فروشی کیا کرتے۔ لاہور میں ایک مشرک جادوگر تھا اس نے ہر گھر پر پابندی لگا رکھی تھی کہ وہ اپنے دودھ فروشی کے کاروبار کا ایک مخصوص حصہ اس کے دربار پہنچایا کریں۔ اگر کسی وجہ سے اس کو دودھ کا حصہ نا پہنچ پاتا تو ان کی بھینسیں دودھ دینا بند کر دیتیں اور یہ اس جادوگر کے جادو کہ وجہ سے ہوتا تھا۔ (یہ جادو آج کل آپ کو پاکستان کے مختلف اداروں میں بھی نظر آتا ہے جس کو بھتؔہ مافیا کہا جاتا ہے)۔ حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ولایت و عظمت اور آپ کی لاہور آمد کا چرچا ہو چکا تھا، ایک درد مند کے ذریعے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو خبر ہوئی کو ہندو جادوگر کی اس مذموم حرکت کی وجہ سے لوگوں کے مویشی اور کاروبار خراب ہو رہے ہیں۔ آپ نے گجروں کو بلا کر فرمایا آج کے بعد اس جادوگر کو بھتہ دینے کی ضرورت نہیں، اللہ تعالٰی آپ لوگوں کے مال و مویشی کو سلامتی دے گا۔ لوگوں نے اللہ کے ولی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس جادوگر کو دودھ دینا بند کر دیا۔ اس کو تشویش لاحق ہوئی، معلوم ہوا کہ اللہ کا ایک ولی لاہور میں آیا ہے اور اس نے لوگوں کو مجھ سے دور کر دیا ہے۔ جادوگر نے اس بات کو سنجیدگی سے محسوس کیا اور داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا سامنا کرنے کا اعلان کر دیا۔ ملاقات کے لئیے وقت اور جگہ مقرر کی گئی۔ وقت مقررہ پر حضور داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور جادوگر پہنچ گئے۔ جادوگر نے آپ کی عظمت کو للکارا اور اپنے جادو اور فن کے ذریعے آپ کو شکست دینے کا اعلان کا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو مخاطب کر کے کہنے لگا کہ میں ہوا میں پرواز کر سکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا پرواز کر کے دکھاؤ۔ لوگوں نے دیکھا کہ جادوگر محوِ پرواز ہو گیا۔ حاضرین کا یقین کمزور پڑنے لگا کہ اللہ کے ولی نے اپنے جوتے کو حکم دیا کہ ہوا میں پرواز کرے اور اس کافر جادوگر کے سر میں جا برسے۔ جو اپنی طاقت سے ہوا میں گیا تھا اللہ کے ولی کے جوتوں کی بارش میں واپس زمین پر آگیا اور ہمیشہ کے لئیے فنا ہو گیا۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کی رضا دین پر استقامت میں ہے نا کہ کرامت میں۔

اس دن سے آج تک لاہور کے گجر داتا دربارکی غلامی قبول کئیے ہوئے ہیں اور ہر سال عرس شریف پر تینوں دن دودھ کی سبیل لگاتے ہیں۔ گجروں کے وسیلہ سے ہی اللہ نے لاہور کو کفر وشرک کے اس سرغنہ سے نجات دلائی۔

موجودہ وقت میں اگر صرف پاکستان کی بات کریں تو گجر قبائل ملکی تعمیر و ترقی میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ محراب و منبر ، جدید علوم و فنون، سیاست و قیادت، فلاحی و تعمیری میدان ہوں یا پھر بین الاقوامی سطح پر ملکی و ملی خدمات۔۔ گجر آپ کو ہر سطح پر نظر آئیں گے۔ اولیاء کی صف میں دیکھا جائے تو ماضی قریب میں کلامِ سیف الملوک کے خالق سراج السالکین میاں محمد بخش عارفِ کھڑی شریف، خالقِ "پاکستان" چوہدری رحمت علی جیسے بزرگ اسی قبیلے سے تھے۔ جو لوگ گجروں کو پسماندہ طبقہ سمجھتے ہیں ان کی آنکھیں کھول دینے کے لیئے ڈاکٹر نعمت علی جاوید کی مثال حاضر ہے جو ایٹمی سائنسدان اور اٹامک انرجی کمیشن کے اعلیٰ عہدیدار تھے۔ ٹی وی اینکرز، جید صحافی، علماء اور اساتذہ بھی موجود ہیں۔ سب کا نام یہاں لکھنا مناسب نہیں اور ممکن بھی نہیں۔ مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی منیب الرحمٰن صاحب جیسے عظیم فقیہ کا تعلق بھی گجر خاندان سے ہے۔ تمام بڑے بڑے روحانی مراکز اور آستانے بھی گجر اولیاء سے ہی منسوب ہیں۔ ماضی اور حال میں پاکستان کی اعلٰی سیاسی قیادت، ممبرانِ اسمبلی، سپیکر اسمبلی، اعلٰی جج صاحبان، وکلاء ڈاکٹر، علماء بیورو کریٹ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئیرمین اور دیگر انتظامی افسران بھی گجر ہیں۔ میں کئی ایسے گجر حضرات کو جانتا ہوں جو یورپ، مشرقِ وسطیٰ و بعید، امریکہ و آسٹریلیا جیسے ممالک کی بین الاقوامی تجارتی فرموں میں اعلٰی ترین عہدوں پر فائز ہیں۔

جہاں تک جھگڑالو اور فسادی رویہ کی بات ہے تو یہ بنی نوعِ انسان کا مشترکہ المیہ ہے نا کہ کسی مخصوص ذات اور قبیلہ کا۔ اچھائی اور برائی ہر قبیلہ میں موجود ہے حتٰی کے درِ کعبہ کے قرب و جوار میں بھی اور پاپائے روم کے آستانے کے نواح میں بھی، ہیکلِ سلیمانی کے متلاشیوں میں بھی اور رام کے پجاریوں میں بھی۔

استہزاء اور تمسخر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو سخت ناگوار گزرتا ہے۔ اپنے فن اور فضل کے دکھاوے کے لئیے کسی کا مذاق اڑانا قابلِ مذمت ہے۔ تمام قبائل اور قومیں اپنے ایمان اور تقویٰ کی بنیاد پر قابلِ عزت ہیں، کوئی موچی ہے یا نائی، خاکروب ہے یا تخت نشین، دھوبی ہے یا ٹیکسٹائل مل کا مالک۔۔۔ عزت کا پیمانہ صرف اور صرف ایمان اور تقویٰ ہے۔ آخر میں اس آیت کا ترجمہ ملاحظہ ہو اور مسخروں کو اس حکمِ ربانی سے نصیحت پکڑنی چاہئیے۔

ترجمہ؛ "اے ایمان والو! نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے، دور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نا کرو اور ایک دوسرے کے برے نام نا رکھو، کیا ہی برا نام ہے مسلمان ہو کر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں"۔
الحجرات۔ آیت نمبر 49
Iftikhar Ul Hassan Rizvi
About the Author: Iftikhar Ul Hassan Rizvi Read More Articles by Iftikhar Ul Hassan Rizvi: 62 Articles with 237811 views Writer and Spiritual Guide Iftikhar Ul Hassan Rizvi (افتخار الحسن الرضوی), He is an entrepreneurship consultant and Teacher by profession. Shaykh Ift.. View More